ماں بولی دیہاڑ/فرزانہ افضل

ہر کوئی یار نہیں ہوندا بلھیا
کدی کلیاں بہہ کے سوچ تے سہی

بین الاقوامی مادری زبان کا دن ہر سال 21 فروری کو منایا جاتا ہے، میری مادری زبان پنجابی ہے ۔ بچپن سے ہم بہن بھائی گھر میں اُردو بولتے تھے ،جبکہ والدین آپس میں پنجابی بولتے مگر ہمارے ساتھ اردو میں بات چیت کرتے ،جس کا نتیجہ یہ ہُوا کہ ہمیں پنجابی زبان بولنے میں کوئی  خاص روانی حاصل نہ ہوسکی ۔ پنجابی زبان پوری طرح سمجھنے کے باوجود بولنے میں جھجھک محسوس ہوتی۔ یہ معاملہ میری شادی ہونے تک جاری رہا، کیونکہ سسرال والے سب ٹھیٹھ پنجابی زبان بولتے تھے لہٰذا ان سے گھلنے ملنے اور ایک آرام دہ ماحول پیدا کرنے کے لیے ضروری تھا کہ ان سے پنجابی میں گفت و شنید کی جائے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پنجابی بولنے میں اچھی خاصی مہارت ہوگئی ۔ معیاری پنجابی تو سیکھی ہی مگر پنجابی کے غیر معیاری الفاظ کا بوقت ضرورت استعمال بھی سیکھ لیا ۔ غصے اور ناراضگی کا اظہار ہماری پنجابی زبان سے بہتر کسی زبان میں نہیں ہو سکتا ۔

خواتین کے حوالے سے ایک بات بہت برسوں سے مشاہدے میں ہے کہ بہت سی میچور عمر کی خواتین جو پنجاب میں پیدا ہوئیں، وہیں پرورش پائی ،پنجابی بولنے میں شرم محسوس کرتی ہیں، بلکہ مادری زبان کے ذکر پر یہ کہتے ہوۓ پائی جاتی ہیں کہ ہمیں تو پنجابی زبان سمجھ   ہی نہیں آتی ۔

یہ جعلی قِسم کا رویہ ہماری طبیعت پر بہت گراں گزرتا ہے ۔ حالانکہ اس کے برعکس پوٹھوہاری یا کشمیری زبان بولنے والے اور پشتو اور سندھی مادری زبان کے لوگ بہت فخر سے کُھل کُھلا کر اپنی مادری زبان بولتے ہیں ۔ اسی طرح یقیناً  بلوچی لوگ بھی ہیں۔ مگر اپنی زبان بولنے میں شرم کا مادہ صرف پنجابی لوگوں خصوصاً خواتین میں ہی موجود ہے ۔ ان کو شاید ایسا لگتا ہے کہ پنجابی زبان بولنے سے وہ ماڈرن ، پڑھی لکھی اور مہذب نظر نہیں آئیں گی۔ حالانکہ ایسا سوچنا قطعی خام خیالی ہے ۔ ہماری مادری زبان ہمارا اثاثہ ہے۔ اس کو زندہ رکھنا ہم سب کا فرض ہے۔ پنجابی شاعری میں کس قدر مٹھاس ہے۔ چلتے چلتے معروف پنجابی صوفی شاعر بلھے شاہ کا ایک اور شعر یاد آ گیا۔

Advertisements
julia rana solicitors

نہیں لنگھدا وقت وچھوڑے دا
بن یار گزارا کون کرے
دنیا توں کنارہ ہو سکدا
یاراں تو کنارہ کون کرے
اک دن ہووے تے لنگھ جاوے بلھیا
ساری عمر گزارا کون کرے!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply