یوکرین جنگ کا مستقبل/علی واحدی

یوکرین میں روس کی جنگ ایک ایسے موڑ پر پہنچ گئی ہے، جسے امریکی صدر جو بائیڈن نے ایک نازک مرحلہ قرار دیا ہے۔ یوکرین کے لیے 3 ارب ڈالر کی امریکی فوجی امداد مختص کی گئی تھی، جبکہ پینٹاگون اپنے تازہ ترین جائزوں میں اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ یوکرین میں روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کے اسٹریٹجک اور جنگی اہداف میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ ایسی صورتحال میں سابق وزیر خارجہ کونڈولیزا رائس اور سابق وزیر دفاع رابرٹ گیٹس نے واشنگٹن پوسٹ میں لکھے گئے ایک مضمون میں اعتراف کیا کہ وقت پیوٹن کے حق میں اور یوکرین کے نقصان میں گزر رہا ہے اور میدان روس کے کنٹرول میں ہے۔ کونڈولیزا رائس، جو 2005ء سے 2009ء تک امریکی وزیر خارجہ رہیں اور رابرٹ گیٹس، جو 2006ء سے 2011ء تک امریکی وزیر دفاع رہے، انہوں نے واشنگٹن پوسٹ کے لیے ایک آرٹیکل میں لکھا ہے ’’جب بات یوکرین کی جنگ کی ہو تو، صرف ایک چیز جو اب واضح ہے، وہ یہ ہے کہ جنگ اور تباہی جاری رہے گی۔

ولادیمیر پیوٹن پورے یوکرین کو روسی کنٹرول میں واپس کرنے یا اس میں ناکامی کی صورت میں اسے مکمل طور پر تباہ کرنے کے لیے پوری طرح پرعزم ہے۔ پیوٹن کا ماننا ہے کہ اس کی تاریخی منزل اور اس کا مسیحی مشن روسی سلطنت کا دوبارہ قیام ہے اور جیسا کہ Zbigniew Brzezinski نے برسوں پہلے کہا تھا، روسی سلطنت یوکرین کے بغیر قائم نہیں رہ سکتی۔ کونڈولیزا رائس اور رابرٹ گیٹس لکھتے ہیں، ہم دونوں کئی بار پیوٹن سے مل چکے ہیں اور اس کے قائل ہیں کہ پیوٹن کو یقین ہے کہ وقت اس کے ساتھ ہے۔ وہ یوکرینیوں اور امریکہ کو تباہ کرسکتا ہے اور یوکرین کے لیے یورپی اتحاد اور حمایت بالآخر ختم اور ٹوٹ جائے گی۔ اس میں کوئی شک نہیں جنگ جاری رہنے سے روسی معیشت اور عوام کو نقصان پہنچے گا، لیکن روسیوں نے ماضی میں اس سے کہیں زیادہ بدتر حالات کو برداشت کیا ہے۔

پیوٹن کے لیے ناکامی کوئی آپشن نہیں ہے۔ وہ 4 مشرقی صوبوں کو یوکرین کے حوالے نہیں کرسکتا، جنہیں اس نے روس کا حصہ قرار دیا تھا۔ اگر وہ اس سال فوجی طور پر کامیاب نہیں ہو پاتا ہے، تو اسے مشرقی اور جنوبی یوکرین کی موجودہ پوزیشنوں پر بہرحال کنٹرول برقرار رکھنا ہوگا، تاکہ یوکرین کے بحیرہ اسود کے بقیہ ساحل پر قبضہ کرنے، پورے ڈونباس علاقے کو کنٹرول کرنے اور پھر مغرب کی طرف جانے کے لیے نئی جارحیت کے لیے مستقبل میں اس کے آپشن اس کی دسترس میں رہیں۔ کونڈولیزا رائس اور رابرٹ گیٹس کے بقول پیوٹن پرکڑی نظر رکھنے کی ضرورت ہے، وہ اپنی منزل کے حصول کے لیے صبر سے کام لیکر آگئے بڑھے گا۔ اگرچہ یوکرین نے ابھی تک روسی حملے کے جواب میں شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے، لیکن اس کی معیشت تباہی کا شکار ہے، لاکھوں لوگ نقل مکانی کرچکے ہیں، یوکرین کا بنیادی ڈھانچہ تباہ ہو رہا ہے، اس کی معدنی دولت کا بڑا حصہ، بالخصوص صنعتی اور زرعی صلاحیت تباہ ہو رہی ہیں۔

دوسری طرف میدان روس کے زیر کنٹرول ہے۔ یوکرین کی فوجی اور اقتصادی صلاحیت اب تقریباً مکمل طور پر مغرب خصوصاً امریکی امداد پر منحصر ہے۔ روسی افواج کے خلاف یوکرین کے لیے بڑی کامیابیوں کی عدم موجودگی اس بات کا باعث بنے گی کہ جنگ بندی اور مذاکرات کے لیے یوکرین پر مغربی دباؤ بڑھے گا، کیونکہ مغرب کے پاس اس کے علاوہ کوئی آپشن نہیں رہے گا۔ کونڈولیزا رائس اور رابرٹ گیٹس کے تجزیئے کے مطابق کوئی بھی مذاکراتی جنگ بندی روسی افواج کو ایک مضبوط پوزیشن میں لے آئے گی، جس میں وہ جب بھی چاہے گا، اپنا حملہ دوبارہ شروع کرسکے گا۔ کونڈولیزا رائس اور رابرٹ گیٹس لکھتے ہیں کہ “ہماری عوامی گفتگو نیز کانگریس کے اراکین اور دیگر لوگ شدت سے پوچھ رہے ہیں کہ “ہمیں اس جنگ کی پرواہ نہیں کرنی چاہیئے۔ یہ ہماری لڑائی نہیں ہے۔”

لیکن 1914ء، 1941ء اور 2001ء میں امریکہ نے سیکھا ہے کہ قانون کی حکمرانی اور بین الاقوامی نظام پر بلاجواز جارحیت اور حملوں کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، کیونکہ اس صورت حال میں ماضی میں آخر کار ہمیں اپنی سلامتی پر سمجھوتہ کرنا پڑا اور ہمیں ان تنازعوں میں گھسیٹا گیا۔ کونڈولیزا رائس اور رابرٹ گیٹس کے بقول اس بار ہماری معیشت سمیت دنیا کی معیشتین پیوٹن کے حملے کی وجہ سے افراط زر اور ترقی میں کمی کے اثرات دیکھ رہی ہیں۔ بہتر ہے کہ اسے یہیں پر روکا جائے اور اگر دیر ہوگئی تو امریکہ اور نیٹو کو مجموعی طور پر مزید مطالبات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ کونڈولیزا رائس اور رابرٹ گیٹس کہتے ہیں کہ یوکرین ہمارا ایک پرعزم پارٹنر ہے، جو جنگ کے نتائج کو برداشت کرنے کے لیے تیار ہے، تاکہ مستقبل میں ہمیں خود ایسا نہ کرنا پڑے۔ ہم بائیڈن انتظامیہ کے روس کے ساتھ براہ راست تصادم سے بچنے کے عزم سے متفق ہیں۔ تاہم، ایک جرات مند پیوٹن ہمیں یہ انتخاب نہیں دے سکتا۔

روس کے ساتھ مستقبل میں تصادم سے بچنے کا طریقہ یہ ہے کہ یوکرین کو جارح روس کو پیچھے دھکیلنے میں مدد کی جائے۔ یہ تاریخ کا سبق ہے، جو ہماری رہنمائی کرتا ہے اور ان اقدامات کی فوری ضرورت ہے، اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے۔ ادھر روسی وزارت دفاع نے اعلان کیا کہ ڈونیٹسک صوبے کے شہر کراماتورسک میں یوکرینی افواج کی عارضی چھاؤنی پر جوابی میزائل حملے میں 600 سے زائد یوکرینی فوجی مارے گئے۔ Rashatody کے مطابق، ماسکو نے ایک بیان میں اعلان کیا کہ اتوار کو ہونے والی بمباری ڈونیٹسک کے “مکیئیوکا” ضلع میں یوکرین کے مجرمانہ حملے کے جواب میں روسی فوجیوں کی طرف سے یوکرینی فوجیوں کے عارضی ٹھکانے پر ایک انتقامی کارروائی تھی۔

روس کی وزارت دفاع نے یہ بھی اعلان کیا کہ ماسکو کی طرف سے کرسمس کے موقع پر عارضی جنگ بندی کے دوران بھی یوکرین کی افواج نے روسی بستیوں اور ٹھکانوں پر گولہ باری جاری رکھی۔ ماسکو کی معلومات کے مطابق کیف کے ساتھ مذاکرات کے نتیجے میں 50 مغوی روسی فوجیوں کو رہا کر دیا گیا، جن کو موت کا خطرہ تھا۔ پیر 2 جنوری کو، روس کی وزارت دفاع نے تصدیق کی کہ کیف نے ڈونیٹسک کے علاقے میں روسی فوجی دستوں کی عارضی تعیناتی کو 6 میزائلوں سے نشانہ بنایا۔ ماسکو نے مزید کہا کہ فضائی دفاعی نظام ہیمارس کے ذریعے داغے گئے 6 امریکی ہمار میزائلوں میں سے 2 کو مار گرایا گیا اور مزید 4 میزائل لگنے کے نتیجے میں 63 روسی فوجی اہلکار مارے گئے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

بشکریہ اسلام ٹائمز

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply