قصہ شہر بدر کا(10)-شکور پٹھان

پنج ستارہ ہوٹل کے مختلف آؤٹ لیٹس کے مشاہدے اور معائنے کے بعد اگلے ہفتے سے باقاعدہ ملازمت شروع ہونے والی تھی۔ اگلے دن جمعہ تھا یعنی چُھٹی تھی، جمعہ کی پوری رات تھی اور ہفتہ کا پورا دن تھا۔ مجھے رات گیارہ بجے ڈیوٹی پر حاضر ہونا تھا۔ ہفتے کا پورا دن اِسی اُدھیڑ بُن میں گزر گیا کہ کب اور کتنا سویا جائے کہ رات بھر جاگ کر کام کیا جائے۔ اس سے پہلے کئی مواقع پر پوری رات جاگ کر گزاری تھی۔ اکثر شب برات، شب معراج اور شب قدر میں پوری رات جاگتے رہے، دوستوں کے ساتھ مسجد میں عبادت کم اور تفریح زیادہ ہوتی تھی۔ اکثر یہ بھی ہوا کہ پوری رات جاگے بہت سارے نوافل پڑھے، تلاوت کی،قبرستان کی زیارت کی ، ہوٹل میں بیٹھ کر چاء پی، مسجد میں سحری کے لئے آئی ہوئی بریانی کی دیگ سے بریانی کھائی اور فجر سے پہلے سو گئے تو دوسرے دن دس گیارہ بجے ہی اٹھے۔

لیکن یہاں صرف جاگنا نہیں تھا، نہ ہی دوسروں سے گپ شپ کرنی تھی، بلکہ کام کرنا تھا۔ اور کام بھی نیا، جسے سیکھنا تھا، جس کے لئے آنکھیں اور دل و دماغ کھلے رکھنے تھے۔ اسی سوچ بچار میں پورا دن گزر گیا، نیند بھلا کیا آتی۔ اسی کیفیت میں رات ساڑھے دس بجے ہوٹل پہنچ گیا۔ جہاں اکاؤنٹس آفس میں رپورٹ کرنا تھا۔

اکاؤنٹس میں ہاؤس کیپنگ کا آدمی صفائی میں مصروف تھا۔ اکاؤنٹس ڈپارٹمنٹ کا کوئی بندہ وہاں موجود نہیں تھا۔ باہر آکر استقبالیہ پر پتہ کیا تو بتایا گیا کہ گیارہ بجے نائٹ آڈیٹرز آتے ہیں، وہیں بیٹھ کر انتظار کرو۔ گیارہ بجے سے چند منٹ قبل سوٹ بوٹ میں ملبوس درمیانے قد کے ، گھنگریالے بالوں والے ایک نوجوان تشریف لائے۔ کیشئر  نے انہیں بتایا کہ یہ لڑکا تمہارا انتظار کررہا ہے۔

یہ اسماعیل چاند تھے۔ ان سے مختصر سی بات ہوئی۔ اپنا تعارف کرایا۔ “ کچھ ہی دیر میں جاوید اور انیل آتے ہوں گے۔ آپ اندر بیٹھ جائیں “ کہہ کر وہ کیشئر  کاؤنٹر کے عقبی حصے میں چلے گئے جہاں انہیں فرنٹ آفس کیشئر سے رات کی ڈیوٹی کا چارج لینا تھا۔

اتنے میں ایک خوبصورت اور اسمارٹ سے نوجوان استقبالیہ کے سامنے سے گزرے۔ ریسیپشنسٹ اور کیشئر نے انہیں ادب سے سلام کیا۔ یہ نائٹ منیجراحمد غلو م تھے۔ ریسیپشنسٹ نے میرا تعارف کروایا کہ یہ لڑکا آج سے جوائن کررہا ہے۔ ایرانی النسل احمد غلوم نے مسکراہٹ اور گرمجوشی کے ساتھ مجھے خوش آمدید کہا اور نیک خواہشات کا اظہار کیا اور استقبالیہ کے پیچھے اپنے دفتر کی جانب مڑ گئے۔ اسی وقت جاوید زبیری بھی لابی میں نمودار ہوا۔ یہ وہی تھا جس نے مجھے یو بی ایل میں اس ملازمت کی اطلاع دی تھی۔
“ اوہو، تو تم پہنچ گئے یہاں” جاوید کے انداز سے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ اسے خوشی ہوئی ہے یا بس رسمی سی مسکراہٹ ہے۔
میں اور جاوید اکاؤنٹس آفس میں آمنے سامنے بیٹھے تھے۔ کچھ دیر یہاں وہاں کی باتیں ہوتی رہیں پھر جاوید مجھے کام کے بارے میں سمجھانے لگا۔ ابھی آدھا گھنٹہ گزرا تھا کہ “ ہیلو، ہائے، بلڈی ہیل، f***” اور الا بلا قسم کے مغلظات بکتے ایک عجیب سی چیز دفتر میں داخل ہوئی۔ اور آتے ہی انگریزی میں پتہ نہیں کیا کیا کچھ بتا رہا تھا، جاوید اس کی باتیں سن کر ہنس رہا تھا۔

سیاہی مائل گندمی رنگت، چہرے پر ہندوستانی فلموں کے پروفیسروں جیسی داڑھی، موٹے شیشوں والی عینک اور ڈیڑھ فٹ قد والی اس ہستی کا نام انیل روما یو تھا۔ یہ ہم سب کا انچارج یعنی چیف نائٹ آڈیٹر تھا۔ انیل ممبئی کا مراٹھا تھا۔ یہ تو بعد میں دیکھا کہ اس کے دفتر آنے اور کام کرنے کا انداز کچھ یوں ہوتا جیسے اس نے ہلٹن کی ملازمت قبول کرکے ہلٹن کی انتظامیہ پر احسان عظیم کیا ہے۔ وہ اکثر وبیشتر تو تشریف ہی نہیں لاتا، آتا بھی صبح سے کچھ دیر پہلے جب میں، جاوید اور اسماعیل تقریباً سارا کام نبٹا چکے ہوتے تھے۔ انیل بلاشبہ بہت ذہین تھا، ہمیشہ انگریزی میں بات کرتا، ہندی صرف گالی دینے کے لئے استعمال کرتا۔ دفتر آکر کام سے زیادہ گزرے دن کی روداد سناتا، ہم سب کے لئے چائے، فریش اورنج جوس، ہاٹ چاکلیٹ، چپس اور سینڈوچ آتے، انیل کےلئے بئیر آتی اور الیکٹرک کیلکولیٹر پر، جو ان دنوں نئے نئے آئے تھے، ٹوٹل کرتے ہوئے جھومتا رہتا اور گالیاں بکتا رہتا۔ اکثر اپنی گرل فرینڈ “پدما” کی باتیں بتاتا رہتا۔
“She wasn’t talking to me for many days. I didn’t see her for quite a long. And the day I went to see her, she was playing Sitar, tears were flowing down her cheeks, and She was singing “GHAR AAYA MERA PARDESI. I busted into tears.”
ہم اپنے کام میں لگے رہتے اور اسکی داستان محبت جاری رہتی۔

اسماعیل بھائی بھی یو بی ایل سے ہی آئے تھے لیکن وہ یوبی ایل کراچی میں کام کرتے تھے اور حسابات کا ٹوٹل کیلکولیٹر کےبجائے منہ زبانی کیا کرتے تھے اور ان کے ٹوٹل میں کبھی غلطی نہیں ہوتی تھی۔ وہ اپنے آپ کو داؤد چاند کا بیٹا بتاتے تھے ، داؤد چاند کے بارے میں سنا تھا کہ پاکستان کی پہلی فلم “ تیری یاد” کے ہدایتکار تھے۔

تو یہ ہم چاروں کی ٹیم تھی۔ ہمارے کام کی خصوصیت یہ تھی کہ ہمارے سروں پر کوئی “باس” سوار نہیں ہوتا تھا۔ انیل ہمارا ٹیم لیڈر تھا لیکن وہ خود ہی ہوش وخرد سے بیگانہ رہتا۔ کام پر بھی باقاعدگی سے نہ آتا، نہ کبھی وقت پر آتا۔ اس کا اسے خمیازہ بھی بھگتنا پڑا لیکن وہ کہانی آگے آئے گی۔

ہمارے کام کی دوسری خصوصیت یہ تھی کہ ہمیں روز کے روز کام ختم کرنا ہوتا تھا، اور جب بھی کام مکمل ہو ، ہماری ڈیوٹی ختم ہوجاتی تھی اور ہم چاہے تو گھر جاسکتے تھے سوائے فرنٹ آفس آڈیٹر کے، جسے صبح کیشئر آنے تک رکنا پڑتا تھا۔ لیکن اس کام میں ایک چیلنج یہ بھی تھا کہ جب تک تمام اکاؤنٹ بیلنس نہ ہوجائیں ہماری چھٹی نہیں ہوسکتی تھی اور ہمیں صبح اکاؤنٹس کے عملے کے آنے سے پہلے دفتر خالی کرنا ہوتا تھا۔ لیکن اس کی نوبت کم ہی آتی تھی۔

میں نے نیند کو دور کرنے کا طریقہ یہ نکالا کہ سب سے غیر آرام دہ کرسی، جس کے ہتھے بھی نہیں تھی، استعمال کرنے لگا۔ لیکن یہ کچھ دنوں کی بات تھی۔ کچھ عرصہ بعد معمولات میں ایک توازن آگیا اور دن میں مناسب نیند ملنے لگی۔ رات کو کام پر نیند نہیں آتی تھی کہ کام کی نوعیت ہی ایسی تھی۔ درمیان میں کچھ دیر چائے کا وقفہ ہوتا۔ اس دوران روم سروس والے ہمیں تازہ اورنج جوس، سینڈوچز، چپس، ہاٹ چاکلیٹ یا چائے وغیرہ بھیجتے۔

صبح ہم چاروں ساتھ نکلتے اور سمندر کنارے پیدل چلتے ہوئےاپنے گھروں کو روانہ ہوتے۔ منامہ تک ہم سب ساتھ آتے۔ کبھی کبھار منامہ میں ملباری کے ہوٹل میں ناشتہ کرتے جس کا مینو عجیب سا ہوتا۔ یہاں مشہور عالم ملباری پراٹھوں کے ساتھ تلی ہوئی کلیجی اور دہی کھاتے، اور ملباریوں کی سب سے بڑی خصوصیت یعنی گرما گرم کڑک چائے کا لطف اٹھاتے۔ یہ سب آپ کو بتانے سے زیادہ میں اپنے آپ کو سنا رہا ہوں کہ بیتے ہوئے کچھ دن ایسے بھی تھے۔

کبھی کبھار ہم ہلٹن کی بیکری شاپ سے صبح سویرے بنی ہوئی تازہ بتازہ ڈینش پیسٹری اور croissant کا بکس لیتے جو ہوٹل کے مہمانوں کو تو بہت مہنگے ملتے لیکن ہمیں بہت ہی رعایتی قیمت پر ملتے۔ عموماً چھٹی کے دن میں یہ پیسڑیاں گھر لاتا تو چچا کے بچوں کے چہرے کھل اٹھتے۔

اور جب کبھی کام ختم ہونے میں دیر ہوجاتی تو صبح اپنے اکاؤنٹس کے دیگر ساتھیوں سے ملاقات ہوتی۔ یہاں کا ماحول بڑا خوشگوار اور دوستانہ تھا۔ مجھے اپنے پہلے چیف اکاؤنٹنٹ یا فائنانس کنٹرولر کا نام یاد نہیں رہا جو کچھ ہی دنوں بعد ہلٹن کی کسی اور شاخ میں چلا گیا تھا۔ اس کی جگہ ایک چاق و چست ایتھوپئین اکاؤنٹنٹ “ ابراہام ٹیفیری” ہمارا باس بنا۔ یہ ایک متوازن طبیعت کا نرم خو شخص تھا لیکن کام اور ڈسپلن میں رعایت نہیں کرتا تھا۔ اکاؤنٹس میں پاکستانی، مصری اور ہندوستانی کام کرتے تھے۔ اکثریت پاکستانیوں کی تھی۔ جنرل کیشئیر ایک خوشامدی اور چاپلوس قسم کا ملباری تھا۔ پاکستانی لڑکے بڑے کائیاں تھے اور اس کا ناطقہ بند کئے رکھتے۔

فائیو اسٹار ہوٹل کی دنیا ایک عجیب ہی طرح کی دنیا ہوتی ہے۔ کراچی کی سرکاری ملازمت اور بحرین میں بنک کی ملازمت کے بعد یہ ایک بالکل ہی نئی نوعیت کی نوکری تھی اور اس کا ہر شعبہ اپنی ایک دلچسپی لئے ہوئے تھا۔ ہوٹل میں ہونے والی رنگ برنگی قسم کی تقریبات، فنکشن، کانفرنسیں، کرسمس، نیو ائیر اور دیگر تہوار، رقص و سرود کی محفلیں، طرح طرح کی مشہور شخصیات کو قریب سے دیکھنا، ان سے باتیں کرنا، مستقل مہمانوں سے دوستیاں، یہ سب اتنی  کہانیاں لئے ہوئے ہیں کہ سمجھ نہیں آتا کہ “ کہاں سے چھیڑوں فسانہ ، کہاں تمام کروں”۔

ہوٹل کا اسٹاف ہی اتنی رنگ برنگی قومیتوں کے لوگوں پر مشتمل تھا۔ پاک وہند کے علاوہ، مقامی عرب اور ایرانی ( بحرینیوں کی اکثریت ایرانی النسل ہے، جو ہمیشہ باعث نزاع بنی رہی ہے) ، انگریز، جرمن، اطالوی، دیگر یوروپئین اور امریکن ، ان سب سے مل کر نئی نئی باتیں سیکھنے  کو ملتیں۔ اور سب سے بڑی رنگینی تو ہوٹل کا زنانہ اسٹاف تھا۔

ریسیپشن پر کام کرنے والی کراچی کی کشور، گوانیز سسلئیا،ٹیلیفون آپریٹر بحرینی فضیلہ ( جو ہروقت سڑی رہتی اور جس سے ہمیشہ عربی، انگریزی اور ہندوستانی گالیاں سننے ملتیں) کیشئر ممبئی کی سعدیہ، (جب میں نے پہلی بار سمیتا پاٹِل کو دیکھا تو مجھے سعدیہ یاد آئی) ایک پرخلوص، بے باک اور دلدار دوست، جس کی اپنی کہانی اس قدر دردناک تھی کہ اگر مجھ میں منٹو، اے حمید یا احمد ندیم قاسمی جیسی ہمت ہوتی تو ایک شاہکار افسانہ لکھ سکتا ۔ ہاؤس کیپنگ کی مارگریٹ جو حسن صورت میں شہزادی مارگریٹ سے کسی صورت کم نہیں تھی۔ ایک اور کیشئیر ، کیلے کے رنگ جیسے بالوں والی، فن لینڈ کی ہیلن، جو بڑھ کر خود اٹھا لے ہاتھ میں مینا اسی کا ہے ، کی چلتی پھرتی تصویر، جنرل مینیجر مسٹر اسمتھ کی سکریٹری ایلزبتھ اور اطالوی فوڈ اینڈ بیوریج مینیجر “ سویری” کی سکریٹری نام جس کا یاد نہیں ، لیکن تھی قتالہ عالم ۔ اور جرمن “لینا” جسے پاکستانی، ہندوستانی لڑکے لئے لئے پھرتے۔

اور ایک ہم تھے کہ شریف بہو بیٹی بنے نظریں جھکائے رکھتے۔ یہ نہیں کہ صنف نازک سے بات نہیں کرتے، بات بھی کرتے کہ کام کی ضرورت تھی۔دوستیاں بھی ہوئیں۔ ہنسی مذاق بھی ہوتا، لیکن یہی تو نہیں ہوتا، اور بھی تو بہت کچھ ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں ، جو ہم سے نہ ہوا اور جس کا آج تک افسوس ہے۔
ابھی پچھلی قسط میں ہی تو کسی نے تبصرہ کیا تھا کہ۔۔
کسی کا عہد جوانی میں پارسا ہونا
قسم خدا کی یہ توہین ہے جوانی کی

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments

شکور پٹھان
محترم شکور پٹھان شارجہ میں مقیم اور بزنس مینیجمنٹ سے وابستہ ہیں۔ آپ کا علمی اور ادبی کام مختلف اخبارات و رسائل میں چھپ چکا ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply