پاکستان ۔۔۔ افغان مسئلے کا یوریشین حل ۔۔۔ اینڈریو کوربیکو

پاکستان ۔۔۔ افغان مسئلے کا یوریشین حل

تحریر : اینڈریو کوریبکو

Advertisements
julia rana solicitors

رواں ماہ کی 15 تاریخ کو ماسکو میں افغان مسئلے پر مذاکرات منعقد ہو رہے ہیں جس میں افغانستان، ایران، پاکستان، بھارت، چین اور روس شرکت کریں گے۔ ان مذاکرات کے لیے روسی وزارت خارجہ کے جنوبی ایشیائی ڈیسک اور ان مذاکرات کے معمار ضمیر کابلوف نے امریکا کو بھی دعوت نامہ بھجوایا ہے تاہم یہ بات واضح کی گئی ہے کہ امریکا خطے کی طاقتوں کے ساتھ تعمیری سوچ اور افغانستان میں اپنے لائحہ عمل کی وضاحت کے ساتھ شرکت کرے۔ ضمیر کابلوف نے یہ شرط غالباً اس لیے عاید کی ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ نے ابھی تک افغانستان کےمتعلق پالیسی ترتیب نہیں دی اور اگر اس کے باوجود امریکی ان مذاکرات میں شرکت کرتے ہیں، جس کا امکان کم ہی نظر آتا ہے، تو ان کی حیثیت کافی کمزور اور غیر موثر ہی رہے گی جیسا کہ شامی مسئلے کے لیے منعقدہ استانہ مذاکرات میں ان کی شرکت برائے نام ہی رہی تھی۔
ان مذاکرات کے بعد افغانستان کے لیے کسی غیر ملک میں تیار کیے گئے عبوری آئین کا اعلان تو نہیں ہوگا تاہم افغان مسئلے کے پائیدار حل کے لیے “اچھے اور معتدل” طالبان کو “برے اور دہشت گرد” طالبان سے الگ کرلینے کی توقع ضرور کی جا رہی ہے۔ اس طرح برے طالبان جو حقیقتاً داعش کی فرینچائز کا روپ لے رہے ہیں، کو الگ کرکے اچھے طالبان کو امن عمل میں شریک کرنے کی راہ ہموار کی جائے گی۔یہ تو ظاہر ہے کہ بھارت تمام طالبان کو “برا” قرار دینے کی اپنی روش سے پیچھے نہیں ہٹے گا تاہم کابل کی امریکی حمایت یافتہ حکومت نے، اگرچہ دیر ہی سے سہی تاہم یہ تسلیم کرلیا ہے کہ طالبان کے ساتھ امن عمل کا آغاز کیا جائے تاکہ مستقبل میں امن کی راہ ہموار ہوسکے۔
اگر ان مجوزہ مذاکرات کے نتیجے میں روس، چین اور پاکستان کابل حکومت کو طالبان کے ساتھ امن عمل کے آغاز پر رضامند کرلیتے ہیں تو یہ ٹرمپ انتظامیہ کے لیے “عزت بچانے” کا ایک موقع ہوگا کہ افغانستان کی طویل جنگ سے باہر نکل سکیں اور ایران اور چین کے خلاف یکسوئی کے ساتھ اپنی پالیسیوں پر کام جاری رکھ سکیں۔ صدر ٹرمپ، وزیر دفاع “میڈ ڈاگ” میٹس اور مشیر قومی سلامتی مائیکل فلن، تینوں ہی اس پوزیشن میں نہیں کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات اور کوئی معاہدہ کرکے افغانستان سے انخلا کر سکیں جیسا کہ صدر اوباما نے عراق کے معاملے میں کیا تھا اور وہاں داعش کو قدم جمانے کا موقع مل گیا۔ یہ صرف اسی صورت ممکن ہے کہ کابل انتظامیہ “اچھے طالبان” کے وجود کو قبول کرے اور داعش کے خلاف ان کی کارروائیوں میں ان کا ساتھ دے۔
اس امر کا پورا امکان ہے کہ بھارت کابل انتظامیہ اور طالبان کے درمیان کسی بھی معاہدے کی نہ صرف بھرپور مخالفت کرے گا بلکہ اسے روکنے کی بھی ہرممکن کوشش سے باز نہیں رہے گاتاہم امید ہے کہ ایران اس معاملے میں (داعش کا راستہ روکنے کے لیے) ہمسایہ ممالک کی خاموش حمایت کرے گا۔دوسری جانب روس اور چین کو بھی اس امر کا مکمل احساس ہے کہ خطے کے کون سے ممالک کیا ردعمل ظاہر کریں گے۔ اسی باعث ان مذاکرات میں بھارت کو شریک کرکے نرم سفارتی زبان میں یہ پیغام دیا جا رہا ہے کہ افغانستان کے معاملے میں روسی پالیسی تبدیل ہورہی ہے۔ اسی طرح ایران کو بھی اس معاملے میں اعتماد میں لیا جا رہا ہے۔ خیال کیا جا رہا ہے کہ بھارت اس معاملے میں امریکی منشا کے بغیر اپنی پالیسی تبدیل نہیں کرے گالہٰذا امریکا اور بھارت دونوں ہی امن عمل میں رکاوٹیں کھڑی کرتے رہیں گے۔ تاہم ان دونوں کو احساس ہوجانا چاہیے کہ حالات کا رخ تبدیل ہو رہا ہے اور اگر روس، چین، ایران، پاکستان اور افغانستان اچھے طالبان کے ساتھ کسی نتیجہ خیز فیصلے تک پہنچ گئے تو معاملات ان کی(امریکا اور بھارت) منشا کے خلاف آگے بڑھیں گے۔
امریکا اور بھارت جس قدر تاخیر سے خطے میں ہونے والی اس تبدیلی کا احساس کریں گے، افغانستان کے معاملات میں ان کا عمل دخل اسی قدر محدود ہوتا چلا جائے گا۔ ٹرمپ انتظامیہ اسلامی بنیاد پرست دہشت گردی کے خلاف اپنی سخت گیر پالیسی کے باعث افغانستان میں تعینات امریکی فوج کو کہیں اور متعین نہیں کرسکتی جبکہ کابل میں امریکا کی پراکسی حکومت اس نتیجے پر پہنچ رہی ہے کہ اچھے اور معتدل طالبان کو ملکی معاملات میں ان کا جائز حق دے کر داعش کی فرینچائز بننے والے برے طالبان کے خلاف کارروائی کی جائے۔ اس تمام حکمت عملی کے پس پشت پاکستانی ذہن کارفرما ہے جس نے نہایت ذہانت کے ساتھ روس اور چین دونوں کو نہ صرف قائل کیا ہے بلکہ اس گیم چینجنگ حکمت عملی کے لیے بھرپور حمایت بھی حاصل کر لی ہے۔ اسلام آباد کو معلوم تھا کہ افغانستان اور امریکا اس پر اعتماد نہیں کرتے لہٰذا اس نے روس، چین اور اب ایران کو بھی دہشت گردی کے خلاف اقدامات میں اپنی حمایت پر قائل کرنے میں کامیابی حاصل کر لی ہے۔ اس حمایت کے بعد روس کے اتحادی بھارت کے لیے بھی یہ مشکل ہوگا کہ وہ خطے کی طاقتوں کے متفقہ فیصلے کے خلاف اقدامات کر سکے۔ اسی لیے پاکستان نے افغان امن عمل کو انٹرنیشنلائز کرتے ہوئے روس، چین اور ایران کو نہ صرف شامل کیا بلکہ انہیں اپنی حمایت پر آمادہ بھی کیا ہے۔
اگرچہ پاکستان ان مذاکرات میں بھارت کی شرکت کا خواہاں نہیں تاہم امریکا کے نئے اور روس کے پرانے سڑیٹجک پارٹنر بھارت کو ان مذاکرات سے مکمل طور پر باہر نہیں رکھا جا سکتا۔ اگرچہ روس کے بھارت کے ساتھ تعلقات کی طویل تاریخ ہے تاہم بھارت کی پالیسی میں ایک بڑی تبدیلی کے بعد اب امریکا بھارت کا تزویراتی اتحادی بن چکا ہے۔ ایران بھی “نارتھ ساؤتھ کوریڈور” کے معاملے میں بھارت کی مدد کا خواہاں ہے اور افغانستان بھی وسطی ایشیا تک روابط قائم رکھنے میں بھارت کا ساتھی ہے، اس لیے بھارت کو ان مذاکرات میں شریک تو کرنا ہوگا خواہ اس کی حیثیت علامتی ہی کیوں نہ ہو۔
دوسری جانب ایران ہے جو اگرچہ گزشتہ 16 برس میں افغان مسئلے میں زیادہ فعال نہیں رہا تاہم اس کی خواہش رہی ہے کہ اس کا حریف امریکا افغانستان کی دلدل میں پھنسا رہے۔ ایران کبھی یہ نہیں چاہے گا کہ امریکا افغانستان میں اپنے اہداف حاصل کرنے میں کامیاب ہو کیونکہ ایسی صورت میں افغان سرزمین ایران کےخلاف ایک امریکی اڈے کی طرح استعمال ہوگی اور داعش اور جنداللہ جیسے دہشت گرد گروہ افغان زمین کو ایران میں کارروائیوں کے لیے استعمال کریں گے۔ اسی منطق کا اطلاق پاکستان پر بھی ہوتا ہےجو افغان معاملے کا ایک فعال فریق ہے۔ تاہم ایران کو اس پالیسی پر قائل کیا جاسکتا ہے کہ اچھے طالبان کو برے طالبان سے الگ کرکے داعش کے خلاف کارروائی کی جائے جو ایران کے لیے بھی ایک بڑا خطرہ بن سکتی ہے۔ جیسا کہ ایران نے استانہ کانفرنس میں شامی تنظیم “جیش اسلام” کے معاملے میں نرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مذاکرات کی کامیابی کے پلڑے میں اپنا وزن ڈالا تھا، اسی طرح ماسکو مذاکرات میں بھی وہ طالبان کے معاملے میں کر سکتا ہے تاکہ طویل عرصے سے جاری افغان مسئلے کا حل تلاش کیا جا سکے اور اس کا یہ قدم اس کے لیے ایک بھرپور سیاسی مفاد حاصل کرنے کا ذریعہ بن سکے گا۔
اس معاملے کا ایک اور رخ یہ ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ جو ایران اور چین کو “محدود” رکھنے کی پالیسی پر عمل کا ارادہ رکھتی ہے، اسے ان مذاکرات میں ایران کی شرکت پسند نہیں آئے گی، دوسری جانب امریکی شرکت پر ایرانی جذبات بھی کچھ ایسے ہی ہوں گے۔ ٹرمپ ٹیم کے لیے یہ ممکن نہیں کہ وہ افغانستان میں قوم کی تعمیر اور جمہوریت کی ترویج جیسے اہداف کو مکمل کر سکے لہٰذا ان کےلیے یہی بہتر ہوگا کہ وہ اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے باعزت واپسی کا راستہ تلاش کر سکیں کیونکہ ان مذاکرات کی کامیابی کی صورت میں برے طالبان اور داعش کے خلاف کارروائی ہوگی جس پر ٹرمپ انتظامیہ کو خوش ہی ہونا چاہیے۔ اس لیے یہ عمل امریکا کے لیے ایک تیر سے دو شکار کے مترادف ہوگا۔
ماسکو کانفرنس کا ایجنڈا :
اچھے طالبان کو الگ کرکے برے طالبان اور داعش کے خلاف کارروائی کے لیے روسی، چینی اور پاکستانی اقدام کے لیے ایرانی حمایت حاصل کرنا۔
روس، چین، پاکستان اور ایران پر مشتمل ایک اتحاد قائم کرکے کابل انتظامیہ کو قائل کرنا کہ وہ اچھے طالبان کو ملکی انتظام میں شریک کرے اور داعش کے خلاف یکسوئی سے کارروائی کرے۔
کابل انتظامیہ اور طالبان کے درمیان مذاکرات کے ایک سنجیدہ عمل کا آغاز جسے پاکستان، روس، چین اور ایران کی حمایت حاصل ہو۔ بعد ازاں اس میں امریکا اور بھارت کی حمایت بھی شامل ہو سکتی ہے۔
امریکا کو یہ پیغام دینا کہ وہ اس ڈویلپمنٹ سے فائڈہ اٹھا کر افغانستان سے انخلا کر لے۔
بھارت کو یہ پیغام دینا کہ وہ اب خطے میں رونما ہونے تبدیلی کا راستہ نہیں روک سکتا خواہ اس کے لیے وہ اکیلا کوشش کرے یا امریکا کا سہارا لے۔ نیز یہ بھارت کے لیے نادر موقع ہے کہ وہ اپنی پالیسی تبدیل کر لے اور لچک کا مظاہرہ کرے۔
اختتامیہ :
برسوں تک سیاسی اور سفارتی محاذ پر محنت کے بعد پاکستان نے افغانستان کے مسئلے میں چین اور روس کی شرکت کو یقینی بنایا ہے۔ان برسوں کے دوران پاکستانی نہایت ذہانت کے ساتھ روسی اور چینی پالیسی سازوں کو قائل کرنے میں کامیاب رہے ہیں کہ اچھے طالبان کو الگ اور تسلیم کر کے ہی برے اور دہشت گرد طالبان کے خلاف کارروائی کی جا سکتی ہے جو داعش کے آلہ کار بن رہے ہیں۔ نیز داعش کا وجود پورے خطے کے لیے خطرہ ہے۔ اس معاملے میں روس اور چین کی شرکت جو ابتداً علامتی نوعیت کی تھی، پاکستانی کاوشوں سےاب بھرپور اور مکمل دکھائی دیتی ہے جس کا ثبوت یہ ہے کہ گزشتہ دسمبر میں افغان مسئلے پر کانفرنس کے محض دو ماہ بعد ہی ایک اور بڑی کانفرنس ماسکو میں منعقد ہو رہی ہے جس میں مذاکرات میں شریک ممالک کی تعداد بھی تین سے بڑھ کر چھ ہو گئی ہے۔
اس کانفرنس کی کامیابی پاکستان کے لیے متعدد وجوہات کے باعث اہم ہے۔ افغانستان میں امن عمل اور اچھے طالبان کو ملکی انتظام میں شریک کیے جانے سے پاکستان کو جو فائدہ ہوگا، وہ تو اظہر من الشمس ہے ہے لیکن یہ کانفرنس ٹرمپ کے “مشکل” دور صدارت میں پاکستان کے لیے انتہائی اہم ثابت ہوگی۔ ٹرمپ ایران اور چین کے خلاف اقدامات کا آغاز کرنے والے ہیں اور پاکستان جو ان دونوں ممالک کے درمیان واقع ہے، اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکے گا۔ اس سلسلے میں یہ امر اہم ہے کہ چین اور پاکستان ہی نہیں، ایران بھی سی پیک منصوبے کا رکن بن جائے گا۔ دوسری جانب بھارت جو امریکی کیمپ میں جا چکا ہے، اس کی مخالفت اور ٹرمپ کی متوقع پالیسیوں اور اقدامات کے باعث پاکستان کو درپیش خطرے کے پیش نظر پاکستان کو مستعدی کے ساتھ اقدامات کرنے ہوں گے۔ یہ کانفرنس اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ چین اور روس کے ساتھ بڑھتی ہوئی قربت اور اب ایران کو بھی اسی غیر علانیہ اتحاد میں شریک کرنے کی کوششیں ٹرمپ دور یعنی آئندہ چار سے آٹھ سال کے دوران خطے کی سکیورٹی کو قائم رکھنے کی کاوش کے علاوہ مستقبل کے سیاسی منظرنامے کو واضح کر رہی ہیں۔
http://katehon.com/article/pakistans-eurasian-solution-afghanistan

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply