• صفحہ اول
  • /
  • سائنس
  • /
  • ستاروں کا فاصلہ کیسے ماپا جاتا ہے؟/2،آخری قسط-ڈاکٹر حفیظ الرحمٰن

ستاروں کا فاصلہ کیسے ماپا جاتا ہے؟/2،آخری قسط-ڈاکٹر حفیظ الرحمٰن

انسان کی دو آنکھیں ہیں جن سے وہ اردگرد کے ماحول کو دیکھتا ہے۔آ نکھوں میں جب روشنی پڑتی ہے تو آنکھوں کے پیچھے روشنی کے لیے حسّاس خلیے جنہیں کونز کہتے ہیں، برقی سگنل دماغ تک بھیجتے ہیں۔ دماغ اِن سگنلز کو پڑھ کر آپ کو وہ شئے یا منظر دکھاتا ہے۔ یہ عمل چندمائیکروسیکنڈ کا ہے۔

دو آ نکھیں ہمیں چیزوں کی گہرائی  کا بہتر اندازہ لگانے میں مدد دیتی ہے۔ کوئی شئے ہماری آنکھوں کے قریب ہو تو ہمیں بے حد واضح نظر آتی ہے۔ اگر ایک ڈنڈا آپکے بالکل سامنے پڑا ہو تو آپ اسکی لمبائی کے علاوہ اسکی موٹائی بھی دیکھ سکتے ہیں لیکن اگر وہ آپ سے دور ہو تو وہ آپکو ایک لکیر کی صورت نظر آنے لگے گا۔ چلیے ڈنڈے سے پینسل پر آتے ہیں۔ آپ ایک پینسل کو اپنی آنکھوں سے کچھ فاصلے پر رکھتے ہیں اور دائیں آنکھ بند کر کے اسے دیکھتے ہیں تو وہ پس منظر میں موجود کسی شئے کے مقابلے میں ایک جگہ نظر آئے گی۔ اب آپ بائیں آنکھ بند کر کے دائیں آنکھ سے اسے دیکھنے ہیں تو وہ آپکو دوسری جگہ نظر آئے گی۔

دونوں آنکھوں کا پینسل کو الگ الگ دیکھنے سے اسکی جگہ میں بظاہر تبدیلی کم یا زیادہ ہو سکتی ہے۔ یہ اس بات پر منحصر کہ پینسل آپکی آنکھ سے کس قدر قریب یا دور ہے۔ اگر پینسل آپکی آ نکھ کے قریب ہے تو باری باری ایک ایک آنکھ سے پینسل کو دیکھنے سے اسکی جگہ میں واضح فرق آئے گا اور اگر بے حد دور تو آپکو یہ فرق زیادہ نہیں دکھائی دے گا۔ اس مظہر کو سائنس کی زبان میں Parallax کہتے ہیں۔یعنی مختلف جگہ سے کسی شئے کو دیکھنا اور اسکی بظاہر پوزیشن میں فرق نظر آنا۔

چونکہ دو آنکھوں کے درمیان کچھ فاصلہ ہے تو ان سے ایک ایک کر کے پینسل مختلف جگہوں پر واضح فرق کے ساتھ نظر آ رہی ہے۔ پینسل کی جگہ میں تبدیلی کو مارک کر کے آپ آنکھ سے پینسل کا زاویہ معلوم کر سکتے ہیں۔ اب آپکو دو چیزیں معلوم ہیں۔ اوّل آپکی ایک آنکھ سے دوسری آنکھ کا فاصلہ اور دوسرا پینسل سے بننے والا آنکھ تک کا زاویہ۔

ان دو معلومات سے آپ با آسانی پینسل کا اپنی آنکھ تک کا فاصلہ جیومیٹری کے سادہ اصولوں سے (یعنی 90 ڈگری کے تکون یا مٹلث کا ایک اینگل اور سائیڈ معلوم ہو تو دوسری دوسری سائیڈز معلوم کر سکتے ہیں جو دراصل پینسل سے آپکی آنکھ کا فاصلہ ہو گا)۔

سو اب ہم parallax کا فاصلہ معلوم کرنے کا یہ طریقہ جانتے ہیں اور اس سے دور کی کسی شے کا فاصلہ وہاں گئے بغیر معلوم کر سکتے ہیں۔ مگر یہاں ایک اور مسئلہ ہے ۔
آپ کبھی شام ڈھلے ٹھنڈی ہوا کھانے گاڑی میں دور کسی ویران سڑک پر نکل جائیں اور خوش قسمتی سے اس شام چودہویں کا چاند آسمان میں چاندنی بکھیر رہا ہو۔ گاڑی چلاتے آپکو یوں لگے گا کہ چاند بھی آپکے ساتھ ساتھ محوِ سفر ہے گویا وہ آپکا ہم سفر ہے۔ آسمان میں وہ بھی آپکے ساتھ ساتھ اسی رفتار سے جا رہا یے۔ گویا چاند کی آسمان میں جگہ نہیں بدل رہی۔

ایسا کیوں ہے؟

ایسا اس لیے کہ چاند زمین سے لاکھوں میل دور ہے۔

اور کوئی شے اس قدر دور ہو تو آپ ایک جگہ سے دوسری جگہ ایک بہت بڑا فاصلہ بھی طے کر کے اسے دیکھیں تو تب بھی اس شئے کی بظاہر پوزیشن کچھ خاص نہیں بدلے گی۔
بالکل اسی وجہ سے جب آپ ناران کاغان یا کسی اور پہاڑی علاقے میں جاتے ہیں تو گاڑی چلاتے روڈ کے قریب درخت تو آپکو جگہ بدلتے نظر آتے ہیں جبکہ دور کے پہاڑ ایک جگہ۔پس منظر میں ٹھہرے نظر آتے ہیں۔

اسکی وجہ یہ ہے کہ کسی شئے کے دور ہونے سے اسکا parallax کم ہو جائے گا یعنی اسکا آپکی آنکھوں یا مختلف جگہوں سے دیکھنے کی جگہ سے بننے والا زاویہ کم ہوتا جائے گا۔ سو اگر تو آپ کسی دور کی شئے کا آنکھ سے زاویہ بڑھانا چاہتے ہیں  تو آپکو ایک طویل فاصلہ طے کرنا پڑے گا۔

نوری سالوں کی مسافت پر روشن ستاروں کے لیے تو شاید اور بھی زیادہ۔ یہ فاصلہ کروڑوں کلومیٹر ہو سکتا ہے

لیکن ہم اتنا فاصلہ کیسے طے کر سکتے ہیں کہ parallax کے اس طریقے سے با آسانی ستاروں کا فاصلہ معلوم کریں ۔ گھبرائیے نہیں۔ اسکا بھی ایک حل ہے۔ آپکو کہیں جانے کی ضرورت نہیں۔
ہم جانتے ہیں کہ زمین سورج کے گرد گھومتی ہے۔ اور سال میں ایک چکر مکمل کرتی ہے۔ زمین کا مدار سورج کے گرد بیضوی ہے۔ بیضوی مدار میں دو جگہیں ایسی آتی ہے جہاں دو مخالف سمت پر ایک دوسرے سے فاصلہ ایک جتنا ہو۔ تو سائنسدان اس حقیقت کا کیا کرتے ہیں؟

جو ستارے ہم سے قریب ہیں ان ستاروں کے پیچھے بے حد دور اور ستارے بھی ہیں۔ اگر ہم قریب کے ستاروں کی آسمان میں جگہ کسی جدید ٹیلی سکوپ سے جنوری میں ماپیں اور پھر اسی ستارے کی آسمان میں جگہ جولائی میں ماپیں تو اس عرصے میں زمین ایک بڑا فاصلہ طے کر کے مخالف سمت پر آ چکی ہو گی اور یوں ہم ستارے اور زمین کے درمیان زاویہ یا اینگل قدرے بڑا ہو گا۔ اسطرح سے ہم با آسانی قریب کے ستاروں کا فاصلہ ماپ سکتے ہیں۔

اگر ہم جدید سے جدید آلات سے معمولی سے معمولی زاویہ ماپ سکیں تو ہم بے حد دور کے ستاروں کا فاصلہ بھی اس طریقے سے ماپ سکتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

مگر اس طریقہ کار کے ذریعے اب تک جدید خلائی دوربینوں سے محض سوا تین ہزار نوری ہزار نوری سالوں کی مسافت پر موجود ستاروں کا فاصلہ ماپ سکتے ہیں۔ جبکہ ہماری کہکشاں ملکی وے کا قطر ایک لاکھ نوری سالوں سے بھی زیادہ ہے۔ تو ہم لاکھوں نوری سالوں کی مسافت پر وجود رکھتے ستاروں کا فاصلہ کیسے ماپ سکتے ہیں؟
اس پر بات اگلی کسی پوسٹ میں۔
جاری ہے

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply