پاکستان کی تہذیب، ثقافت اور کلچر کیا ہیں؟/ناصر خان ناصر

ہماری اصل تہذیب تو دراصل موہنجوداڑو ہی سے شروع ہوتی ہے مگر ہمیں اپنے آباو اجداد کے غیر مسلم یا ہندو ہونے پر اتنی شرمندگی ہوتی ہے کہ ہم انھیں اپنانے سے انکاری ہیں بلکہ سرے سے انھیں اپنا آباو اجداد ہی نہیں سمجھتے۔ ان کی جلی ہڈیوں کی تگپگ راکھ کتنا تلملاتی ہو گی یہ سوچنا ہی بیکار ہے۔ ہماری دھرتی کا لعل راجہ داہر تھا اور راجہ پورس۔۔

کانڑا مجھے بھائے نہیں، کانڑے بن سہائے نہیں۔۔مگر ہم سفید چمڑی کی غلامی صدیوں سے نہیں ہزاروں سالوں سے کر رہے ہیں۔ خود غلط بود آنچہ ما پند اشتیم۔

اب اس کی کیا گڑھاڑت، تاویل، توجیح پیش کیجیے کہ ہمارے مصر والے عرب بھائی آج بھی فرعونوں کی اولاد ہونے کی بنا پر خود پر گڑنگ، بے جا یا بجا فخر کرتے ہیں؟۔

انھوں نے جگہ بہ جگہ فرعونوں کے مجسمے اپنے تمام بڑے شہروں کے چوراہوں میں سجا رکھے ہیں۔ اس امر سے ان کے اسلام کو کوئی خطرہ لاحق نہیں ہوتا۔ دنیا ہے کہ سب واگزاشت، فردگزاشت دیکھنے سننے کو، وہاں جانے کو ٹوٹی پڑتی ہے۔

ہمارے ہاں البتہ الٹی گنگا بہتی ہے۔ ہمارا گنجفہ ابتر ہوا ماضی ہمارے لیے بس کی گانٹھ ہے۔ ہم یوسف بے کارواں، پاکستانی بھی اگر اپنے موہنجوداڑو، ہڑپہ اور ٹیکسلا پر فخر کرتے ہوئے انھیں صحیح طرح پروموٹ کریں تو یہاں بھی راتوں رات نقشہ بدل جائے۔ گندم اگر بہم نرسد، بھس غنیمت است۔۔
مگر کیا کیجیے کہ ہمارا کٹر پنتی اسلام ہم پر ٹوٹ کر برسا ہے اور اب جب خود سعودی حکومت اس کے کٹر پنتی ازم سے تائب ہو رہی ہے۔
ہم ہوئے کافر تو وہ کافر مسلماں ہو گیا۔۔

ہم اپنی جان نثار کر کے اسے بچائیں گے اور مزید انسانوں کو مولی گاجر کی طرح کاٹتے ہوئے خدا کا کوئی خوف نہیں کھائیں گے۔ یکے نقصان مایہ و دیگرے شماتت ہمسائیہ۔۔

ہمارا سارا کلچر چوں چوں کا مربہ ہے۔ جس خطے میں ثقافت اور زبان کا لب و لہجہ ہر پچاس سو میل کے بعد بدل جاتا ہو، اس کی تہذیب ثقافت اور کلچر ایک کیسے ہو سکتے ہیں؟۔ خود کوزہ، خود کوزہ گر و خودگل کوزہ۔۔۔
ہماری ہر شے مانگے تانگے کی ہے اور دوسری فتح یاب قوموں سے مستعار لی ہوئی۔ کہیں کی اینٹ، کہیں کا روڑا، بھان متی نے کنبہ جوڑا۔

انہی بیرونی جیتنے والے حملہ آور لوگوں نے ہمیں تلوار، ڈنڈے یا اخلاق کی مار کے زور پر مومن اور مرد مجاہد تو بنا دیا مگر ہم نے اپنی شادی بیاہ، موت فوتگی اور پیدائش کی وہ پرانی رسومات ہرگز ترک نہیں کیں جو مہا بھارت کے وقتوں سے چلی آ رہی تھیں۔ آٹھ بار نو تہوار مناتے ہم لوگوں نے “آدھے گاؤں دیوالی، آدھے ہولی” کی طرح اپنے تمام سج سیج تہوار، شگن سگھن، رسم چلن، ٹوٹکے، ٹونے، تعویز گنڈے، تصورات، توہم، وہم اور دھیان گمان وہی کے وہی رکھے ہوئے ہیں جو ہمارے انہی پرکھوں کے تھے جنہیں ہم پہچاننے سے انکاری ہیں۔ پیس پاس منہاج مرے، کرامت محمد جھنڈے کو۔۔۔
سرپنچ جو بھی کہیں، پرنالہ وہیں رہے گا۔

یہی وجہ ہے کہ ہم آج بھی آدھے تیتر آدھے بٹیر بنے ہوئے ہیں۔ سارے عرب ہمیں دوسرے درجے کا مسلمان، نیچ اور اچھوت سمجھتے ہیں۔ ہندو اور بدھ تہذیب اور مذہب ہم بوجوہ ترک کر چکے ہیں اور اپنے عظیم الشان سنہری ماضی پر اتنے سخت شرمندہ ہیں کہ اسے سرے سے ہی اپنا نہیں مانتے۔ تلے پڑی کا کیا مول؟
ہماری جھوٹی تاریک (تاریخ) محمد بن قاسم سے شروع ہوتی ہے۔ اتم گانا، مدہم بجانا۔۔۔

مقدس قران شریف اور پاک حدیثوں کے بعد “بانگ درا” ہماری سب سے بڑی کتاب ہے، حالانکہ یہ “مہا بھارت” بھی ہو سکتی تھی جو ہنوز دنیا کی سب سے بڑی اور پرانی شاعری کی کتاب ہے۔ خود غلط بود آنچہ ما پند اشتیم۔۔۔

ہمارا یہ عظیم الشان ماضی رکھنے والا خطہ ارض تہذہب کا گہوارہ تھا اور اس زمانے میں اس سے زیادہ ترقی یافتہ تہذیب بمشکل کوئی اور شاید ہی ہو۔ ہم تو سورج بنسی، چندر ونشی، موریا خاندان اور حتہ کہ دھرتی کے مہان پتر، ڈگ وجے اشوک آعظم تک کو جوتے کی نوک پر رکھتے ہیں، جس کے کتبے توڑ پھوڑ اور چوری کے باوجود کبھی کبھار پاکستان میں کہیں نہ کہیں مل جاتے ہیں۔ بدھ مت جو ہند سندھ، بلوچستان اور پنجاب میں دور دور تک پھیلا ہوا تھا، اب اس کے آثار تک مکمل ملیا میٹ کر دیے گئے ہیں۔ الا لوں بلا لوں، صحنک سرکا لوں۔ غیر ملکیوں کو پرانے آثار قدیمہ، سکے، مجسمے بیچ کر اپنے دام، درہم اور ڈالر کھرے کرنا کوئی ہم سے سیکھے۔

بہاولپور کے پاس سوئی ویہار کا بدھ مینار چالیس سال قبل تک ہم اپنی گناہگار آنکھوں سے خود دیکھ چکے ہیں۔ سیالکوٹ میں موجود راجہ سلوان (سالبان)، رانی سندراں کا قلعہ اور پورن بھگت کا کنواں بھی ہم نے بچپن میں دیکھا تھا، اب شنیدن ہے کہ اسے بھی پاٹ کر برابر کر دیا گیا ہے۔

بیگانی دھرتی پہ جھینگر ناچے کے مصداق لاہور میں لاکھوں استھان، شوالے، مندر، گرودوارے، پاٹھ شالے، مڑھیاں، تالاب، ٹھاکر دوارے تھے، جو مکمل طور پر تباہ کر دیے گئے ہیں کہ ان کا کوئی  تعلق ہماری اسلامی مملکت سے نہیں بنتا تھا۔ ہم لوگ “بلخ نہ بخارے، چھجو کے چوبارے” کا تذکرہ تو فخر سے کر سکتے ہیں مگر اسی چھجو کے چوبارے کو برقرار رکھنا شاید کفر ہے۔ ملتان اور سندھ کے مشہور زمانہ سوریا اور کالی مندروں کو تو چھوڑیے، ان کا نام و نشان بھی مٹ چکا، ملک کے کسی کونے میں بھی کوئی ہندو سکھ عیسائی یا بدھ عبادت گاہ محفوظ نہیں ہے۔ رہے نام اللہ کا۔۔۔
ہاں البتہ بابری مسجد پر ڈھائی ہندووں کی سفاکی اور قیامت پر ہر آنکھ ابھی تک نم ہے۔
ہم تو اپنے مسلمان مغلوں کے مزار اقدس بھی نہیں سنبھال سکتے۔۔
بر مزار ما غریباں نہ چراغے نہ گلے
نہ پر پروانہ سوزند، نہ صدائے بلبلے

گزشت آنچہ گزشت، پانی کا بلبلہ بنی انسانی زندگیوں اور بے ثباتی دنیا کا اصل تماشہ دیکھنا ہو تو پاکستان تشریف لائیے۔ یہی ہماری تہذیب اور اس کا جنازہ ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

سو ہماری سخت جان زندہ یا مردہ ثقافت ابھی تک غلام ابن
غلام کی سی ہے۔ اسی غلامی اور قرضوں کا طوق ہماری گردنوں میں ہے اور وہی غلاموں کی سی پھٹکار ابھی تک ہماری صورتوں پر بھی برستی ہے تو تعجب کیسا؟ آسا جیے، نراسا مرے۔۔۔ خیر سے آگ لگے پر بلی کا موت ڈھونڈنا ہماری ثقافت ہے، رشوت، سفارش، ملاوٹ، چوری، بے حیائی اور بے ایمانی ہمارا کلچر اور اسلام ہمارا دین ہے۔ باقی رہی تہذیب ۔۔۔ تو وہ کس چڑیا کا نام ہے؟
اسے ڈھونڈنا “آنا نہ پائی، نری گھساٹئ” ہے۔ نئی نسل پائی، پیسے، ٹکے، آنے اور روپے سے نابلد ہے۔۔۔ آں دفتر را گاو خورد۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply