• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • صدر کی جانب سے انتخابات کی تاریخ کا تعین/محمد مشتاق

صدر کی جانب سے انتخابات کی تاریخ کا تعین/محمد مشتاق

پنجاب اور خیبر پختونخوا کی صوبائی اسمبلیاں تحلیل ہوچکی ہیں لیکن ابھی تک انتخابات کی تاریخ کا تعین نہ گورنرز نے کیا اور نہ ہی الیکشن کمیشن نے۔
لاہور ہائی کورٹ کے سامنے گورنر نے یہ موقف اختیار کیا کہ انھیں آئینی استثنا حاصل ہے جس کی وجہ سے عدالت انھیں حکم نہیں دے سکتی، جبکہ الیکشن کمیشن نے یہ موقف اختیار کیا کہ اس کے پاس تاریخ مقرر کرنے کا اختیار ہی نہیں ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ دونوں میں کسی نے بھی یہ نہیں کہا کہ انتخابات 90 دن کے اندر ہونے لازمی نہیں ہیں۔
چنانچہ لاہور ہائی کورٹ نے کہا کہ 90 دن کے اندر انتخابات کے لازمی ہونے پر تو اتفاق ہوا۔ اب چونکہ یہ بھی طے ہے کہ آئین کی رو سے انتخابات کا انعقاد (organize) الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے، تو اس نے اس کےلیے الیکشن کمیشن کو حکم دے دیا۔

الیکشن کمیشن نے کہا کہ تاریخ تو ہم مقرر کر نہیں سکتے لیکن گورنر سے مل لیتے ہیں۔ گورنر نے کہا کہ اس صورت میں جبکہ اسمبلی کی تحلیل میں نے نہیں کی، تو تاریخ مقرر کرنا میری ذمہ داری نہیں ہے۔
اس موڑ پر صدر نے مداخلت کی اور انھوں نے الیکشن کمیشن کو خط لکھا جس کے جواب میں الیکشن کمیشن نے پھر معذوری ظاہر کردی۔
اب کے صدر نے خود الیکشن کی تاریخ مقرر کردی۔

اب سوال یہ ہے کہ ایسا کرنے سے قبل صدر پر لازم تھا کہ وہ وزیر اعظم سے پوچھتے؟ کیا اس معاملے میں وہ وزیرِ اعظم کا مشورہ ماننے کے پابند ہیں؟
واضح رہے کہ صدر بعض امور میں وزیرِ اعظم کے مشورے کے پابند ہیں اور بعض میں نہیں ہیں اور ان امور کی تشریح میں سپریم کورٹ کا تفصیلی فیصلہ موجود ہے۔ انتخابات کی تاریخ مقرر کرنے کا معاملہ کس نوع سے تعلق رکھتا ہے؟

چونکہ انتخابات کے متعلق خصوصی قانون، الیکشن ایکٹ 2017ء، میں ایسی کوئی شرط نہیں رکھی گئی کہ وہ اس معاملے میں وزیرِ اعظم کے مشورے پر عمل کریں، اس لیے بظاہر وہ اس کے پابند نہیں ہیں۔ یہ امر بالخصوص قابلِ توجہ ہے کہ الیکشن ایکٹ کی دفعہ 57 میں جہاں انتخابات کی تاریخ مقرر کرنے کا ذکر ہے، وہاں صرف الیکشن کمیشن کے ساتھ مشاورت کی قید ذکر ہے۔

اس کے جواب میں دو باتیں کہی جاسکتی ہیں:
ایک یہ کہ مذکورہ دفعہ میں وزیرِ اعظم کے عدمِ ذکر سے یہ لازم نہیں اتا کہ وزیرِ اعظم سے پوچھنا ضروری نہیں ہے اور چونکہ ہمارا نظامِ حکومت پارلیمانی ہے، اس لیے صدر ہر معاملے میں وزیرِ اعظم کے مشورے کا پابند ہے، سواے ان امور کے جن کی استثنا آئین میں دی گئی ہو؛ اوردوسری یہ کہ اگر الیکشن ایکٹ کی رو سے وزیرِ اعظم سے مشورہ ضروری نہیں ہے، تو اس قانون کی یہ شق ہی آئین سے متصادم ہے اور اس بنا پر اسے کالعدم قرار دینا چاہیے۔

اس کے جواب میں صدر کے حق میں یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ اصول یہ ہے کہ کسی قانون کو آئین سے متصادم قرار نہیں دیا جاسکتا، جب تک ایسا کرنے کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہ ہو۔ چونکہ آئین نے صدر کو ایسا کرنے سے روکا نہیں ہے، اور قانون نے صدر کو ایسا کرنے کی اجازت دی ہے، تو اس اجازت کو غیر آئینی نہیں کہا جاسکتا کیونکہ اس سے کسی مخصوص آئینی شق کی خلاف ورزی نہیں ہورہی۔ اس کے ساتھ اس بات کا اضافہ کیجیے کہ آئین کی رو سے 90 دن کے اندر انتخابات ضروری ہیں اور ایسی صورت میں جبکہ گورنر اور الیکشن کمیشن دونوں کا کہنا ہے کہ وہ تاریخ مقرر نہیں کرسکتے، تو آئین کی خلاف ورزی کا راستہ روکنے کا اور کون سا راستہ باقی بچا تھا؟ قانون کا مسلمہ اصول ہے کہ قانون کے سامنے بند گلی نہیں ہوتی، یعنی قانون کے اندر ہر مسئلے کا حل موجود ہے اور موجودہ صورتِ حال میں یہی حل تھا۔

ایک اعتراض یہ بھی ہوسکتا ہے کہ الیکشن کمیشن کے ساتھ “بامعنی مشاورت” ضروری تھی، جو نہیں کی گئی۔ اس کے جواب میں کہا جاسکتا ہے کہ صدر کی جانب سے الیکشن کمیشن کو خط لکھنا اور الیکشن کمیشن کا جواب میں معذوری ظاہر کرنا بامعنی مشاورت کی شرط پوری کرنے کےلیے کافی ہے۔

بہرحال، اس مسئلے کے فیصلے کےلیے تین قانونی سوالات کے جوابات ضروری ہیں:
ایک یہ کہ کیا انتخابات کی تاریخ مقرر کرنے کے معاملے میں صدر پر لازم تھا کہ وہ وزیرِ اعظم سے مشورہ کرتے اور پھر وزیرِ اعظم کا مشورہ ماننا ان پر لازم تھا؟

دوسرا یہ کہ اگر اس معاملے میں الیکشن ایکٹ کی دفعہ 57 کی رو سے وزیرِ اعظم سے مشورہ لینا لازم نہیں تھا، تو کیا اس ایکٹ کی مذکورہ دفعہ آئین کی دفعہ 48 (1) سے متصادم ہے؟

تیسرا یہ کہ اگر الیکشن ایکٹ کی دفعہ 57 اور آئین کی دفعہ 48 (1) میں تصادم نہیں ہے، تو کیا صدر اور الیکشن کمیشن کے درمیان خط و کتابت”بامعنی مشاورت” کی شرط پوری کرنے کےلیے کافی تھی؟
ان تینوں سوالات کے جوابات صرف سپریم کورٹ ہی دے سکتی ہے۔ اس لیے بال اب چیف جسٹس کی کورٹ میں ہے!

Advertisements
julia rana solicitors

البتہ سیاسی کھیل کے تناظر میں دیکھیں، تو یہ اب تک پی ٹی آئی کی جانب سے کیا گیا سب سے اہم اقدام ہے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply