علوی صاحب اور آئین پاکستان/محمد اسد شاہ

پاکستان میں جمہوریت اور انتخابات کے حوالے سے کام کرنے والے ادارے پلڈاٹ کے سربراہ احمد بلال محبوب نے کہا ہے کہ صدر مملکت کے پاس فیصلہ نافذ کرنے یا حکم جاری کرنے کا کوئی اختیار نہیں۔ صدر نے ازخود پنجاب اور خیبرپختونخوا میں صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کی تاریخ کا اعلان کر کے آئینی بحران پیدا کر دیا ہے۔ صدر مملکت اور الیکشن کمیشن کے درمیان کوئی مشاورت نہیں ہوئی۔ آئین میں لکھا ہے کہ صدر الیکشن کمیشن سے مشاورت کے بعد، اور صرف وزیراعظم کے کہنے پر تاریخ کا اعلان کر سکتا ہے۔ جب کہ منتخب وزیراعظم نے بھی صدر مملکت کو ایسی کوئی تجویز نہیں دی۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان کے سابق سیکرٹری کنور دل شاد نے واضح کہہ دیا ہے کہ صدر عارف علوی نے ازخود صوبائی انتخابات کی تاریخ کا اعلان کے اپنا حلف توڑ دیا ہے۔

وزیر قانون سینیٹر اعظم نذیر تارڑ نے کہا ہے کہ عارف علوی آئینی سربراہ نہیں، بل کہ پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان کے ذاتی نوکر ہیں۔ وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے کہا ہے کہ صدر عارف علوی اپنے اختیارات سے باہر نکل رہے ہیں۔ وزیر داخلہ رانا ثناء اللّٰہ خان نے کہا ہے کہ صدر “آ بیل، مجھے مار” والے کام نہ کریں، اپنی آئینی حدود کے اندر ہی رہیں اور صدارتی دفتر کو بلیک میلنگ کا اڈہ نہ بنائیں۔ الیکشن کی تاریخ دینے سے عارف علوی کا کوئی لینا دینا نہیں ہے، چناں چہ وہ خواہ مخواہ ٹانگ نہ اڑائیں۔ وزیر داخلہ نے مزید کہا کہ صدر الیکشن کمیشن کو غیر قانونی اور غیر آئینی احکامات ماننے پر مجبور نہیں کر سکتا۔ “الیکشن کمیشن تمھارا غلام نہیں ہے کہ جو تم کہو وہ مانے”۔ پیپلز پارٹی کے مرکزی راہ نما، وزیراعظم کے مشیر قمر زمان کائرہ نے کہا ہے کہ صدر کے اعلان کو سمجھنے کے لیے آئین کی طرف دیکھنا ہو گا۔ ملک کو آئین کے تحت چلانا ہے، اور صدر مملکت کو صرف وفاقی حکومت اور کابینہ کے مشورے پر چلنا ہے۔ گورنر خیبرپختونخوا حاجی غلام علی نے کہا ہے کہ صدر مملکت کے پاس انتخابات کروانے کا کوئی اختیار نہیں۔

الیکشن کمیشن آف پاکستان نے بھی گزشتہ دنوں صدر عارف علوی کے خط کے جواب میں انھیں ان کے آئینی اختیارات اور حدود سے تحریری طور پر آگاہ کر دیا تھا۔ لیکن علوی صاحب کے متعلق عوام میں جو رائے شروع سے قائم ہے، اس میں کوئی مثبت تبدیلی نہیں آ سکی۔

صوبائی انتخابات کی تاریخ طے کرنا متعلقہ گورنرز کا اختیار ہے۔ اٹھارہویں آئینی ترمیم کے بعد صدر کے اختیارات انتہائی محدود اور علامتی ہیں۔ صدر صرف وزیراعظم کے مشورے پر دست خط کرتا ہے۔ دست خط کرنے کی یہ روایت بھی صرف ایک قانونی کارروائی ہے، جب کہ اصل اختیارات وزیراعظم کے پاس ہیں۔ کیوں کہ صدر اگر دست خط نہ بھی کرے، تب بھی وزیراعظم کی تجویز ہی عملاً نافذ ہوتی ہے ۔ لیکن موجودہ صدر مملکت کے حوالے سے یہ تاثر بہت گہرا اور راسخ ہے کہ وہ ان حقائق سے یا تو بالکل لاعلم ہیں، یا اپنی ذاتی جذباتی طبیعت اور سیاسی وابستگی سے اتنے مجبور ہیں کہ بار بار ہزیمت اٹھا رہے ہیں۔ صدر بننے سے قبل ان کا تعارف دو وڈیو اور ایک آڈیو ریکارڈنگ کے حوالے سے تھا۔ پہلی وڈیو میں وہ بہت فخر سے میڈیا والوں کو بتا رہے تھے کہ انھوں نے کراچی کی فلاں فلاں سڑکیں زبردستی بند کروا دی ہیں، اور مزید فلاں فلاں سڑکیں بند کروانے جا رہے ہیں۔ اس وڈیو میں وہ بہت درشت لہجے میں کراچی کے عوام کو “حکم” دے رہے تھے؛ “آج ہم کوئی گاڑی سڑک پر آنے نہیں دیں گے”۔

وڈیو میں صاف دیکھا جا سکتا ہے کہ ڈاکٹر ہونے کے باوجود ان کے چہرے پر کسی شرمندگی یا افسوس کا کوئی شائبہ تک نہ تھا۔ انھیں اس تکلیف کا احساس تک نہ تھا جو وہ عام لوگوں، غریب دیہاڑی دار مزدوروں، مریضوں، سکولوں کے بچوں، والدین، اور طلباء و طالبات وغیرہ کے لیے پیدا کر رہے تھے۔ دوسری وڈیو بہت مضحکہ خیز ہے۔ جب کراچی میں طوفانی بارشیں ہوئیں تو کسی نشیبی سڑک پر ڈیڑھ دو فٹ تک پانی جمع ہو گیا۔ علوی صاحب فوراً کہیں سے کشتی لے آئے، وڈیو کیمروں کا انتظام کیا، اور سندھ حکومت کے خلاف شور مچایا کہ پانی اتنا زیادہ ہے کہ کشتی کے بغیر سفر ممکن نہیں۔ 2014 میں ان کی شہرت نئی بلندیوں تک پہنچی جب بعض اسلحہ بردار غنڈوں نے پاکستان ٹیلی ویژن اسلام آباد مرکز میں زبردستی گھس کر، عملے کی خواتین اور دیگر افراد کو دہشت زدہ کر کے ٹی وی نشریات بند کروا دیں۔

اس موقع پر خفیہ اداروں کی ریکارڈنگ میں دو افراد کی ایک ٹیلی فون کال بھی آ گئی۔ حقیقت تو اللّہ کو ہی معلوم ہے، لیکن کہا یہ جاتا ہے کہ وہ گفتگو عارف علوی اور ان کے لیڈر عمران خان کے درمیان تھی۔ صدر بننے کے بعد وہ پی ٹی آئی کی وفاقی حکومت میں زیادہ تر اپنے آئینی دائرہ کار تک محدود رہے ۔ لیکن گزشتہ سال اپریل میں جب عوامی سطح پر عمران خان کی شدید عدم مقبولیت کی وجہ سے تحریکِ عدم اعتماد کی کامیابی لازمی نظر آ رہی تھی تو حکومت نے ایوان میں ووٹنگ کروانے سے عملاً انکار ہی کر دیا۔ مقررہ مدت گزرنے کے بعد بھی ووٹنگ نہ کروائی گئی۔ حتیٰ کہ سپریم کورٹ کے کہنے پر جب ووٹنگ کی مدت بڑھا دی گئی تب آخری وقت میں پی ٹی آئی کے ڈپٹی سپیکر قاسم سوری نے ووٹنگ کروائے بغیر ہی ازخود تحریکِ عدم اعتماد کو مسترد کرنے کا اعلان کر دیا۔ اس کے فوری بعد عمران خان کے کہنے پر صدر عارف علوی نے قومی اسمبلی توڑنے، اور عمران کو وزیراعظم کے طور پر کام جاری رکھنے کا حکم جاری کر دیا۔ مسئلہ عدالت عظمیٰ میں پیش ہوا تو ثابت ہوا کہ عمران خان، قاسم سوری اور عارف علوی، تینوں آئین شکنی کے مرتکب ہوئے۔ یوں برصغیر کی عدالتی تاریخ میں عارف علوی صاحب پہلے صدر ہیں جنھیں ملک کی سب سے بڑی عدالت نے آئین شکن قرار دیا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

یہ ایک ایسا لمحہ تھا جب علوی صاحب کو اپنا محاسبہ کرنا، اور اپنے سیاسی جذبات کو قابو میں رکھنے کا فیصلہ کرنا چاہیے تھا۔ لیکن افسوس کہ ایسا نہیں ہوا۔ انھوں نے اپنی روایات جاری رکھیں۔ نئے منتخب وزیراعظم میاں شہباز شریف سے حلف لینے سے انکار کیا، پھر وفاقی کابینہ سے حلف لینے سے بھی انکار کیا۔ پھر صوبائی گورنرز کے تقرر کے راستے میں روڑے اٹکاتے رہے۔ وزیراعظم نے پی ٹی آئی کے گورنر کو برطرف کیا تو علوی صاحب نے ایک بار پھر اپنے آئینی اختیارات سے تجاوز کرتے ہوئے اسے کام جاری رکھنے کی ہدایت کر دی۔ پھر گورنر حافظ محمد بلیغ الرحمٰن سے حلف لینے سے انکار کیا۔ بلوچستان اور خیبرپختونخوا کے گورنرز کی تقرریوں کے راستے روکے رکھے۔ بطور صدر عارف علوی نے ایک مضحکہ خیز حرکت یہ بھی کی کہ پارلیمنٹ سے خطاب کرتے ہوئے 2022 کو انتخابات کا سال قرار دے دیا۔ جب کہ ایسی کوئی بات آئین میں ہے نہ کہیں ایسا کوئی فیصلہ ہوا۔ وزیراعظم شہباز شریف نے چیف آف آرمی سٹاف کا تقرر کیا تو علوی صاحب اپنے پارٹی لیڈر سے ملنے لاہور پہنچ گئے۔ جس طرح انھوں نے 2022 کو عام انتخابات کا سال قرار دیا، بالکل اسی طرح اب انھوں نے پنجاب اور خیبرپختونخوا کے صوبائی انتخابات کی تاریخ کا اعلان کر دیا۔ آئینی ماہرین کا کہنا ہے کہ علوی صاحب نے یہ حرکت کر کے آئین پاکستان، اور اپنے حلف، دونو کی صریح خلاف ورزی کی ہے، اور صوبائی گورنرز کے اختیارات میں دخل اندازی کی ہے۔ اگر اپریل 2022 میں آئین شکنی ثابت ہونے پر انھیں کوئی سزا سنائی گئی ہوتی تو یقیناً وہ دوبارہ ایسا متنازعہ قدم کبھی نہ اٹھاتے !

Facebook Comments

محمد اسد شاہ
محمد اسد شاہ کالم نگاری اور تعلیم و تدریس سے وابستہ ہیں - پاکستانی سیاست ، انگریزی و اردو ادب ، تقابل ادیان اور سماجی مسائل ان کے موضوعات ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply