پیالی میں طوفان (22) ۔ ٹاور برج/وہاراامباکر

لندن دو ہزار سال سے بندرگاہ ہے۔ اور اس کے درمیان سے دریائے ٹیمز گزر کر سمندر تک پہنچتا ہے۔ اس وجہ سے نہ صرف اس شہر میں ساحلِ سمندر ہے بلکہ دریا کے دو کنارے بھی۔ دریائے ٹیمز تیرتی چیزوں کے لئے اہم گزرگاہ ہے اور شہر کے دو حصوں کے درمیان چلتی یا لڑھکتی چیزوں کے لئے بڑی رکاوٹ ہے۔پچھلے ہزار سال میں اس پر پل بنتے اور ختم ہوتے رہے ہیں۔ 1870 کی دہائی تک اس شہر کو ایک اور پل کی ضرورت تھی۔ اور ایک مسئلہ تھا۔ ایک گھوڑا گاڑی کو اس پل پر سے کیسے گزاریں اور ساتھ ہی ساتھ دریا پر چلتے اونچے بحری جہاز کا راستہ بھی نہ رکے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اس مسئلے کا اچھوتا حل ٹاور برج تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گریویٹی کئی بار ہمیں تنگ کرتی ہے کیونکہ ہم چیزوں کو فضا میں بلند کرنا چاہتے ہیں۔ اور اس کیلئے اس کے نیچے کھینچے جانے کا مقابلہ کرنا ہے۔ اگر نہ کیا جائے تو ہر شے فرش کی طرف کا رخ کرے گی۔
مائع نیچے کی طرف بہتے ہیں لیکن ٹھوس چیزوں کے لئے ایک تصور ہمیں گریویٹی کا مقابلہ کرنے کا طریقہ دیتا ہے۔ یہ pivot کا تصور ہے اور بھاری بھرکم چیزوں کو گریویٹی کے مخالف seesaw کے ایک نصف کے طور پر اٹھایا جا سکتا ہے۔ ٹاور برج کے دونوں مینار اس کی اچھی مثال ہیں۔ اور اس کے دوسرا نصف کو بڑی ہوشیاری سے چھپا دیا جاتا ہے۔ اور
یہ دونوں مینار دریا کے ایک تہائی چوڑائی پر مصنوعی جزیروں پر بنائے گئے ہیں۔ اور لندن کے سمندر سے داخلے پر ہیں۔ ان کے اوپر سے گزرنے والی سڑک شہر کو شمالاً جنوباً ملاتی ہے۔
اس کے پیتل کے ڈائل، بڑے لیور اور مضبوط والو وکٹوریا کے عہد کی مضبوط انجینرنگ کی مثال ہیں۔ یہ پل دنیا میں خوبصورتی کی وجہ سے مشہور ہے لیکن ہم ابھی اس کے اندر اس کے فولادی جثے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دونوں میناروں کے درمیان سڑک دو میں تقسیم ہو جاتی ہے۔ ایک سال میں تقریباً ہزار مرتبہ، کوئی بحری جہاز یا کشتی یہاں پہنچتی ہے اور ٹریفک رک جاتا ہے۔ سڑک کے دونوں نصف اوپر کی طرف جھول کر اٹھتے ہیں۔ اس pivot کی دوسری طرف، مینار کے نیچے کے تاریک کمرے میں، اس کا دوسرا نصف چھپا ہے۔ یہاں پر 460 ٹن وزنی سیسے اور لوہے کا سٹرکچر ہے۔ اس میں صرف تھوڑا سا اضافہ یا کمی کر دی جاتی ہے اور یہ چرچراتا ہوا اپنی حالت تبدیل کر لیتا ہے۔
کلیدی چیز توازن ہے۔ کوئی بھی شے اس پل کو اوپر نہیں اٹھاتی۔ اس کی مشینری صرف ایک طرف تھوڑا سا جھکا دیتی ہے۔ اس کے درمیان کے pivot point کی دونوں اطراف تقریباً ایک ہی جتنا وزن ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کو اٹھا لینے کیلئے بس تھوڑی سی توانائی درکار ہے۔ صرف اتنی جو کہ اس کی bearings کی فرکشن پر غالب آ سکے۔ اور اس طرح گریویٹی کا مسئلہ حل ہو جاتا ہے کیونکہ ایک درمیانی نکتے کے گرد ایک سمت میں نیچے کھینچنے کی قوت دوسری سمت کے برابر ہے۔ ہم گریویٹی کو ہرا نہیں سکتے لیکن اس کو خود اسی کے خلاف استعمال کر لیتے ہیں۔ اور جیسا کہ انیسویں صدی کے انجینیرز کو احساس ہوا تھا کہ آپ seesaw کو جتنا بھی بڑا بنا سکتے ہیں۔
وکٹورین عہد کے ان انجینئیرز کے پاس باقاعدہ بجلی نہیں تھی، کمپیوٹر سے کنٹرول نہیں تھے اور نئے میٹریل، جیسا کہ پلاسٹک یا ری انفورسڈ کنکریٹ نہیں تھی۔ لیکن سادہ فزیکل اصولوں کی مہارت تھی اور اس پل کی سادگی اور پائیداری متاثر کن ہے۔ اور چونکہ یہ اس قدر سادہ تھی، اس لئے 135 سال بعد بھی یہ کام کر رہا ہے اور تقریباً بغیر کسی تبدیلی کے۔ اس کا قدیم قلعے کی طرح لگنے والا آرکیٹکچر باہر سے اس دیوہیکل seesaw کے جینئیس کو چھپا لیتا ہے۔
(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply