یہ الگ بات کہ دفنائیں گے اعزاز کے ساتھ/پروفیسر عامر زریں

سابق صدر جنرل(ر) پرویز مشرف طویل علالت کے بعد 5 فروری 2023ء کو 79 برس کی عمر میں فوت ہوگئے۔ وہ کافی عرصہ سے عرب امارات کے امریکن ہاسپٹل دبئی میں زیر علاج تھے۔اُن کی وفات پر مُلک میں ملی جلی کیفیات پائی جارہی ہیں۔ پرویز مشرف پاکستان کے دسویں صدر تھے جو کہ نواز حکومت کا تختہ اُلٹنے کے بعد برسر اقتدار آئے۔سابق صدر  ایک متنازع  شخصیت رہے۔اُن کے بعد کچھ حلقوں میں اُن کے دورِ اقتدار (2001-2008)پر تنقید کی جارہی ہے تو کچھ حلقوں میں دورانِ حکومت اُن کے قومی اور عسکری اقدامات کی تعریف کی جارہی ہے۔ باشعور انسانیت کا تقاضا  ہے کہ اُن کے لیے دُعائے مغفرت کی جائے، اور ذاتِ باری تعالیٰ اُن کے اہلِ خانہ کو الٰہی صبر واطمینان عطا فرمائے۔آمین

صدر پرویز مشرف 1943 ء میں دہلی میں پیدا ہوئے اور قیامِ پاکستان کے وقت اپنے والدین کے ساتھ 1947 ء میں کراچی آکر آباد ہوئے۔ ابتدائی تعلیم مشہور مشنری اسکول، سینٹ پیٹرک ہائی اسکول، کراچی سے حاصل کی۔ بعد ازاں فارمین کرسچن کالج (F.C. College) لاہور میں اپنے تعلیمی سلسلے کو جاری رکھا۔ اپنی عسکری تعلیم و تربیت کے لیے وہ پاکستان ملٹری اکیڈمی، کمانڈ اینڈ اسٹاف کالج، کوئٹہ، نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی، اسلام آباد اور رائل کالج آف ڈیفنس اسٹڈیز، لندن، یوکے میں زیرِ تعلیم رہے۔ پاک فوج کے اعلیٰ فوجی اعزازات سے انہیں نوازا گیا ، جن میں نشانِ امتیاز، ہلالِ امتیاز اور تمغہء بسالت شامل ہیں۔ اُن کی تصانیف میں: In the Line of Fire: A Memoir اور اگنی پتھ میری آتما کتھا شامل ہیں۔

مشرف نے افغان خانہ جنگی میں فعال کردار ادا کیا، طالبان کے لیے پاکستانی حمایت کی حوصلہ افزائی کی۔ پرویز مشرف 1998ء میں مسلح افواج کے سربراہ بنے جب انہیں وزیر اعظم نواز شریف نے فور سٹار جنرل کے عہدے پر ترقی دی۔ انہوں نے کارگل کی پاک بھارت جنگ (1999ء) میں پاک فوج کی راہ نمائی کی۔

مشرف کے1999 ء میں حکومت پر قابض ہوجانے کے بعدبہت سی سیاسی پارٹیوں اور بیرونِ مُلک پاکستانیوں نے سُکھ کا سانس لیا۔ کیونکہ مشرف کے آنے سے مُلک میں بد عنوانی کے ایک دور کے خاتمہ پر عوام نے صد شکر ادا کیا۔ایسے عوامی جذبات اس لئے دیکھنے میں آئے کیونکہ بے نظیر اور نواز حکومت کے خاتمے کے بعد لو گوں کو توقع تھی کہ مُلک ترقی کی راہ پر گامز ن ہو سکے گا۔ گیلپ سروے کے مطابق 70% پاکستانیوں نے مشرف کے برسرِ اقتدارآنے کو مُلک کے لئے خوش آئند قراردیا، 20% نے اسے اچھا نہیں سمجھا جبکہ 10% نے اپنی رائے نہیں دی۔اگرچہ عالمی قوتیں مشرف کے حکومت سنبھالنے پر ناخوش تھیں۔1999 ء میں مشرف کے بر سرِ اقتدار آجانے کے بعد عالمی طاقتوں خاص کر امریکہ سے تعلقات میں سرد مہری رہی۔ لیکن پھر آہستہ آہستہ جیسے ہی امریکہ سے تعلقات میں بہتری آئی تو ملکی معاملات میں بھی بہتری دیکھی گئی۔ کہا جاتا تھا کہ امریکی صدر بش ایک وقت تھا کہ مشرف کا نام بھی صحیح طور پر نہ لے سکتے تھے۔

2001 ء میں 9/11 کے واقعہ کے بعد عالمی حالات یکسر بدل گئے۔ مشرف کے لیے یہ واقعہ بہت خوش نصیب ثابت ہوا۔ صدر بش، رچرڈ آرمٹیج اور جنرل کولن پاول کے ساتھ مشرف کے تعلقات میں نزدیکیاں اور قربتیں بڑھ گئیں۔اور دونوں ملکوں کے سربراہان کے مابین براہ ِ راست رابطے اُستوار ہوگئے ، مشرف کا امریکہ آنا جانا شروع ہوگیا۔ اس دور کا یہ فائدہ ضرور ہوگیا کہ پاکستان کے لئے رُکی ہوئی امداد کا سلسلہ بھی شروع ہوگیا۔ کیونکہ مشرف کے برسرِ اقتدار آنے سے قبل مُلکی معاشی صورتِ حال بہت بُری تھی۔ 9/11 کے واقعہ کے بعد اگرچہ پاکستان پر امریکی حکومت کا بہت دباؤ تھا۔ لیکن اس واقعے کے بعد پہلے سال ہی میں دونوں حکومتوں کے تعلقات میں بہت تبدیلی آئی اور دونوں طرف سے وفود کے تبادلے ہونے لگے۔ اور بہت سے ملکی اور معاشی امور پر بات چیت کا سلسلہ شروع ہوگیا۔

صدر مشرف ایک ذہین ، حاضر دماغ اور لبرل شخصیت تھے۔ کبھی معذرت خواہانہ  رویے  کا اظہار نہیں  کرتے تھے۔مشرف کے امریکی دوروں میں کوئی شاہانہ خرچے والی باتیں نہ تھیں جیسا کہ ان سے قبل حکومتوں نے شاہ خرچیاں کرکے ملکی خزانے کو لُٹایا تھا۔ اس میں کوئی مبالغہ نہیں کہ امریکی حکومت کی صدر مشرف پہ بہت کرم نوازی تھی۔ لیکن بنیادی طور پر وہ نوازنے والے تھے۔ آج مشرف اپنی مثبت و منفی یادوں اور صفات کے ساتھ ہم میں موجود نہیں۔ اوراس بات کو کہتے ہوئے افسوس ہوتا ہے کہ اُن کا انجام اچھا نہ ہوا۔ اُنہوں نے آخری سانس بھی دیارِ غیر میں لئے۔ یہ امر اور حق ہے کہ حکم اور حکمرانی ذاتِ باری تعالیٰ کی ہے۔ مُلک اور مملکتیں بھی اُسی کی ہیں، یہ زمین اور غرض سب کچھ اُسی ذات پاک کا ہے۔ انسان جب اپنے انسان ہونے کی کیفیت کو بھول جاتا ہے ۔ اور بقول واصف علی واصف ؔ کے جب کوئی اپنی بے ثباتی اور بے وقعتی (Nothingness) کو بھول جاتا ہے ’’ اور خود کو عقلِ کُل سمجھنے لگتا ہے ،انسانی سہاروں آسروں پر یقین کرنے لگے تو یہ بات خُدائے ذوالجلال کے نزدیک انتہائی نامعقول اور ناپسندیدہ ہے۔

صدر مشرف نے اپنے دورِ اقتدار میں دہشت گردی کے خلاف جنگ (War in Terror) میں بہت سوں کو پکڑوایا، جن میں کئی ایک بالکل بے گناہ اور مظلوم تھے۔ یہ بات امریکی حکومتوں کے تناظر میں دیکھی گئی ہے کہ امریکی اپنے مفاد کو اہم سمجھتے ہیں اور ہم اپنے مفاد کو اہمیت نہیں دیتے۔

سابق صدر جنرل(ر) پرویز مشرف ایک بہادر اور محبِ وطن آفیسر تھا۔وہ ایک دانش ور راہ نما،حیرت انگیز اور وسیع النظر شخصیت اور بہترین منتظم تھے۔
مشرف کے دور میں آزاد میڈیا کوفروغ ملا، بلدیاتی ادارے بنے اور انہیں اختیارات ملے، پولیس ریفارمز ہوئے، عورتوں کی آزادی اور مختلف پلیٹ فارمز پر حوصلہ افزائی کی گئی اور کراچی کی ترقی کے لئے قابل قدر کام کیا گیا۔ مشرف کے دور کا سب سے بڑا کارنامہ یہ تھا کہ غیر ملکی قرضوں میں اگر کمی نہیں ہوئی تو اضافہ بھی نہیں ہوا، 34 بلین ڈالر قرضہ تھا جو اتنا نہیں رہا۔ ڈالر کی قیمت (62 روپے) برقرار رہی۔

Advertisements
julia rana solicitors

عسکری اداروں کا کام حکومت کرنا نہیں بلکہ مُلک کے دفاع کو مضبوط بنانا ہے لیکن سول حکومتوں کے پیدا کردہ نامصائب حالات کے پیش ِ نظر فوج کو مجبوراً حکومتی امور کو بہتر طور چلانے کے لئے آگے آنا پڑتا ہے۔مشرف ملکی تاریخ کے چوتھے آمر تھے۔ ایوب خان کو عوام نے خوش آمدید کہا، ضیاء الحق کو عوام نے خوشی سے قبول کیا لیکن عوام کو یہ بات نہیں بھولنا چاہیے کہ یحییٰ خان کے دور ِ ا ٓمریت میں مُلک دو لخت ہوا۔ مُلکی تاریخ کے تناظر میں سابق صدر پرویز مشرف نے پاکستان کے لئے ملکی بقاء اور ترقی میں مثبت کردار ادا کیا۔انہیں پاکستان کی تاریخ میں یاد رکھا جائے گا۔ مُلک کے بہادر جنگجو کو اس کی عسکری اور عوامی خدمات کے لئے بحیثیت قوم ہم سلام پیش کرتے ہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply