امراؤ جان ادا /ظفرجی

کلاسک اردو کہانیوں کا مطالعہ جاری ہے ، کہانیاں جو تاریخ میں امر ہو گئیں، سلیبس  کا حصّہ بن گئیں ، فلموں کا عنوان بن گئیں۔ آخر کیا خصوصیت تھی ان ناولز میں۔ ان کہانیوں میں کہ آج بھی ہم ان کا تذکرہ کرتے ہیں۔

اس سلسلے میں “دیوداس” اور “انارکلی” کے بعد تیسری کہانی “امراؤ جان ادا” ہاتھ لگی ہے۔ یہ ناول مرزا ہادی رسوا نے 1899 میں لکھّا اور اب تک لاکھوں کی تعداد میں اشاعت پذیر ہو چکا ہے۔
امراؤ جان ادا ایک طوائف کی سرگزشت ہے جسے مصنّف نے آب بیتی کی صورت قلمبند کیا اور اس میں 19 ویں صدی کے لکھنؤ کی روایات اور وہاں کی اشرافیہ کی روبہ زوال تہذیب کا ایک بہترین نثری نقشہ کھنچا ہے۔

غالباً عمر کے آخری ایّام میں امراؤ کی ملاقات ایک محفل میں مرزا رُسوا سے ہوتی ہے۔ آب بیتی جو امراؤ جان ادا نے مرزا ہادی کو سنائی ، ناول کی مرکزی کہانی ہے۔

دیباچے میں مرزا ہادی رسوا نے لکھا ہے کہ یہ قصّہِ زیست امراؤ جان ادا نے خود انہیں سنایا اور انہوں نے چوری چھپے قلمبند کیا۔ امراؤ جان کو اس کا احوال معلوم ہُوا تو اوّل اوّل معتراض ہوئیں، بعد ازاں کچھ تبدیلیوں کے ساتھ اجازت دے دی۔ کتاب کے آخر میں مسودے پر امراؤ جان ادا کا طویل تبصرہ ناول کا ماحاصل ہے۔

امراؤ جان ادا ، ناول کے مروجہ اصول و ضوابط سے کافی ہٹ کر لکھا گیا۔ کہیں یہ بے لاگ گفتگو کا تاثر دیتا ہے، کہیں انٹرویو کا ، کہیں محفلِ مشاعرہ کا رنگ جما لیتا ہے تو کہیں ڈرامے کا سا اظہاریہ معلوم ہوتا ہے۔ کہانی پسِ منظر میں چلتی ہے۔ اس کے باوجود ناول کے تمام لوازمات اس میں بدرجہ اتم موجود ہیں۔

طرزِ بیان ایسا گویا کہانی پڑھی نہیں، سنی جا رہی ہو۔ شوخی ایسی گویا ملاقات کو ترسے دو بے تکلّف دوست مدت بعد ملے ہوں اور چہلیں کرتے کنجِ ماضی کے جواہر کھوجتے ہوں۔ نثر تو ہے ہی لاجواب ، شاعری ایسی عمدہ گویا دو قادرالکلام شاعر ایک دوسرے کا مصرعہ اٹھا رہے ہوں۔

کہانی کے بیچ جگہ جگہ مصنف کا تبصرہ و توثیق آب بیتی کو حقیقی رنگ میں ڈھالتا ہے۔ اس نے اظہاریے میں جان ڈال دی ہے۔ گویا کوئی خانماں برباد شاعر جس نے عمر رائگاں کا بڑا حصّہ لکھنؤ کے بازارِ حسن میں گزارا، کسی درد آشناء کے ساتھ بیٹھا ماضی کی یادیں کریدتا ہو۔

مرزا محمد ہادی رسوا کا تعلق لکھنؤ کے ایک علمی گھرانے سے تھا۔ سنِ تاریخ 1858ء کا ہے۔ اردو کے علاوہ فارسی عربی اور انگریزی میں ملکہ تھا۔ علمِ نفسیات اور منطق میں ان کی مہارت ناول میں جا بجا چھلکتی ہے۔ عمر کا کچھ حصّہ سرکاری نوکری میں ، کچھ صحافت میں اور کچھ درس تدریس میں گزارا۔ اردو شارٹ ہینڈ اور ٹائپنگ کیبورڈ کی اختراع بھی ان سے موسوم کی جاتی ہے۔

“رنڈی” کیا ہوتی تھی؟ اس کا “بیج” کہاں سے پھوٹتا تھا؟ کیا واقعی وہ کسی ہرے بھرے باغ سے چرائی گئی ننھی منی کونپل ہوتی تھی جسے جڑوں سمیت بے دردی سے اکھاڑ بازارِ حسن کی زرخیز زمین میں لگایا جاتا تھا؟ بہار آنے پہ جسے امراء و نوابوں کی محفل کا خوش رنگ پھول بنایا جاتا تھا؟ اس کے احساس و جزبات کیا ہوتے تھے؟ غرض کہ ان گنت سوالات جو ایک بے لاگ گفتگو کی شکل میں امراؤ جان سے پوچھے گئے، ان کے سیر حاصل جوابات کو مرزا رسوا نے ناول کی صورت قلمبند کیا ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ مرزا صاحب کی نا  صرف امراؤ جان سے پرانی شناسائی معلوم ہوتی ہے بلکہ اس بازار کے درودیوار اور ایک ایک کردار سے بھی واقف معلوم ہوتے ہیں۔ اس چیز نے کہانی کو ایک بے تکلف گفتگو میں بدل دیا ہے۔ یوں معلوم ہوتا ہے گویا ایک “شعبے” کے دو تجربہ کار ، پیشہ ورانہ گفتگو کرتے ہوں۔ ورق ورق جس میں تجسس ہے، تحیّر ہے، فسانے جیسی حقیقت اور حقیقت جیسا فسانہ ہے۔
بچپن میں کہانیاں سنتے ہوئے ہم ایک اکھان سنا کرتے تھے کہ:
ستاں بھراواں دی
میں اک سون بائی
گھڑا بھریندیاں
راشکاں چائی
(سات بھائیوں کی میں ایک راج دلاری … گھڑا بھرتے ہوئے جسے دیو اٹھا کر لے گئے)

ناول کا مرکزی کردار “امیرن” ہے۔ فیض آباد کے ایک سکیورٹی گارڈ کی بدنصیب بیٹی۔ نو سال کی عمر میں دشمنی کی پاداش میں جو گھر کے سامنے سے اٹھا لی جاتی ہے۔ بیل گاڑی پہ ایک طویل سفر کے بعد دلاور نامی بدمعاش اسے لکھنؤ کے بازارِ حسن میں نیلام کر دیتا ہے۔

کوٹھے پہ اسے “امراؤ جان” کا نام عطا ہوتا ہے۔ ایک نئی دنیا، ایک نیا جہان اسے درپیش ہے جہاں نہ ماں کی جھڑکیاں نہ باپ کا خوف۔ ہر طرف محبّت ہی محبّت۔ شفقت ہی شفقت۔ پر آسائش گھر ، اعلی تعلیم، مہنگا لباس سب کچھ دستیاب،روپیہ پیسہ عام، روشن مستقبل۔
سات سالہ ایجوکیشن اور عملی تربیّت کے بعد اسے طوائف بننا ہے۔ امراؤ شعر و شاعری سے شغف رکھتی ہے اور “ادا” تخلص کرتی ہے۔
کس کو سنائیں حالِ دلِ زار اے ادا
آوارگی میں ہم نے زمانے کی سیر کی

لکھنؤ کی طوائف نگری جس کے بارے میں کہیں پڑھا ہے کہ شرفا اپنے نوعمر لڑکوں کو نشست و برخواست سیکھنے وہاں بھیجا کرتے تھے، کے اصول و ضوابط کیا تھے؟ رسم رواج کیا تھے؟ آداب و تسلیمات کیسی تھی؟ امراؤ جان تاریخ کے اس گمنام دریچے سے پردہ اٹھاتی ہے۔

طوائف کے موضوع پہ یوں تو کئی ناول لکھے جا چکے مگر یہ ان سب سے الگ ہے۔ یہ محض رنڈی رونا نہیں ، ایک تہذیب ایک تمدّن کا قصّہ ہے۔ لکھنؤ کے نواب جن کی ظاہری چمک دمک اور چال ڈھال قابلِ رشک تھی مگر روبہ زوال تھی۔ عیش و نشاط میں ڈوبی جن کی تہذیب تباہی کے دہانے پہ کھڑی تھی۔
“امراؤ جان ادا” اس بازار کی کتھا ہے جس کی رنگین شاموں کے عوض نوابین و امراء انگریز کی باج گزاری پہ مجبور تھے۔ سرکار کی اطاعت پہ جنہیں گاؤں کے گاؤں عنایت ہوتے اور وہ رنڈیوں پہ وار دیتے۔ یہ ان مال زادیوں کا قصّہ ہے جن کی دلکش اداؤں پہ ریاستیں قربان کر دی گئیں مگر وہ کسی کی نہ ہو سکیں۔ ان تماش بینوں کا فسانہِ عجب ہے جو کسی رنڈی کی زلفِ گرہ گیر سے بندھے اور اپنا گھر بار تیاگ بازارِ حسن کے ہو رہے۔ ان میں سے کوئی کاسہ اٹھا رنڈی کے در کا بھکاری بن گیا، کوئی دلال ہوا تو کوئی بڑھاپے میں مولوی بن کر کوٹھے والیوں کو بوستان پڑھانے بیٹھ گیا۔

یہ ان زاہدانِ پارسا کا قصّہ ہے جن کی دستاریں بیسواؤں کی زلفِ خمدار سے ایسی الجھیں کہ نہ دین کے رہے نہ دنیا کے۔ ان نوابوں کا فسانہ ہے، جائیداد قرق ہوتے ہی جو کوٹھوں سے دھتکار دیے گئے۔ ان کسبیوں کی کہانی ہے، محرّم کا چاند نظر آتے ہی جو سیاہ ماتمی لباس اوڑھ لیتی تھیں۔

کیا یہ ممکن ہے کہ ایک دوشیزہ پری جمال،شاعری کی دلدادہ، سوزوبیاں میں ماہر، رقص میں یکتا کسی ساٹھ سالہ نواب پہ عاشق ہو جائے؟ کھانا پینا گانا بجانا چھوڑ  کر بیٹھ جائے؟ اس کی جدائی میں رو رو کے خود کو ہلکان کر لے؟ سنکھیا کھانے کی آرزو کرے یا کنویں میں کودنے پہ تیار ہو جائے؟

بازارِ حسن میں یہ سب ہوتا تھا۔ ایک رنڈی بیّک وقت دس دس عاشقوں کے ساتھ یہ ناٹک کرتی اور ہر عاشق یہ سمجھتا تھا کہ وہ فقط اسی کی محبوبہ ہے اور اوروں سے ناٹک کرتی ہے۔ ہاں ایسا کبھی نہ ہُوا کہ کسی نواب نے رنڈی کا گھونگٹ اٹھایا اور اندر سے کوئی عبدالغفور نکلا۔ صاف سچ کا زمانہ تھا۔

محبت اک عجب بہار کا موسمِ بے ایک نہ ایک دن ہر مرد و زن پہ یہ بہار آتی ہے۔ تب ہجر وصال کے معنی معلوم ہوتے ہیں۔ لمحہ بہ لمحہ ایک سرشاری، بے خودی کی کیفیت رہتی ہے۔ کبھی وصل کی امید، کبھی ہجر کا میٹھا میٹھا درد تو کبھی بدنامی کا خوف۔

لیکن مہینہ ، چھ مہینے، سال یا کچھ اوپر یہ موسم بہرحال گزر جاتا ہے۔ وصلِ معشوق ہو گیا تو شادی ہو گئی۔ زندگی ایک لگی بندھی ڈگر پہ چل پڑی۔ کچھ دن شجرِ سایہ دار میّسر آیا پھر بہار کے پھول پھل بن گئے۔ پھلوں کے بوجھ سے شاخیں بوجھل ہونے لگیں۔ میاں بیوی گاڑی کے دو پہیے نہ رہے بلکہ گاڑی کے آگے جُتے دو بیل ہو گئے۔

اگر معشوق نہ مل پایا تو کچھ دن ہجر کی خزاں چھائی رہی پھر کسی اور سے محبّت ہو گئی یا زندگی ہجر کے تپتے صحرا میں گزار دی۔ بس یہی پیار کی بہار تھی۔ آئی اور گزر گئی۔

دائمی بہار کے متلاشی، جیب میں مال لیے بازارِ حسن کا رخ کرتے اور مصنوعی محبت خرید لاتے تھے۔ یہ بیوی کا نعم البدل تو نہ تھی البتہ جزوقتی طور پہ اچھی معلوم ہوتی تھی۔ طوائف ہمہ وقت سولہ سنگھار کیے تیار اور بیوی بے زار۔ طوائف پڑھی لکھّی اور بیوی گنوار۔ وہ ادب آداب نشست و برخواست رکھ رکھاؤ سے واقف اور بیوی ہر وقت کاٹ کھانے کو تیار۔

مُجرا ، گیت ، شاعری اور تخلیہ سب کے اپنے اپنے نرخ تھے ہاں کچھ اصول و ضوابط ضرور تھے۔ اگر کسی طوائف کو نواب صاحب کی “نوکری” میّسر ہو جاتی تو وہ ان کےلیے مخصوص کر دی جاتی۔ جب تک تنخواہ چلتی سیج سجی رہتی۔

جو حضرات سستے پیکج کے متلاشی ہوتے وہ مجرا دیکھ کے سکّے پھینک آتے، شاعری سن کر واہ واہ کر آتے یا گیت سنگیت سن کر کوئی تحفہ تھما آتے۔ یہاں ہر طرح کا پیکج میسر تھا۔ اس دور میں کوٹھا انٹرٹینمنٹ کا واحد ذریعہ تھا۔ امراء شادی، ختنہ، دودھ بھرائی وغیرہ میں مجرا ضرور منگواتے تھے۔

طوائف کی کیا شان ہوتی تھی ذرا نمونہ دیکھیے:
“سرِ شام سے دو کنول روشن ہو جاتے ہیں۔ دو دو لونڈیاں، دو دو خدمت گار ہاتھ باندھے کھڑے ہیں۔ خوبصورت نوجوان رئیس ہر وقت دل بہلانے کو حاضر۔
یہ اٹھتی ہیں تو لوگ بسم اللہ  کہتے ہیں۔ چلتی ہیں تو آنکھیں بچھائے دیتے ہیں۔ یہ ہیں کہ کسی کی پرواہ ہی نہیں کرتیں۔ جو ہے انہی کے حکم کا تابع ہے۔ بن مانگے لوگ کلیجہ نکال نکال کے دیے جاتے ہیں۔ کوئی دل ہتھیلی پہ رکھے ہوئے ہے، کوئی جان قربان کرتا ہے۔ غرور ایسا کہ ہفت اقلیم کی سلطنت ان کی ٹھوکر پہ ہے۔ ناز وہ جو کسی سے اٹھایا نہ جائے۔ مگر اٹھانے والے اٹھاتے ہیں۔ انداز وہ جو مار ہی ڈالے مگر مرنے والے مر ہی جاتے ہیں۔

ادھر اسے رلا دیا اُدھر اسے ہنسا دیا۔ کسی کے کلیجے مں چٹکی لے لی کسی کا دل تلوؤں میں مسل ڈالا۔ بات بات میں روٹھی جاتی ہیں ۔۔ لوگ منا رہے ہیں۔ کوئی ہاتھ جوڑ رہا ہے کوئی منت کر رہا ہے۔ قول کیا اور مکر گئیں۔ قسم کھائی اور بھول گئیں۔ محفل بھر میں سب کی نگاہیں ان کی طرف ہیں اور یہ نظر اٹھا کے بھی نہیں دیکھتیں۔ جن پہ ان کی نگاہ پڑتی ہے اس پر ہزاروں نگاہیں پڑتی ہیں اور لطف یہ کہ دل میں کچھ بھی نہیں۔ وہ بھی ہیچ ہے، یہ بھی ہیچ ہے۔ فقط بناوٹ”

ہم نے فلپ میڈیو ٹیلر کی “میر علی ٹھگ کے اعترافات” بھی پڑھی، لیکن جو انکشافات امراؤ جان نے کیے، ان پہ ہزار ٹھگوں کی ٹھگی قربان۔ میر علی ٹھگ شکار کے گلے میں رومال ڈال کر ایک ہی جھٹکے میں کام تمام کرتا تھا مگر ایک رنڈی اپنے صید کو کس طرح تڑپا تڑپا کے مارتی تھی، امراؤ جان ادا اس کا نقشہ خوب کھینچتی ہیں۔

ناول کا پلاٹ اگرچہ ضرورت سے زیادہ پھیلا ہوا ہے مگر قصّہ در قصّہ تجسس کی گوند سے جڑا ہے۔ مرکزی کہانی مسلسل چلتی ہے اور الحاقی قصّے ریشمی تاروں کی طرح یکے بعد دیگرے کہیں چھپتے کہیں ظاہر ہوتے ہیں۔ یہی وصف قاری کو کتاب سے جوڑے رکھتا ہے۔

منظرنگاری کے میدان میں ایک مدت سے ہم غلام عباس کے قائل رہے ہیں مگر مرزا رسوا نے یہ وہم بھی دور کر دیا ہے۔ پہلی بار ایسی جزیات نگاری پڑھنے کو ملی گویا آنکھوں سے منظر دیکھ رہے ہوں بلکہ محسوس بھی کر رہے ہوں۔

نمونہ ملاحظہ ہو:
“ایک طرف اس کوٹھڑی میں چُولھا بنا ہوا تھا۔ اس کے پاس دو گھڑے رکھّے ہوئے تھے۔ یہیں دو بدقلعی سی پتیلیاں، لگن، توّا، رکابیاں، پیالے ادھر ادھر پڑے رہتے تھے۔ ایک کونے میں آٹے کی مٹکی رکھّی تھی۔ اس کے اوپر دو تین دالیں، نمک، مصالحہ ہانڈیوں میں۔ اسی کے پاس جلانے کی لکڑی، سوختے، مصالحہ پیسنے کی سِل، بٹّا۔ خلاصہ یہ کہ تمام کرکری خانہ یہیں تھا۔ چولھے کے اوپر دیوار میں دو کِیلیں لگی تھیں۔ کھانا پکاتے وقت اس پہ چراغ رکھ دیا جاتا تھا۔ چراغ میں پتلی سوت کی بتّی پڑی ہے۔ مُوا اندھا دھند چل رہا ہے۔ لاکھ اکساؤ، لو اونچی نہیں ہوتی۔ اس کوٹھڑی کی آرائش میں دو چھِینکے بھی تھے۔ ان میں سے ایک میں پیاز رہتی تھی اور دوسرے میں سالن، دال کی پتیلی، چپاتیاں، مولوی صاحب کے واسطے ڈھانک کے رکھ دی جاتی تھیں”۔

کردارنگاری کے لحاظ سے بھی ناول ہذہ کو بہترین نمونہ شمار کیا جا سکتا ہے۔ ہر نئے کردار کے تعارف میں اس کی عمر، ناک نقشہ، پہناوا، ہار سنگھار تو ہے ہی، لوازمات کا نقشہ بھی بخوبی پیش کیا ہے:
بوزڑھی نائکہ کا کردار دیکھو کیسے تراشا ہے:

“خانم صاحب کو آپ نے دیکھا ہو گا۔ اس زمانے میں ان کا سن 50 برس کے تھا۔ کیا شان دار بڑھیا تھی۔ رنگ تو سانولا تھا مگر ایسی بھاری بھر کم جامہ زیب عورت دیکھی نہ سنی۔ بالوں کے آگے کی لٹیں بالکل سفید تھیں۔ مگر ان کے چہرے پہ بھلی معلوم ہوتی تھیں۔ ململ کا باریک دوپٹّہ ایسا باریک چنا ہوا کہ شاید دباید۔ اودے مشروع کا پائے جامہ، بڑے بڑے پائنچے۔ ہاتھوں میں موٹے موٹے سونے کے کڑے کلائیوں میں پھنسے ہوئے۔ کانوں میں سادی دو دوانتیاں لاکھ لاکھ بناؤ دیتی تھیں۔ خانم پلنگڑی سے لگی ہوئی قالین پہ بیٹھی ہیں۔ کنول روشن ہے۔ بڑا سا نقشی پان دان آگے کھلا ہوا رکھا ہے۔ پیچوان پی رہی ہیں۔ سامنے ایک سانولی سی لڑکی بسم اللہ جان ناچ رہی ہے۔”

ناول میں افسانہ نہ ہونے کے برابر ہے اور اس کی جگہ فلسفے نے لی ہے۔ مرزا رسوا اس فن میں خوب طاق ہیں۔ یہ تبدیلی حزنیہ مناظر میں یاسیت کی بجائے حقیقت پسندی پیدا کرتی ہے۔
“امراؤ جان ادا” پہ تین فلمیں بن چکیں۔ ایک پاکستانی، دو انڈین۔ ایک سلسلے وار ڈرامہ “جیو” پر بھی چلا لیکن سچّی بات کہ کوئی بھی فلم یا ڈرامہ ناول کا حق ادا نہیں کر سکا۔ اس کہانی کو فلمانا ممکن بھی نہیں۔ کردار نگاری، منظر نگاری، مکالموں اور تخیّل میں مرزا رسوا ناول کو جس مقام پہ لے آئے ہیں اس تک پہنچنا فلم سازوں کے بس کی بات ہی نہیں۔
چنانچہ پردہِ سیمیں پہ ہم جس رقاصہ کو دیکھتے ہیں، وہ اس امراؤ جان کی گرد کو بھی نہیں پہنچ سکتی جس کا نقشہ مرزا ہادی رسوا نے 1899ء میں کھینچا اور ادبی دنیا میں ایک لافانی ناول کی صورت امر کر دیا۔

اگر آپ اسے ایک نشست میں نہ پڑھیں ، وقفے وقفے سے مطالعہ کریں تو نہ صرف لکھنوی رسم و رواج، نشست و برخواست، آداب و تسلیمات کی داد دیں گے بلکہ لکھنوی شیریں بیانی آپ کے لب و لہجے میں بھی در آئے گی۔

Advertisements
julia rana solicitors

امراؤ جان ادا کی اس نصیحت کے ساتھ یہ آرٹیکل سمیٹتا ہوں جو مرزا رسوا نے کتاب کے آخر میں لکھّی ہے:
” اے بے وقوف رنڈی ! کبھی اس بھلاوے میں نہ آنا کہ کوئی تجھ کو سچّے دل سے چاہے گا۔ تیرا آشناء جو ہر وقت تجھ پہ جان دیتا ہے، چار دن بعد چلتا پھرتا نظر آئے گا۔ وہ تجھ سے ہرگز نباہ نہیں کر سکتا اور نہ توُ اس لائق ہے۔ سچّی چاہت کا مزا اسی نیک بخت کا حق ہے جو ایک کا مونہہ دیکھ کے دوسرے کا مونہہ کبھی نہیں دیکھتی۔
تجھ جیسی بازاری شفتل کو یہ نعمت خدا نہیں دے سکتا”۔

Facebook Comments

ظفر جی
ظفر جی فیس بک کے معروف بلاگر ہیں ،آپ سلسلے لکھنے میں شہرت رکھتے ہیں ۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply