اس نے ایک نظر گھڑی کی طرف دیکھا، آٹھ بج رہے تھے۔ گویا دس گھنٹے ہونے کو آئے تھے لیکن طبیعت میں بے چینی تھی کہ کم ہونے کی بجائے بڑھ رہی تھی۔ لیپ ٹاپ بند کر کے اس نے میز پر رکھا، سگریٹ کا پیکٹ اٹھا رہا تھا کہ نظر ایش ٹرے پر پڑی۔ “اوہ، آج اتنے زیادہ سگریٹ پھونک ڈالے۔” اس کی زبان سے نکلا۔ کسی بڑے مقصد کے لیے چھوٹی موٹی قربانی تو دینا پڑتی ہے، اس نے سوچا اور مسکرانے کی کوشش کی لیکن مسکراہٹ ہونٹوں پر بجھ کر رہ گئی۔ اتنے میں باہر کسی گاڑی کے بریک چرچرائے۔ اسے خوف کی ایک لہر ریڑھ کی ہڈی میں اترتی ہوئی محسوس ہوئی۔ “کہیں وہ آ تو نہیں گئے؟” اس سے خود سے سوال کیا۔
کچھ دیر بعد اسے قدموں کی چاپ کمرے کی جانب آتی ہوئی سنائی دی۔ کپکپاتے ہاتھوں سے اس نے سگریٹ ایش ٹرے میں پھینکا اور باتھ روم میں گھس کر اندر سے کنڈی لگا لی۔ دروازے سے کان لگا کر اس نے سننے کی کوشش کی۔ کمرے کا دروازہ دھڑام سے کھلا اورایک بھاری آواز گونجی ۔۔۔
“الو کے پٹھے! کہاں مرے ہوئے ہو؟ میں ایک گھنٹے سے تمھیں بلا رہا ہوں۔” اس کے بے جان ہوتے گھٹنوں میں جان آنے لگی۔ اس نے بے ترتیب سانسوں پر قابو پایا اور بولا ۔۔ “آ رہا ہوں، ابو جی۔”!
“جلدی آؤ، میں نے کچھ دوائیں منگوانی ہیں۔” کمرے کا روازہ بند ہو گیا۔
مارکیٹ کی طرف جاتے ہوئے، موٹر سائیکل کا ہینڈل اس کے ہاتھوں میں لرز رہا تھا۔ اس نے رفتار مزید کم کر دی۔ بار بار بیک مرر میں دیکھتا، جب بھی پیچھے کسی گاڑی کی ہیڈ لائٹس جگمگاتیں، ہینڈل پر اس کی گرفت مزید سخت ہو جاتی۔ کسی نہ کسی طرح فارمیسی پہنچ کر اس نے نسخہ جیب سے نکالا اور کاؤنٹر پر رکھ دیا۔ سیلز مین نے ایک نظر کاغذ کی جانب دیکھا اور مسکرایا “بھائی جان! یہ چیزیں یہاں نہیں ملتیں۔ وہ کونے پر جنرل سٹور ہے، وہاں سے ملیں گی۔” وہ پیچھے سڑک کی جانب دیکھ رہا تھا، سیلز مین کی آواز سن کر چونکا، کاغذ کو دیکھا اور جھینپ کر اسے واپس جیب میں ڈال لیا۔ دوسری جیب سے نسخہ نکالا اور سیلز مین کو دیتے ہوئے بولا، ذرا جلدی کیجیے۔
فارمیسی سے باہر نکل کر موٹر سائیکل سٹارٹ کرنے ہی لگا تھا کہ کسی نے اسے آواز دی: “اوئے! صبح سے کہاں تھے تم؟” گھبراہٹ میں موٹر سائیکل کی کک سلپ ہو گئی اور ریکوائل کر کے اس کی پنڈلی پر لگی۔ درد کی شدید لہر پر قابو پاتے ہوئے اس نے پیچھے مڑ کر دیکھا۔ “منحوس! تو نے تو مجھے ڈرا ہی دیا تھا۔” اس نے اپنے دوست کی شکل پہچانتے ہوئے کہا جو اندھیرے سے نکل کر اسی کی طرف آ رہا تھا۔
“کیا ہوا تجھے؟ یہ منہ پر بارہ کیوں بجے ہیں؟” دوست نے پوچھا۔
“تو چل میرے ساتھ، گھر بیٹھ کر بات کرتے ہیں۔”
گھر پہنچ کر اس نے دوائیاں ابو جی کو دیں اور دوست کو ساتھ لے کر کمرے میں آگیا۔ دروازہ بند کر کے چٹخنی چڑھائی، کھڑکی کے پردے چیک کیے اور کرسی کھینچ کر دوست کے پاس بیٹھ گیا جو حیرت سے اس کی جانب دیکھ رہا تھا۔
“او بھائی! ہوا کیا ہے؟ کس بات پر اتنا گھبرایا ہوا ہے؟ کوئی ہارر فلم تو ڈاؤنلوڈ کر کے نہیں دیکھ لی؟ دوست نے پوچھا۔
اس نے جیب سے فون نکالا، فیس بک کھولی اور اسے اپنی ایک پوسٹ دکھاتے ہوئے کہا: “پڑھ اسے۔” دوست نے فون پکڑا اور پڑھنے کے بعد بولا: “کیا ہے اس میں؟”
“تجھے کوئی خاص بات نظر نہیں آتی اس میں؟”
“نہیں!”
“یار غور سے پڑھ۔ مجھے تو صبح سے ہول اٹھ رہے ہیں۔ کہیں کوئی مسئلہ نہ ہو جائے۔ ابو جی نے تو ویسے ہی ٹانگیں توڑ دینی ہیں میری۔”
دوست نے پھر پوسٹ پڑھی اور حیرانی سے سر ہلایا، مجھے تو اس میں کچھ نظر نہیں آرہا۔”
“تم سمجھ نہیں رہے ۔۔۔۔۔ دیکھو، ذرا غور سے دیکھو ۔۔۔۔۔ میں نے کیا لکھا ہے ۔۔۔۔۔ میرا تو دل بڑا گھبرا رہا ہے ۔۔۔۔۔ کوئی ایجنسیوں والے اٹھانے ہی نہ آ جائیں ۔۔۔۔”
“ہاہاہا ۔۔۔۔ ہاہاہا ۔۔۔۔۔ اوئے چوزے! تجھے یہ ایجنسیوں کا ڈر کب سے لگنے لگا؟”
“کب سے کا کیا مطلب؟ ۔۔۔۔۔ روز دیکھتے نہیں فیس بک پر کتنے لکھاری لکھتے ہیں کہ انہیں ایجنسیوں والے اٹھا کر لے جائیں گے۔۔۔۔۔”
“او میری بھولی مج (بھینس) ۔۔۔۔ یہ جو بڑے لکھاری لکھتے ہیں نا، اسے یوں سمجھو کہ یہ ایجنسیوں کی اجازت سے ان کے سامنے کلمہ حق بلند کرتے ہیں اور اتنا ہی بلند کرتے ہیں، جتنی ان کو اجازت ملی ہوتی ہے ۔۔۔ (ایک آنکھ میچ کر)اور بڑی بات یہ سمجھو کہ جنھیں ایجنسیوں نے اٹھانا ہوتا ہے، وہ اٹھا لیے جاتے ہیں، انہیں فیس بک پر بار بار ایجنسیوں کو دعوت دینے کی ضرورت پیش نہیں آتی۔”
“ہیں ۔۔۔۔۔۔۔؟”
“آہو ۔۔۔۔۔ اور ویسے بھی تجھ جیسے رنگروٹ دانشور کو کوئی نہیں اٹھانے آئے گا۔ چپ کر کے سوجا!”
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں