پولیس کو دیا گیا اختیار
بل کی دفعہ 5 میں کہا گیا ہے کہ اس قانون میں مذکور کسی جرم کے متعلق والد/والدہ کی جانب سے اطلاع پر پولیس مذکورہ بچے/بچی یاس بہو/داماد یا پوتے/پوتی یا نواسے/نواسی کو عدالتی وارنٹ کے بغیر گرفتار کرسکے گی۔
جیسا کہ اوپر ذکر ہوا، اس بل میں بنیادی طور پر دو “جرائم” ذکر کیے گئے ہیں: ایک والد/والدہ کو گھر سے بے دخل کرنا جس پر دفعہ 3 میں ایک سال کی قیدِ بامشقت یا جرمانے کی سزا مقرر کی گئی ہے؛ اور دوسرا والدہ/والدہ کی جانب سے کسی بچے/بچی یا بہو/داماد یا پوتے/پوتی یا نواسے/نواسی کو گھر سے نکلنے کا نوٹس ملنے کے باوجود مذکورہ شخص کا گھر سے نہ نکلنا، جس پر دفعہ 4(2) کے تحت ایک مہینے کی قیدِ سادہ یا پچاس ہزار روپے جرمانے کی سزا مقرر کی گئی ہے۔
یہاں بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ پولیس اس دوسرے امر میں بھی گرفتاری کا اختیار رکھتی ہے۔ آگے دفعہ 6 میں کہا گیا ہے کہ گرفتاری کی صورت میں مقدمہ مجسٹریٹ کی عدالت میں چلے گا، جبکہ پیچھے دفعہ 4(5) میں کہا گیا تھا کہ والد/والدہ کی جانب سے ڈپٹی کمشنر کو شکایت کی جائے، تو پھر وہ اصلاحِ احوال کی کوشش بھی کرسکتا ہے اور یہ بھی کرسکتا ہے کہ مذکورہ شخص کو گھر سے نکلنے کا حکم دے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس دوسرے امر میں والد/والدہ کے پاس دو راستے ہوں گے: وہ اگر ڈپٹی کمشنر کے پاس شکایت لے جاتا ہے، تو ایک طریقے پر عمل ہوگا؛ اور وہ اگر پولیس کے پاس جائے، تو دوسرے طریقے پر عمل ہوگا۔ یوں یہ معاملہ پھر الجھنوں کا شکار ہوجائے گا کہ یہ دیوانی معاملہ ہے یا فوجداری۔
اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ ہے کہ پولیس کو گرفتاری کا جو اختیار دیا گیا ہے وہ offspring یعنی پوتے/پوتی یا نواسے/نواسی کے بارے میں بھی ہے جبکہ تعریفات کی شق میں بتایا گیا ہے کہ offspring کسی بھی عمر کا ہوسکتا/سکتی ہے۔ کیا قانون کا مسودہ بنانے والوں نے اس پہلو سے اس شق کا جائزہ لیا ہے کہ اس کا گھریلو تشدد کے خلاف تحفظ کے قانون اور نوخیز افراد کےلیے نظامِ عدل (juvenile justice system) کے ساتھ کیا تعلق بنے گا؟
اپیل کس کو کی جائے گی؟
بہرحال آگے دفعہ 7 میں اپیل سے متعلق دو الگ ضوابط دیے گئے ہیں:
ایک یہ کہ اگر اپیل اس حکم کے خلاف کی جارہی ہے جو دفعہ 4(5) کے تحت جاری کیا گیا تھا (یعنی ڈپٹی کمشنر کی جانب سے بے دخلی کا حکم)، تو اس صورت میں سیشنز کورٹ کو 30 دنوں کے اندر اپیل کی جاسکے گی۔ (مسودے میں دفعہ 2(5) کہا گیا ہے، لیکن یہ غالباً کتابت کی غلطی ہے۔)
دوسرا یہ کہ اگر اپیل اس حکم کے خلاف کی جارہی ہے جو دفعہ 3 کے تحت جاری کیا گیا ہو(والد/والدہ کو بے دخلی پر سزا) یا دفعہ 4 (2) کے تحت جاری کیا گیا ہو (والد/والدہ کی جانب سے بے دخلی کے نوٹس کے باوجود گھر سے نکلنا)، تو اس صورت میں اپیل پر مجموعۂ ضابطۂ فوجداری میں مذکور دفعات پر عمل کیا جائے گا۔ جیسا کہ پیچھے مذکور ہوا، ان دو امور پر سزا کا اختیار مجسٹریٹ کو دیا گیا ہے۔
اس دوسرے ضابطے پر تو شاید اعتراض نہیں کیا جاسکتا، لیکن پہلےضابطے کے متعلق عرض ہے کہ سیشنز کورٹ کے سامنے اپیل کا مطلب یہ ہے کہ یہ معاملہ فوجداری ہے، نہ کہ دیوانی۔ تو کیا آپ ڈپٹی کمشنر کو فوجداری کا اختیار دے رہے ہیں؟ پھر یاد کیجیے کہ کیسے اتنظامیہ کو عدالتی، بالخصوص فوجداری، اختیارات دے کر آئین اور سپریم کورٹ کے لازمی فیصلوں کی خلاف ورزی کی جارہی ہے!
پس چہ باید کرد؟
اس ساری بحث سے معلوم ہوا کہ یہ مسودہ انتہائی حد تک ناقص ہے اور اس صورت میں اسے ہرگز منظور نہیں ہونا چاہیے۔ اس کے بجاے اس موضوع پر اسلامی اصولوں کی روشنی میں تفصیلی قانون سازی کی ضرورت ہے۔ اس ضمن میں دیگر مسلم ممالک کے قوانین سے مدد لی جاسکتی ہے، بالخصوص ان ممالک کے قوانین سے جہاں اب بھی خلافتِ عثمانیہ کے دور کے ادارے کسی نہ کسی صورت میں موجود ہیں۔
مثلاً اب بھی اردن میں دو ادارے ایسے ہیں جو اس نہج پر کام کررہے ہیں: ایک کو “قاضی حقوق القاصرین” کہا جاتا ہے، یعنی ان لوگوں کے تحفظ کا قاضی جو خود اپنے حقوق کی حفاظت سے قاصر ہوں؛ اور دوسرا “الاصلاح الاسری” یا خاندانی تنازعت میں اصلاح کا ادارہ۔ معلوم امر ہے کہ اسلامی قانون کی رو سے قاضی کی ذمہ داریوں میں یہ بات شامل تھی کہ وہ اپنے زیر اختیار علاقے میں کمزوروں کے حقوق کا تحفظ کرے گا۔ چنانچہ بوڑھوں، بیواؤں، یتیموں اور دیگر ضرورت مندوں کے حقوق کا تحفظ اس کی ذمہ داری تھی۔ اسی طرح عائلی تنازعات کے حل کےلیے عدالت میں جانے سے قبل اصلاحِ احوال کے دیگر ذرائع اختیار کرنا زیادہ مؤثر ہوتا ہے۔ مثلاً قرآن کریم نے میاں بیوی کے درمیان تعلقات کی خرابی میں دونوں کے خاندان سے ایک ایک ثالث لے کر اصلاحِ احوال کےلیے کہا ہے (سورۃ النسآء، آیت )۔ طرفہ تماشا یہ ہے کہ ہمارے ایوب خان کے دور سے رائج عالی قوانین آرڈی نینس میں بعد از طلاق اصلاح کےلیے ثالثی کونسل کا کہا گیا ہے۔ اگرچہ طلاق کی صورت میں بھی اصلاح کی گنجائش ہوتی ہے (مثلاً طلاق رجعی ہو تو رجوع بھی ممکن ہوتا ہے اور طلاق بائن ہوتو علیحدگی کی صورت میں مہر، جہیز،نفقہ وغیرہ کے تنازعات کے تصفیے کی ضرورت رہتی ہے تاکہ تسریح باحسان پر عمل ہو)، لیکن ظاہر ہے کہ اس کی زیادہ ضرورت طلاق سے قبل ہوتی ہے۔ اسی طرح مذکورہ آرڈی نینس میں دوسری، تیسری ای چوتھی شادی سے قبل اجازت کےلیے ثالثی کونسل کا ذکر کیا گیا ہے۔ بس ہمارے ہاں اصلاحِ احوال کا دائرۂ کار اسی حد تک ہے! اردن کے ادارے الاصلاح الاسری کا دائرۂ کار بہت وسیع ہے اور بہت کثیر تعداد میں تنازعات کا حل وہیں پر نکل آتا ہے اور معاملہ عدالت میں لے جانے کی ضرورت ہی نہیں رہتی۔
کیا اب بھی وقت نہیں آیا کہ ہم مغربی ممالک کے قوانین کی نقل پیش کرنے کے بجاے اسلامی قانون کے اصولوں سے روشنی حاصل کریں اور ان اسلامی ممالک کے تجربات پر غور کریں جہاں معاشرتی اقدار ہمارے معاشرے کے حالات کے ساتھ زیادہ ہم آہنگ ہیں؟
ختم شد
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں