• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • مشرف خدا کی عدالت میں (حصّہ اوّل )-محمد وقاص رشید

مشرف خدا کی عدالت میں (حصّہ اوّل )-محمد وقاص رشید

یہ 14 اکتوبر 99 کی سرد شام تھی۔ کوارٹر نمبر 54/اے خواب نگر (ملکوال) کے آنگن میں زندگی کی یادگاروں  میں سے ایک چھوٹے سے ریڈیو  پر خبریں سنتے ان تمام یادوں اور یادگاروں کے سردار نے  مجھے بتایا کہ ملک میں مارشل لاء  لگ گیا ہے۔ مارشل لاء سے نابلد 19 سالہ نوجوان نے پاکستان کی تاریخ کی آدھی صدی کو اپنی کتاب بین آنکھوں سے دیکھنے اور اسکے ساتھ ہی بزرگی اور ریٹائرمنٹ کی عمر کو پہنچنے والے صاحبِ علم سے یہ سوال کیا کہ مارشل لاء کیا ہوتا ہے۔ جو مجھے والد مرحوم نے بتایا وہ اس وقت سمجھ نہیں آیا ،بعد میں آیا جب اگلی ایک دہائی کو خود ہوش کی آنکھوں سے دیکھا۔

غریب اور مقروض قوم نے اپنا پیٹ کا ٹ کر جو بندوق ریاست کے محافظ کو تھمائی تھی۔ وہ ایک بار پھر اسی کی کنپٹی پر رکھ کر اس سے حقِ حکمرانی چھین لیا گیا۔ ملت کو بزورِ بندوق یرغمال بنا کر آئینِ وطن کو راندہِ درگاہ کر دیا گیا اور ریاست پر جبر کا وہ راج ایک بار پھر قائم ہو گیا جس نے اسکی آدھی تاریخ کو نگل لیا۔

ٹی وی پر رعونیت  بھرے  انداز  میں ایک شخص نمودار ہُوا اور تحکمانہ لہجے میں بولا  “سبھوں کو پتا ہونا چاہیے کہ ملک میں مارشل لاء  نافذ کر دیا گیا ہے ” پاکستانی قوم کی کنپٹی پر بندوق رکھ کر آئینِ پاکستان کو معطل کر دیا گیا اور ملک میں “پرویز مشرف لاء ” نافذ کر دیا گیا جسے پی سی او کا نام دیا گیا۔ Provisional Constitutional Ordinance.
ملک میں آئین کی پاسداری اور عدل و انصاف کے سب سے بڑے ادارے سپریم کورٹ کے ججز نے پی سی او کے تحت حلف اٹھا لیا۔ اور غضب یہ کہ جرنیل صاحب کی مطلق العنانیت کو تین سال کی قانونی توثیق بھی دے دی۔ یوں ملک میں آمریت کے ایک اور سیاہ دور کا آغاز ہوا۔

جنرل مشرف صاحب نے سات نقاطی ایجنڈا پیش کیا جس کے سب سے بڑے حامی عمران خان صاحب تھے۔ جس میں سرِ فہرست “احتساب” تھا۔ مشرف نے نیب بنائی اور تقریبا ً تمام سیاستدانوں کے خلاف کرپشن کیسز بنائے۔ نواز شریف صاحب کو طیارہ سازش کیس میں عمر قید کی سزا دلوائی جو میاں صاحب نے سعودیوں کی مدد سے جلاوطنی کے دس سالہ معاہدے میں تبدیل کروا کر سعودی عرب کی راہ لی۔ میاں صاحب مشرف سے پانچ بٹہ دس سال کے معاہدے سے لے کر باجوہ صاحب سے پلیٹلیٹس رپورٹس تک اس دیس میں لیڈر بننے کے ہر موقع پر پردیس پدھار گئے۔ نظیر صاحبہ پہلے سے بیرونِ ملک تھیں اور مشرف کے سامنے کوئی اپوزیشن تھی ہی نہیں۔

اور پھر 9/11 کا سانحہ ہُوا کہ جس کے بعد “چراغوں میں روشنی نہ رہی”۔ دنیا نہیں تو کم ازکم ہماری تیسری دنیا مکمل طور پر بدل گئی۔ امریکہ میں دو طیارے اغوا ء کیے گئے اور انہیں ورلڈ ٹریڈ سینٹر سے ٹکرا دیا گیا۔ سعودی عرب میں ایک بڑی تعمیری کمپنی بن لادن گروپ کے مالک اسامہ بن لادن سعودی عرب سے انخلا کے بعد سوڈان اور وہاں سے مبینہ طور پر افغانستان آ چکے تھے جہاں سے انہوں امریکی الزام کے مطابق اپنی تنظیم “القاعدہ ” کے ذریعے امریکہ پر حملہ کیا۔ )ویسے ہالی ووڈ فلم Blood Diamond میں بہترین منظر کشی کی گئی اس دہشتگردی کی زمہ داری قبول کروانے کی) بہرحال اس سانحے کے بعد دنیا بدل گئی۔ امریکہ اور اسکے اتحادیوں نے دہشتگردی کے خلاف جنگ کا آغاز کر دیا۔ اور اسامہ بن لادن اور القاعدہ کے نیٹ ورک کی تلاش میں امریکہ نے افغانستان پر حملہ کر دیا اور امریکی صدر جارج بش نے اسے صلیبی جنگوں Crusades کی تجدید قرار دیا۔

اس خطے کے ذریعے دنیا کی صورتحال کو مکمل طور پر تبدیل کرنے کی اس سے پہلے کی امریکی کاروائی “افغان/سوویت وار” کے وقت بھی پاکستان میں فوجی حکومت کا ہونا اور اسی سلسلے کی اگلی کڑی “دہشتگردی کی جنگ” کے وقت بھی وہی صورتحال ہونا کیا محض اتفاق ہے ؟ لگتا نہیں۔ یعنی جب امریکہ بہادر نے پاکستان میں ڈالر جہاد کے ذریعے مجاہدین پیدا کرکے انکے ذریعے سوویت یونین کو تاراج کر کے دنیا میں واحد سپر پاور بننا تھا تو “مردِ مومن مردِ حق, ضیالحق” کا مارشل لاء اور جب اپنے پیدا کردہ ان “مجاہدین” کو دہشتگرد قرار دے کر بموں سے اڑانا ہے تو روشن خیال مشرف کا مارشل لاء۔ ذوالفقار علی بھٹو صاحب کے اسلامی بلاک سے میاں صاحب کے ایٹمی دھماکوں اور کارگل آپریشن تک کے حالات کا جائزہ لیا جائے تو پتا چلتا ہے کہ یہ محض اتفاق نہیں۔

کمانڈو مشرف نے پاکستان کو انتہائی ناعاقبت اندیشی اور عدم حکمتِ عملی سے اس دہشتگردی کی جنگ میں اس جواز کے ساتھ دھکیلا کہ “ورنہ امریکہ پاکستان کا تورا بورا بنا دیتا”۔ اور یہ مطلق العنان حکمرانی میں خود کو عقلِ کل سمجھنے کی ہی خو ہے جس نے ایوب خان سے لے کر یحییٰ  خان اور ضیاالحق سے لے کر مشرف تک پاکستان کو دو لخت کرنے سے لے کر تورا بورا ہی بنایا۔ جب دنیا “Great Game” کی باتیں کر رہی تھی اور بتا رہی تھی کہ امریکہ کا اس خطے میں قیام چائنہ ، پاکستان اور بھارت کی ٹرائیکا اور گوادر سمیت ہمہ جہتی منصوبہ ہے اس وقت ایک شخص کے مکوں کی بجائے پارلیمان میں قومی نمائیندے اور تھنک ٹینک ایک مربوط پالیسی بناتے تو حالات یہ نہ ہوتے جو آج ہیں۔ تورا بورا بننے کے ڈر سے جس جنگ میں شریک ہوئے آخر پہ ہمارے سیاسی سماجی اور معاشی طور پر تورا بورا بننے پر ہی ختم ہوئی اور کہاں ختم ہوئی صاحب پشاور میں پچھلے ہفتے سو سے زائد جنازے اس خاتمے پر انسانی خون سے سوالیہ نشان بناتے ہیں۔

پھر جرنیل صاحب اس طرف آئے جس طرف اپنی ذات کے حصار میں مقید ہر حکمران آتا ہے۔ تین سال میں اصلاحات کے بعد انتخابات کروانے کے وعدہ اپنی تاحیات حکمرانی کے خواب میں ڈھل گیا۔ مشرف صاحب نے ایک ریفرینڈم کے ذریعے خود کو صدر بنوایا جس کی حمایت عمران خان صاحب تک نے کی اور بعد میں ٹی وی پر ہاتھ جوڑ کر قوم سے معافی مانگتے ہوئے کہا کہ آئندہ کوئی جرنیل فرشتے کے لباس میں بھی آیا تو ساتھ نہیں دیں گے یہ اور بات کہ آج کل جنرل باجوہ کی ایکسٹینشن کو بلنڈر قرار دیتے ہیں۔ شاید باجوہ صاحب فرشتوں سے بھی زیادہ کسی مقدس لباس میں تھے۔

عمران خان صاحب کی کتاب “میں اور میرا پاکستان” کے بقول مشرف صاحب کی والدہ کے ذریعے وزارتِ عظمیٰ کی پیشکش سے بوجہ “لیگ” انکار کے بعد عمران خان صاحب کو مشرف نے بغیر داڑھی کا دہشتگرد قرار دیا کیونکہ تب خان صاحب پرویز الٰہی کو پنچاب کا سب سے بڑا ڈاکو کہتے تھے۔ آجکل پرویز الٰہی صاحب کو پی ٹی آئی کی صدارت کی پیشکش کی خبریں گردش میں ہیں۔ جی ہاں خان صاحب کی سیاست میں یو ٹرن تو پرانے ہو گئے یہ سیاست اب تو دائرے کا سفر ہے۔ محض خان کیا پوری پاکستان ہی کی سیاست۔

مشرف صاحب نے جس جس کے خلاف نیب ریفرنس تیار کیا اسے آفر دی کہ “یا جیل یا پھر ق لیگ” اور یوں ق لیگ وجود میں آئی۔ اور مشرف صاحب کو دس بار باوردی صدر منتخب کرانے کا اعلان کرنے والے پرویز الٰہی اور مشرف کو قائد اعظم ثانی کا خطاب دینے والے شیخ رشید و دیگر مارشل لاء کے دسترخوان کے ریزہ چیں ہوئے۔

پاکستان سمیت آمریت و جبر کے سائے تلے رہنے والی ریاستوں کی بد بختی یہ ہے کہ آمر و جابر اس بندوق کو اپنی ذاتی طاقت سمجھ لیتے ہیں جو انکی مفلس قوم اپنے خون پسینے سے لے کر انہیں اپنی حفاظت کے لیے تھماتی ہے۔ وہ وہی بندوق اپنی ہی قوم پر تان کر اس سے حقِ حکمرانی چھین لیتے ہیں حالانکہ جدید دنیا میں انتظامِ حکومت جس فہم و فراست کا تقاضا کرتا ہے وہ جان لینے یا جان دینے کی دفاع و حملہ آوری کی نفسیات کی ضد ہے۔ یہ سیاست ہی کو زیبا ہے یہی وجہ ہے کہ آمر مارشل لاؤں کو سیاست کا تڑکہ لگا کر بھی اپنے عہد کے اختتام پر قوم کو نامرادیوں کے سوا کچھ دے کر نہیں مرتے۔

2002 کے انتخابات میں مذہبی جماعتوں کا اکٹھ ایم ایم اے بنی اور کے پی کے (اس وقت کےسرحد) میں حکومت قائم کی اور اپوزیشن لیڈر فضل الرحمن صاحب بنے۔ فضل الرحمن صاحب کیسے اپوزیشن لیڈر تھے یہ جاننے کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ بلوچستان میں ایم ایم اے ق لیگ کی حلیف حکمران جماعت تھی۔

معاشرے مختلف الخیال لوگوں کا مجموعہ ہوتے ہیں۔ ریاست ان کے درمیان پرامن ہم آہنگی قائم کر کے ملک کو امن کا گہوارہ بناتی ہے۔ ضیالحق اور پرویز مشرف نے اس بنیادی اصول سے ضد روا رکھی اور شومئی قسمت کہ ایک دوسرے سے متضاد انتہا پسندی کو فروغ دیا۔ ضیاالحق نے اپنی اسلامی تفہیم کو طاقت سے نافذ کرانے پر ایک دہائی کا جبر قوم پر مسلط کیا تو مشرف نے اس مٹانے کے لیے وہی نوکِ بندوق استعمال کی۔ دونوں نے شعوری ارتقاء کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا۔

مشرف نے اپنی اقتدار پر قبضے اور سفاک آمریت کے ان دس سالوں میں پاکستان کی تاریخ میں بے پناہ سیاہ باب اور سانحات رقم کیے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

“اب وہ وقت نہیں جب گولی ماری اور پہاڑ پہ چڑھ گیا” کہہ کر بگٹی کے قتل سے شروع ہونے والی بلوچستان کی وہ آگ آج بھی جل رہی ہے جس میں گوادر پورٹ کی دبئی کی طرز پر ترقی کا خواب سلگ رہا ہے۔ لاپتہ افراد کے خاندان آج بھی سڑکوں پر مارے مارے پھر رہے ہیں۔ معاہدے کے باوجود لال مسجد کے انسانیت سوز آپریشن کو کون بھلا سکتا ہے جس میں نہ جانے کتنے معصوم بچے بچیاں فاسفورس بموں میں بھسم ہوئیں۔ جنہیں 2005 کا زلزلہ نہ مار سکا انہیں مولوی عبد العزیز ، عبدالرشید اور مشرف نے مل کر زندہ درگور کر دیا۔ وزیرستان میں اپنی فوج کے ذریعے کئے گئے حکمتِ عملی سے خالی آپریشن کے بعد سے پاکستان جس طرح بموں سے لرزا اور گولیوں سے بھون دیا گیا وہ سلسلہ آج تلک جاری ہے۔
(جاری ہے )

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply