دیماقريطس/مبشر حسن

دیماقریطس کی پیدائش ہوئی 460 قبل مسیح اور وفات ہوئی 370 قبل مسیح یونان کایہ رہنے والا تھا۔
کائنات کا ایٹمی نظریہ پیش کر نے والا یونانی فلسفی دیما قریطس ابدیرا میں پیدا ہوا۔ کچھ محققین اس کا سن پیدائش 490 قبل مسیح بھی بتاتے ہیں۔اس کے باپ کا تعلق ایک اعلیٰ  اور امیر کبیر خاندان سے تھا جس نے شاہ فارس زرکسینر کی ایشیا واپسی پر اس کی فوج کو ضیافت دینے کے لیے کافی رقم خرچ کی۔ اس خدمت کے عوض زرکسینر نے اسے اور دیگر اہل ابدیرا کو گراں قد ر تحائف دیے اور اپنے متعدد کا ہن ان کے پاس ہی چھوڑ گیا ۔ ڈایوجینز لائرٹیئس کے مطابق دیماقریطس نے انہی کاہنوں (Magi) کے پاس فلکیات اور الہیات کا مطالعہ کیا۔

اپنے باپ کی وفات کے بعد وہ دانش کی تلاش میں سفر پر روانہ ہوا اور وراثت میں ملنے والی ساری دولت اس مقصد میں لگائی ۔ کہا جا تا ہے کہ وہ مصر ایتھوپیا فارس اور ہندوستان گیا۔ یہ امر یقینی نہیں کہ آیا وہ اپنے اسفار کے دوران ایتھنز گیا یا انا کساغورث کے پاس مطالعہ کیا یا نہیں ۔ اپنی زندگی کے ایک مرحلے پر اس نے فیثا غورث ازم کی تعلیم حاصل کی اور لیوسی پس کا شاگرد بنا۔

کئی سال تک سفر کر نے کے بعد وہ واپس ابدیرا آیا تو ساری دولت صَرف ہو چکی تھی۔ تا ہم اس کے بھائی داموسس نے اسے سہارا دیا۔ ابدیرا میں مروج قانون کے مطابق میراث میں حاصل ہونے والی دولت کو ضائع کر دینے والا شخص تجہیز و تکفین کے حقوق سے محروم ہو جا تا تھا۔

دیماقریطس نے اس رسوائی سے بچنے کی خاطر عوامی لیکچرز دیے۔ پیٹرونیئس بتاتا ہے کہ وہ جڑی بوٹیوں نباتات اور پتھروں کی خوبیوں سے واقف تھا اور اس نے اپنی زندگی قدرتی اجسام پر تجربات کر نے میں گزاری۔ قدرتی مظاہر کے علم سے اسے شہرت حاصل ہوئی۔ وہ موسمیاتی تبدیلیوں کی پیش گوئیاں کرنے لگا۔ اس قابلیت نے لوگوں کو اس یقین کی جانب مائل کیا کہ وہ مستقبل کے واقعات کی پیش گوئی کر سکتا تھا۔ وہ نہ صرف اسے عام فانی انسانوں سے برتر سمجھنے لگے بلکہ اپنے عوامی امور بھی اس کے کنٹرول میں دینے کی خواہش ظاہر کی۔ دیما قریطس نے سرگرمی سے بھر پور زندگی پر تفکرانہ زندگی کو ترجیح دی اور عوامی اعزازات کو قبول کرنے سے انکار کر کے اپنی باقی زندگی عزلت میں گزاری۔

دیماقریطس کے طبعی اور تکو پینیاتی نظریات اپنے استاد لیوی پس کے نظریات کا ہی مفصل اور با قاعد منظم ورژن تھے۔ دنیا کے بدلتے ہوۓ طبیعی مظاہر کو بیان کرنے کی کوشش میں دیما قریطس نے زور دیا کہ خلا یا لا شئے (Void) کو بھی موجود سمجھا  جا تا، اتنا ہی بجا تھا جتنا کہ حقیقت یا ہستی کو۔ اس نے لا شئے کو ایک لامحدودخلا تصور کیا جس میں ہستی ( یعنی طبیعی دنیا ) کو بنانے والے ایٹم محدود تعداد میں حرکت کرتے ہیں۔ یہ ایٹم ابدی اور غیر مرئی ہیں ؛ اس قدر چھوٹے کہ ان کی مزید تخفیف ممکن نہیں ۔ ( اسی وجہ سے ان کا نام ایٹم یعنی نا قابل تقسیم رکھا۔ اردو میں اس کا ترجمہ لایتجزیٰ بھی کیا جا تا ہے یعنی جس کے مزید اجزانہ کیے جاسکیں )۔ ایٹم بے مسام ہیں اور اپنی زیر قبضہ تمام جگہ کو پر کر دیتے ہیں۔ ان کے درمیان صرف شکل ترتیب مقام اور تعداد کا فرق ہے ۔ لیکن مقدار میں اختلاف کے نتیجہ میں کیفیتی اختلاف محض ظاہری ہیں۔ایٹموں کی مختلف ترتیب اور امتزاجات ہماری حسیات کومختلف انداز میں متاثر کرتے ہیں۔

کوئی چیزمحض اصطلاحی مفہوم میں گرم یا سرد شیر میں یا ترش سخت یا نرم ہے ؛ حقیقی چیز صرف اور صرف ایٹم اور خلا ہیں۔ چنانچہ پانی اور لو ہے کے ایٹم ایک جیسے ہیں۔لیکن پانی کے ایٹم نرم گول اور گٹھاؤ کے قابل نہ ہونے کے باعث آگے ہی آ گے لڑھکتے جاتے ہیں جبکہ لوہے کے ایٹم سخت کھردرے غیر ہموار ہونے کے باعث آپس میں گتھم گتھا ہو کر ایک ٹھوس جسم بناتے ہیں ۔

چونکہ تمام مظاہر ایک ہی جیسے ابدی ایٹموں پر مشتمل ہیں اس لیے یہ کہا جا سکتا ہے کہ قطعی معنوں میں کچھ بھی وجود میں آتا اور نہ ہی نابود ہوتا ہے۔ البتہ ایٹموں کے مرکبات بڑھوتری اور تخفیف کے ذمہ دار ہیں اور یہی امر کسی چیز کے ظہور اور معدومیت‘ یا ’’پیدائش‘‘ اور ’’موت‘‘ کی وضاحت کرتا ہے ۔

دیماقریطس کے مطابق جس طرح ایٹم بے علت اور ابدی ہیں اسی طرح حرکت بھی ہے۔ دیماقریطس نے ایک خالصتاً مکینیکل نظام کے طے شدہ اور’’لازمی‘‘ قوانین پیش کیے۔ اس نظام میں ایک ذہین علت کی ضرورت نہیں تھی جو کسی مقصد کے پیش نظر مصروف عمل ہو۔

اس نے کائنات کی ابتدا کی وضاحت یوں کی۔ آغاز میں ایٹم تمام سمتوں میں حرکت کرتے تھے۔ یہ ایک قسم کے ارتعاش کی حالت تھی۔ چنانچہ تصادم ہوۓ اور ایک چکر دار حرکت کے باعث ایک جیسے ایٹم اکٹھے ہو گئے اور متحد ہو کر زیادہ بڑے اجسام اور دنیاؤں کو تشکیل دیا۔ یہ سب کچھ کسی مقصد یا خاص منصوبے کے تحت نہیں ہوا بلکہ محض’’ضرورت‘‘ (Nocessity) کا نتیجہ تھا یعنی یہ ایٹموں کی فطرت کا عمومی اظہار تھا ایٹم اور لا شئے تعداد اور وسعت میں لامحدود ہیں اور حرکت ہمیشہ سے موجود ہے۔ لہٰذا ہمیشہ سے ہی لامتناہی دنیائیں موجود رہی ہوں گی جو سب کی سب نشو و نما اور انحطاط کے مختلف مراحل والے ایک ہی جیسے ایٹموں پر مشتمل تھیں۔

دیما قریطس نے ادراک اور علم پر خاص توجہ دی۔ مثلاً وہ کہتا تھا کہ احساسات وہ تبدیلیاں ہیں جو دیگر اشیاء سے خارج ہونے والے ایٹموں سے روح کے متاثر ہونے پر پیدا ہوتی ہیں ۔ روح کے ایٹموں کو صرف دیگر ایٹم ہی متاثر کر سکتے ہیں۔ لیکن شیریں اور ترش جیسے احساسات خارج شدہ ایٹوں میں خلقی نہیں کیونکہ وہ محض ایٹوں کے سائز اور شکل سے پیدا ہونے والے اثرات کا نتیجہ ہیں۔ مثلاً مٹھاس کی وجہ ایسے گول ایٹم میں جو سائز میں بہت زیادہ چھوٹے نہیں ۔

دیما قریطس ہی پہلا شخص تھا جس نے رنگ کی وضاحت کر نے کی کوشش کی۔ اس کے خیال میں رنگ مرکبات کے مشتملہ ایٹموں کی ’’پوزیشن‘‘ کی وجہ سے ہیں۔ مثلاً سفیدی کا احساس ہموار اور چپٹے ایٹموں کا نتیجہ ہے جن کا کوئی سایہ نہیں ہوتا ۔ جبکہ کالے رنگ کا احساس کھردرے اور غیر ہموار ایٹموں سے پیدا ہوتا ہے ۔

دیماقریطس نے مافوق الانسان عاملیت (Agency) کوحوالہ بنا کر غیر معمولی مظاہر ( رعد صاعقہ آتش فشاں ) کی وضاحت کی خواہش کو دیوتاؤں پر مقبول عام عقیدے سے منسوب کیا۔ اس نے اخلاقیات کے بارے میں بھی لکھا اور مسرت یا’’ خوش دلی‘‘ کو اعلی ترین خوبی بتایا ایسی حالت میں جو اعتدال ذہنی طمانیت اور خوف سے آزادی میں حاصل ہوتی ہے۔ بعد کی تواریخ میں د یما قریطس کا ذکر خندہ زن‘‘ فلسفی کے طور پر آ تا ہے۔ جبکہ متین اور یاسیت پسند ہیراکلائٹس کو’’بسورنے والا فلسفی‘‘ کہا گیا ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

دیما قریطس کی ایٹمی تھیوری نے بقاۓ تو انائی اور مادے کے نا قابل تخفیف ہونے کے جد ید اصولوں کی پیش بینی کی ۔اپیی قورس نے اپنے فلسفہ کے بنیادی اصول اس سے مستعار لیے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply