بے حد رمزاں دسدا/ڈاکٹر اظہر وحید

برادرم ڈاکٹر شفقت کہ آج کل پاکستان آئے ہوئے ہیں، گزشتہ روز اپنے ہمجولی ڈاکٹر مظہر بھٹی کے ہمراہ تشریف لائے۔ تبادلہ خیال اور اشعار کے دوران میں ایک طرح مصرع دے گئے۔ کہنے لگے کہ گزشتہ برس دربار حضرت واصف علی واصفؒ حاضری کے سمے ایک مصرع وارد ہوا تھا، سوچا یہاں آپ کے سپرد کرتا ہوں۔ آپ اسے نبھائیں۔ لوگ طرح مصرع پر غزل لکھتے ہیں، اس فقیر کو اس مصرعے پر گرہ لگانے کے بجائے کالم لکھنے کی سوجھی ہے۔ مصرع یوں تھا:ع
واصفؒ ترے وصف کی تدبیر نرالی
یہ مصرع سنتے ہی اس فقیر کی زبان سے بے ساختہ نکلا:ع
کرتا ہے تو ہر شخص کی تقدیر نرالی
جگ بیتی تو معلوم نہیں، ہڈ بیتی یہی ہے کہ قلندر کی دسترس میں لوح و قلم بھی دیکھے گئے ہیں۔ یہ جملہ اگر کسی زاویہ نشیں کا معلوم ہوتا ہے اور کسی زاویے سے گراں گزرتا ہے تو اسے شریعت کی اصطلاحات میں آسان کیے دیتے ہیں۔ تعلیم یہی دی گئی ہے کہ تقدیر کو بدل دینے والی چیز دعا ہے، یعنی دعا تقدیر کو تبدیل کر دیتی ہے۔ یہ دعا کسی اور کی ہو تو تقدیر کے تیر کو پلٹانے میں تیر بہدف ہے۔ اپنی دعا کو بوجوہ غفلت و معصیت اگر تشکیک کا روگ لگ چکا ہو تو کسی دعاگو کو ڈھونڈ لینا چاہیے۔ ہم نے اپنے مرشد کی محفل میں یہ سنا کہ دعا کیا کرو، یااللہ! ہمیں ایسے گناہوں سے بچا جو ہم سے دعا چھین لیتے ہیں۔ لفظوں سے تاثیر اور دعا سے اثر چھیننے والے عیوب سے اللہ اپنی پناہ میں رکھے۔ یہ تعوّذ کا وسیع تر مفہوم ہے۔
دراصل اپنی دعا میں غرض شامل ہوتی ہے، جب ہم کسی سے مناجات کی سوغات وصول کرتے ہیں تو یہ بالخصوص بے لوث ہوتی ہے۔ دعا دل کی فریاد ہے۔ اہلِ دل جانتے ہیں کہ دل کی دنیا دماغوں کی دنیا پر حکمرانی کر رہی ہے۔ قلندر کا حال اس کے قال پر پیش قدمی کر چکا ہوتا ہے، اس لیے اس کی دعا الفاظ کی محتاج نہیں ہوتی۔ وہ دعا کرتا نہیں بلکہ دعا سوچتا ہے…. وہ سوچتا ہے اور تکوینی نظام میں ہلچل سی مچ جاتی ہے۔ ایسے ایسے واقعات رونما ہونے لگتے ہیں کہ انسانی عقل جو سبب اور نتیجے کا منظر دیکھنے کی عادی ہوتی ہے، ورطہ حیرت میں ڈوب جاتی ہے۔ جس ذی شعور پر وہ واقعہ گزرتا
ہے، وہ کچھ بتانے کے قابل نہیں رہتا ہے…. عقل حیران اور زبان گنگ ہو جاتی ہے…. بھلا گونگے کی خواب کی تعبیر کون بتا سکتا ہے؟ جسم پر دل کی حکمرانی اور مادے پر روح کی کارفرمائی کا منظر دیکھنے والا کسی مزید دلیل کا محتاج نہیں رہتا۔
بہرطور مدعائے کلام یہ ہے کہ قلندر کی نگاہ اور بارگاہ میں تدبیر حسنِ تدبیر میں اور تقدیر حسنِ تقدیر میں بدلنے لگتی ہے۔ قلب سے لے کر قالب کو بدل کر رکھ دینے والا ابدال یہی قلندر ہوتا ہے۔ اس دعا، اثر، تاثیر اور تقدیر کی چال دونوں رخ پر ہو سکتی ہے۔ کہتے ہیں، بے ادب بے نصیب، باادب با نصیب۔ قلندر نے کسی خود آگہی کے مقام ہی پر کہا ہو گا۔
کیہ سمجھیا سی توں واصفّ نوں
ہن رگڑا کھا قلندر دا
آمدم برسرِ مطلب، قلندر کی بارگاہ میں ہم نے اپنی تقدیر بھی بدلتے دیکھی اور پھر اوروں کی بھی! اسے دلیل سے ثابت کرنا قدرے دشوار سہی، لیکن ایسا بھی ناممکن نہیں۔ انسان کا خیال اس کے حال پر حاوی ہوتا ہے۔ جیسے اس کے افکار ہوتے ہیں ویسے اس کے اعمال ہوتے ہیں، اور جیسے اعمال اور اعمال کا تسلسل ہوتا ہے، ویسا ہی کردار تشکیل پا جاتا ہے…. اور ہر کردار کا ایک طے شدہ مقدر رقم کر دیا گیا۔
بالفاظِ دیگر خیال بدل جائے تو حال بدل جائے گا، اور حال کے بدل جانے سے مستقبل بھی بدل جاتا ہے۔ یعنی افکار میں تبدیلی ہمارے کردار میں تبدیلی کا سندیسہ لے کر آتی ہے، یوں کردار میں تبدیلی دراصل تقدیر میں تبدیلی کا پیش خیمہ بن جاتی ہے۔ یہ سارا عمل اگر بتدریج ہو تو قدرتی معلوم ہوتا ہے، اس میں کوئی کرامت دکھائی نہیں دیتی، لیکن خیال سے لے کر حال تک…. اور پھر حال سے مستقبل تک یہی پیش رفت اگر برق رفتاری سے ہونے لگے تو کراماتی ہاتھ دکھائی دینے لگتا ہے۔ تدریج یوں بھی انسان کو تبدیلی کے عمل سے غافل کر دیتی ہے۔
قلندر کی بارگاہ میں ایک فقرے سے فقیر بنانے کی کرامت تو ہم نے بارہا دیکھی۔ اس سے بڑھ کر کیا کرامت ہو گی کہ کسی کا رخ واشنگٹن اور کوپن ہیگن سے یک لخت سوئے مدینہ و نجف ہو جائے۔ اللہ غریقِ رحمت کرے، ہمارے برادر طریقت یونس انصاری کو، بتاتے ہیں کہ میں امریکہ جانے اور وہاں مستقل سیٹل ہونے کا پختہ پروگرام بنا چکا تھا، انارکلی بازار میں قبلہ واصف صاحبؒ کی کتاب ”کرن کرن سورج“ پر نظر پڑی ، کھڑے کھڑے چند ایک فقرے نظر سے گزرے، کتاب لینے سے پہلے میں امریکہ جانے کا ارادہ ترک کر چکا تھا۔ ہمارے حمیر انور نے چوک قرطبہ جاتے ہوئے ایک بورڈ پر لکھا ہوا بس ایک فقرہ پڑھا ”پریشانی حالت سے نہیں، خیالات سے پیدا ہوتی ہے“ یکلخت ایک نادیدہ پریشانی سے نکل کر دیدہ و بینا لوگوں کے قافلے کے سنگ ہو گئے۔ ہمارے یوسف واصفی کو دیکھیں، اچھے بھلے دو جمع دو چار سوچنے والے حسابی کتابی بندے، پرویزی فکر کے متاثرین میں سے تھے، یہ انگریزی مارکہ بندہ رواں اردو نثر بھی لکھنے سے پرہیز کرتا ہو گا، یہ بھی یورپ سیٹل ہونے کے پروگرام میں تھے، واصفیات کیا پڑھی کہ اچانک بیٹھے بٹھائے ان بابوں کی محبت میں گرفتار ہو گئے جو تہہ خاک ہیں، اب موصوف اس روانی سے شاعری کرتے ہیں کہ لگتا ہے سوچتے بھی بحر میں ہیں۔ سیّد افضال زیدی ایک اور مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے کھلے ڈلے بندے، خود بتاتے ہیں کہ وہ اس آستاں سے منسلک ہو کر نشاطِ رنگ و بو کی ہر علت سے دور ہو گئے۔ اپنا حال نہیں بتاتے، صرف خیال بتاتے ہیں کہ حال یا حال میں تبدیلی بتلانے میں تعلّی کا امکان غالب ہوتا ہے، ہمارا حال کوئی اور بتائے گا۔
تقدیر کے حوالے سے ”شب چراغ“ میں درج ایک جگمگاتا شعر ہے:
تقدیر بدل جائے تو حاصل بھی ہے تقدیر
آغاز کی پیشانی پہ انجام رقم ہے
گویا تقدیر بدلنا کون سا مشکل ہے…. تقدیر کا عنوان ہی بدلنا ہوتا ہے، بس آغاز ہی بدلنا ہے، انجام بدل جائے گا۔ آغازِ فکر ہی کو بدلنا ہے، انجامِ عمل بدل جائے گا۔ تقدیر مجبوری نہیں مختاری کا عنوان ہے۔
بات سے بات اور رمز سے رمز یوں نمودار ہوتی رہتی ہے جیسے خیال کی کوکھ سے خیال۔ مرید کا خیال مرشد کی آغوشِ خیال سے پیدا ہوتا ہے۔ یہ بھی عجب ہے، ایک بار خیال آ جائے تو پھر جاتا نہیں۔ خیال اور روح کے سوا ہر پیدا ہونے والی چیز فانی ہے۔
انحد باجے کی دھن سنانے والے…. بے حد رمزیں بتلانے والے…. اس ڈھولن ماہی کی یاد میں آج ڈھول کی تھاپ پر 31ویں عرسِ وصال کی گونج سنائی دے گی۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply