خواتین کیرئیر میں آگے کیوں نہیں بڑھ پاتیں؟-ثاقب لقمان قریشی

چند روز قبل  ایک ویبسائٹ پر   اس عنوان کے ساتھ ندا مجاہد حسین صاحبہ کی ایک رپورٹ شائع ہوئی۔ اس رپورٹ میں  خواتین کے جن مسائل کی نشاندہی کی گئی ہے۔ اسی قسم کے مسائل کی نشاندہی ہر ادارے میں کام کرنے والی خواتین کرتی نظر آتی ہیں۔
یہ رپورٹ میڈیا میٹرز فار ڈیموکریسی کے فراہم کردہ ڈیٹا کی بنا پر ترتیب دی گئی۔ جو انھوں نے 103 خواتین صحافیوں سے انٹرویوز کر کے اکٹھا کیا ہے۔
79٪ خواتین کا کہنا ہے کہ انھیں نیوز رومز میں صنفی امتیاز کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔عائشہ خالد کے مطابق سامنے آنے والی وجوہات میں سرِفہرست میل ڈومینیٹڈ یعنی مردوں کی بالادستی والا ماحول، اہم بیٹ (موضوعات) کی کوریج کی اجازت نہ ملنا جیسے کہ ملکی سیاست، آئی ایس پی آر، دفتر خارجہ وغیرہ اور صرف فیشن، لائف سٹائل اور انٹرٹینمنٹ تک محدود رہنا، شامل ہیں۔اس کے علاوہ ایک بہت اہم مسئلہ جو خواتین صحافیوں کو سب سے زیادہ برداشت کرنا پڑتا ہے وہ جینڈر پے گیپ، یعنی تنخواہ مردوں کے برابر نہ ہونا ہے۔ سروے کے مطابق 32 فیصد خواتین کے خیال میں مردوں کی بالادستی والے نیوز رومز جبکہ تقریباً 23 فیصد کے خیال میں خواتین کے اعلیٰ عہدوں پر نہ ہونے کی وجہ سے ان کو تفریق کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ خواتین کو نیوز رومز میں اعلیٰ عہدوں میں سالوں بعد بھی کیوں نہیں رکھا جاتا؟ اس کی وجوہات ریسرچ کے مطابق دقیانوسی تصورات، خواتین کا بچوں کی ماں ہونا، نیوز رومز میں خواتین کی تعداد کم ہونا وغیرہ گردانا گیا۔ 32 فیصد خواتین نے دقیانوسی خیالات کو اصل مسئلہ قرار دیا۔ 47٪ خواتین نے کہا کہ انھیں اپنے ادارے کے صنفی امتیاز سے قانون کا علم ہی نہیں۔30٪ نے کہا کہ ان کے ادارے میں ایسی پالیسی ہی نہیں۔ ہراسانی کی بات آئی تو 55٪ نے ہاں اور 45٪ نے نفی میں جواب دیا۔
مجھے انڈسٹری میں کام کرتے ہوئے اٹھارہ سال سے ذیادہ وقت ہو چکا۔ اس عرصے میں، میں نے بہت سی کمپنیوں اور کاروباروں کو بنتے اور ختم ہوتے دیکھا۔ بہت سے تاجروں کو صفر سے ارب پتی بنتے دیکھا ہے۔ ایسی خواتین کو بھی جانتا ہوں جو طویل عرصے سے ایک ہی کرسی پر بیٹھی ہیں اور لڑکیوں کو بھی جانتا ہوں جنھوں نے کیرئیر ابتدائی چند سالوں میں کمپنیوں کے اہم عہدے سنبھال لیئے۔
پہلا نمبر سرکاری اداروں کا ہے جہاں ترقی ایک مخصوص وقت کے بعد ہوتی ہے۔ لوگ کام کریں نہ کریں تنخواہ مل جاتی ہے۔ دوسرا نمبر پبلک لیمیٹڈ کمپنیوں کا ہے جہاں کام کرنے والوں کی کام اور کارکردگی اہمیت رکھتے ہیں۔ تیسرا نمبر پرائیویٹ کمپنیوں کا ہے جن کی تعداد سب سے ذیادہ ہے۔ پرائیویٹ کمپنیاں اپنا کچھ بنا کر بیچتی ہیں یا مختلف برینڈز مارکیٹنگ کرتی ہیں یا پھر سروسز فراہم کرتی ہیں۔ پرائیویٹ کمپنیوں کے ذیادہ تر کام اسی نوعیت کے ہوتے ہیں۔ ان کمپنیوں نے اپنی جیسی دوسری کمپنیوں سے مقابلہ بھی کرنا، منافع بھی کمانا ہے، ملازمین کی تنخواہیں بھی نکالنی ہیں۔ پرائیویٹ کمپنی کو کام سے غرض ہوتا ہے۔ آپ اسے جتنا کما کے دیں آپکی ترقی بھی جلدی ہوگی، مراعت بھی دوسروں سے ذیادہ ملے گی۔
کام کی جگہوں پر ہمیں اپنی محنت کے پیسے ملتے ہیں۔ لوگ آگے بڑھنے کیلئے ڈگریاں اور کورسز کرتے ہیں۔ ہم میں سے جو دوست اپنے آپ کو بہتر پالش کر لیتے ہیں وہ آگے نکل جاتے ہیں۔ پیچھے رہ جانے والے لوگ یہی کہتے رہ جاتے ہیں کہ ہم سے ذیادتی ہوئی ہے۔
ہم اپنی بچیوں کو بچپن سے یہی سکھاتے ہیں کہ جو کھیل لڑکے کھیلتے ہیں وہ نہیں کھیلنا۔ آدمیوں کو دیکھتے ہی نظریں نیچی کر لینے ہیں۔ ہمارا بازو ہمارا بیٹا ہے آپ نے چلے جانا ہے۔ والدین اس طرح بچیئوں کے اعتماد کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ یہی بچیاں سکول جاتی ہیں تو پانچویں جماعت سے لڑکوں اور لڑکیوں کے سکول ہی الگ کر دیئے جاتے ہیں۔ یونیورسٹیوں تک پہنچنے والی لڑکیاں بھی لڑکوں سے دور رہنے کی کوشش کرتی ہیں۔ جن خوش نصیبوں کو نوکری مل جاتی وہ مرد حضرات سے دور ہی رہتی ہیں۔ کسی سے ہنس کر بات کی تو یا تو وہ فری ہوگیا یا پھر آس پاس بیٹھے لوگوں نے الزام لگا دیا۔
ہماری بہنوں کو نوکری کے دوران لیٹ بیٹھنا پڑ جائے تو باس یا کولیگ کہتا ہے ہم آپ کا کام کر لیں گے۔ چھٹی کے دنوں میں ضرورت پڑ جائے تو مرد حضرات دفتر آ جاتے ہیں خواتین کو آرام کا کہا جاتا ہے۔ اسی دوسرے دفتروں یا شہروں کی میٹنگز میں خواتین کو ساتھ نہیں لے جایا جاتا۔ اسی طرح دفتر سے باہر کے سینکڑوں کام، مارکیٹ سروے وغیرہ میں اکثر خواتین نہیں ہوتیں۔ پروفیشنل ذہنوں کی لڑکیاں ان کاموں کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے یہ کام کرتی ہیں اور آگے نکل جاتی ہیں۔ جبکہ ہماری جو بہنیں آسانیوں کی تلاش میں رہتی ہیں۔ وہ ساری عمر کلرکی کرتی ہیں۔ پھر کہتی ہیں کہ ہمارے ساتھ امتیازی سلوک کیا گیا ہے۔
چند ماہ میں ایک دوست کے آفس میں بیٹھا تھا۔ ایک انتہائی سانولی سے عام سے کپڑوں میں لڑکی ان سے ملنے کیلئے آئی۔ وہ لڑکی تیل کی کمپنیوں کو سروسز مہیا کرنے والی ملٹی نیشل کمپنی میں انجینئر ہے۔ کروڑوں کے ٹینڈر بناتی ہے۔ ٹینڈرز کی بڑی بڑی میٹنگ اکیلے کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ بیس پچیس روز قبل میری اسی دوست سے بات ہو رہی تھی۔ اس نے بتایا کہ کمپنی کی ریجنل ہیڈ ایک شامی خاتون ہیں جو اس لڑکی کی دوبئی ہیڈ آفس لے گئی ہیں۔ مجھے امید ہے چار پانچ سال بعد وہی لڑکی پاکستان میں کنڑی ہیڈ کے طور پر کام کر رہی ہوگی۔
فرض کریں میں ایک پرائیویٹ کمپنی چلا رہا ہوں۔ میں تو اسی ملازم کو ذیادہ پیسے اور مرعات دونگا جو مجھے ذیادہ بزنس دے گا۔ میں نے ایسی بھی کمپنیاں دیکھی ہیں آرمی کے ریٹائر میجر کے نیچے انتہائی سینئر افسران کام کر کر رہے۔ میٹرک پاس کو بڑی کمپنی کا کنٹری ہیڈ دیکھا جن کے نیچے سینکڑوں لوگ کام کرتے ہیں۔ میں ایسی بہت سی لڑکیوں کو جانتا ہوں جو پرائیویٹ کمپنیوں کی اہم پوزیشنز پر ہیں اور فیصلہ سازی کا حصہ ہیں۔
اپنی بہنوں اور بیٹیوں سے ہماری گزارش ہے کہ عملی زندگی انتہائی خود غرض ہوتی ہے۔ یہاں انہی ملازمین کو ترقی اور سہولیات ملتی ہیں جو اداروں کیلئے ذیادہ فائدہ مند ہوتے۔ میں اس رپورٹ سے اتفاق نہیں کرتا کیونکہ میں نے اپنے دو دہائی طویل کیرئیر میں جن لوگوں کو گلا کرتے دیکھا ہے۔ ان کے کام اتنی اہمیت کے حامل نہیں تھے۔
خواتین ہماری آبادی کا نصف ہیں۔ جب تک انھیں پڑھنے، لکھنے، نوکری اور اپنی زندگی کے اہم کی آزادی نہیں دی جائے گی اس وقت تک ہم ترقی نہیں کر پائیں گے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply