سلائی مشین کی آواز/وقاص رشید

میں پولی ٹیکنیکل کالج سرگودہا میں پڑھتا تھا۔ تین سالہ ڈپلومہ کے لیے شاہینوں کے شہر میں قیام کا عہد ایک علیحدہ سے کتاب میں مربوط کیا جانا چاہیے مگر چاہیے تو بہت کچھ۔۔۔
ہر وقت یہ ہی احساس دل میں جاگزیں رہتا کہ گھر سے پیسے کم سے کم لینے ہیں تاکہ معمار ہاتھ مزید تنگ نہ ہوں۔
یہ میرا تیسرا سال تھا اور بزرگوار ریلوے سے ریٹائرڈ ہونے کے قریب تھے۔ کالج یونیفارم کی گرے پینٹ کا حال پاکستانی معیشت والا ہو چکا تھا۔ ایسے میں گھر سے 500 روپیہ مانگنا احساس کے چہرے پر ایک تازیانہ تھا۔ میں گھر آیا اور پوری پینٹ کو ایسے ادھیڑ دیا جیسے کئی بار تقدیر انسان کی تدبیر کو۔
پینٹ اندر سے نئی تھی۔ جیسے انسان اندر سے نیا اور باہر سے حالات کی دھوپ چھاؤں میں پرانا ہو جاتا ہے۔ میں نے پینٹ کا اندرونی پرت باہر اور باہر والے حصے کو اندر کر دیا۔ میری خوشی کی تب انتہا نہ رہی جب یہ پینٹ نئی بھی ہو گئی اور میں نے اپنے کالج کا آخری سال بھی اس سے گزار لیا۔

اسکے بعد یہ سفر شروع ہو گیا۔ میں نے کپڑا خرید کر پینٹیں بنائیں ، شرٹیں بنائیں ، کرتا شلوار تیار کیے۔سردیوں میں ہڈیز بنائیں ،جیکٹس بنائیں۔

مجبوری کے نقطہِ آغاز سے شروع ہونے والا سفر ، شوق و ذوق کے سنگِ میل طے کرتا مشغلے کے موڑ تلک آن پہنچا میں اسے پیشے کی منزل تک پہنچانا چاہتا ہوں مگر پھر وہی بات۔۔۔۔چاہتا تو میں بہت کچھ ہوں۔

اس مشغلے پر کچھ مواقع ایسے آئے کہ جو یادگار ہیں۔ یاد ہے ناں یادیں ہمیشہ خوشگوار نہیں ہوتیں۔

ابا کو صبح کی سیر کرنے کا شروع ہی سے شوق تھا۔ وہ اسکے لیے ٹراؤزر اور ٹی شرٹس پہنتے تھے۔ ڈیوٹی پر جاتے ہوئے شلوار قمیض اور واپس آکر تہبند باندھتے تھے۔ مگر آخری عمر میں انہیں ٹراؤزر اور ٹی شرٹ عام طور پر پہننے کا جی کیا تو مجھے انہوں نےجینز کا ٹراؤزر بنانے کا کہا ، میں سرگودھا سے کپڑا لایا اور دو ٹی شرٹس بھی۔ ٹراؤزر بنایا اور وہ منظر یادگار ہے جب انہوں نے اسے پہن کر بڑی سادگی سے کہا ” تُو تو پکا درزی بن گیا” اور ایک ماتھے پر بوسہ۔ او خدایا۔ پہلے انکے اظہاریے کے راستے میں شاید انکی سنجیدگی حائل تھی۔ وہ گئی تو دروازہ کھٹکا۔ باہر دیکھا تو عزرائیل تھے۔ میں فرشتہِ اجل سے کہنا چاہتا تھا کہ تھوڑی مہلت کہ حیات کے راستے کے لیے محبت کا زادِ راہ سمیٹ لوں۔ نیا نیا ازالے کے قابل ہوا ہُوں، کچھ پسینہ خشک کر لوں انکا، کچھ پیروں کے زخموں پر مرہم رکھ سکوں، مگر اس نے کہا ،بس۔ شہنشاہ نے کہا ہے کہ زندگی بھر کے لیے ازالے کی جبیں پر یہ بوسہ حسرت کا محراب ہے۔ خداحافظ!

ممتا کا سایہ رکھنے والی بھابھی جان نے کہا مجھے قمیض کاٹنا سکھا دے پتری۔ جو ڈیزائین انہوں نے بتایا اسکے مطابق کپڑا فرش پر بچھا کر چاک سے نشان لگایا اور قمیض کاٹنا سکھا دی۔ بڑی خوش تھیں۔دعائیں دیتی اٹھ کے چلی گئیں۔ میں نے پیچھے دیکھا وہ واقعی چلی گئیں۔ اسی مقام پر اسی جگہ چارپائی رکھی تھی۔ کفن کے لیے کسی نے کہا بس چارپائی کی پیمائش لے آؤ۔ کانپتے ہاتھوں میں پکڑا فیتہ یوں لگا کہ کوئی ناگ ہے جو ڈس رہا ہے۔ رگوں میں یاد کا اک زہر اتار رہا ہے۔ مجھے لگا سانس بند ہو رہی ہے ۔ میں باہر کو بھاگا۔ تب سے کچھ یادوں  میں منہ چھپاتا آنسو بہاتا بھاگ رہا ہوں۔

ہمارے گھر ایک خاتون کام پر آتی تھی۔ ایک دن اس نے میری بیگم سے کچھ مردانہ کپڑے مانگے تو اس نے مجھ سے پوچھے بِنا ہی کچھ پرانے کپڑے اسکے حوالے کر دیے ،اس میں ، میری ایک وی نیک جرسی بھی تھی جسے میں نے بنا کر ابھی اتنا نہیں پہنا تھا۔ کچھ دن بعد وہ جرسی پہنے  میں نے فیکٹری میں ایک خاکزاد کو دیکھا تو حیرت ہوئی۔ گھر آکر پوچھا تو پتا چلا کہ ادھیڑ عمر نوکرانی کا اپنا کوئی بیٹا نہیں اور اس نے اس خاکزاد کو منہ بولا بیٹا بنا رکھا ہے۔ اسکے بعد خاکزاد کو اپنے ہاتھ کی سلی جرسی پہنے دیکھ کر خاص طمانیت ہوتی۔

چار دہائیوں سے زائد کی زندگی جتنی بکھری پڑی ہے ۔ ایک لفظ ایک نام میں سمیٹو تو فاطمہ بنتا ہے۔ زندگی میں اس سے بڑی خوشی کوئی نہیں کہ جب وہ میرے ہاتھ کا سلا ہوا فراک یا سوٹ پہن کر اسے پہلے شیشے میں دیکھتی ہے اور پھر میری جانب آنکھیں پھیلائے ہونٹوں پر مسکان سجائے بھاگتے ہوئے آکر اظہارِ تشکر کرتی ہے تو دل اس راز کو پاتا ہوا محسوس کرتا ہوں  کہ اس دن عزرائیل نے انکار کیوں کیا تھا۔ خدا نے ازالے کی جو راہ ہمیں دکھلائی اس میں حسرتوں کی وراثت کو اپنی نسل سے آگے نہیں جانے دینا۔

میرے لیے وہ لمحہ روح تک مسیحائی کی تاثیر اُتار دیتا ہے جب فاطمہ کے ساتھ اسکی روحانی جڑواں ریحاب بنتِ وقار کے لیے کوئی فراک تیار کرتا ہوں تو دونوں مسکراتی اور اٹھلاتی ہوئی میری طرف آتی ہیں اور کہتی ہیں Thank you Dada we love you۔۔یہ جملہ حیات کا حاصل ہے۔

ہمارے گھر کے دروازے پر ایک عورت مانگنے کے لیے آتی تھی ۔ اسکے ساتھ اسکی ایک بیٹی ہوتی تھی۔ مانگنے والی میری بیگم سے اس کے لیے کپڑے مانگتی۔ ایک دن اس نے فاطمہ کی پچھلی عید کی فراک جو نسبتاً نئی تھی وہ اسے دے دی ۔ میں کھڑکی سے یہ منظر دیکھ رہا تھا اس بچی نے جب فراک دیکھی تو اسکی آنکھیں کھل اٹھیں۔ اس نے لپک کر فراک میری بیگم کے ہاتھ سے اچک لیا اور اپنے ساتھ لگا کر کھلکھلانے لگی۔ مانگے کے کپڑوں سے اس بچی کے بھوک سے نچڑے چہرے پر جگمگاتی کرنیں اس لمحے مجھے اس جہان کے معاشی نظامِ شمسی کو روشنی ادھار دیتی محسوس ہوئیں۔

اور پھر کل اس کہانی کا اختتام ہو گیا۔ میں بیٹھک میں اسی کھڑکی کے پاس بیٹھا کچھ لکھ رہا تھا کہ گھنٹی بجی۔ مجھے اسی مانگنے والی کی آواز آئی ۔ اس بار میری بیگم نے اس بچی کے لیے ایک جوڑے کے ساتھ جوتا بھی رکھا ہوا تھا اور فاطمہ کا ایک پرس بھی۔ وہ بھی یہ منظر دیکھنا چاہتی تھی۔ میں کھڑکی سے اس بار ویڈیو بنانا چاہتا تھا۔ مگر مجھے ایک سسکاری کی آواز آئی۔ پھر میری بیگم کی آواز آئی ۔۔اچھا اچھا رو مت ۔۔میں تمہارے لیے پانی لاتی ہوں۔ کچھ دیر بعد وہ میرے پاس آئی اور نمناک آنکھوں سے اس نے بتایا کہ وہ بچی مر گئی ہے۔ اسے بخار ہُوا ،اور جانبر نہ ہو سکی۔ اس نے بتایا کہ مانگنے والی کہہ رہی تھی کہ میری بچی آپکے دروازے پہ بڑے شوق سے آتی تھی کہتی تھی اماں اوتھے لے ونج جتھوں گوٹے آلے کپڑے ڈھیندے ہن (امان وہاں لے چلو جہاں سے گوٹے لیس والے کپڑے ملتے ہیں)

Advertisements
julia rana solicitors london

ہاتھ میں پکڑا موبائل میرے ہاتھ سے چھوٹا، اندر چھناکے سے کچھ ٹوٹا۔ دل یوں تیزی سے دھڑکا گویا سلائی مشین کی آواز ہو۔۔ مگر اب کے کچھ سِل نہیں رہا تھا کچھ بخیے ادھڑ رہے تھے زندگی کے تن پر اعتبار کی پوشاک کے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply