مشیل فوکو اور آرکیالوجی آف نالج ( ١ ) -اظہر علی

آرکیالوجی آف نالج مشیل فوکو کا وسیع ترین تجزیاتی مطالعہ ہے جسے اس نے اپنے پچھلی کتابوں جن میں دیوانگی اور تہذیب، چیزوں کی ترتیب اور کلینک کی پیدائش وغیرہ شامل ہیں، کے بارے میں معلومات فراہم کرنے اور اپنے مختلف تصورات کا ابہام ختم کرنے کے لیے لکھا تھا۔ یہ کتاب ١٩٦٨ میں شائع ہوئی تھی۔ کتاب بنیادی طور پر فوکو کا طریقہ علم ہے کہ وہ علوم/تاریخ /سماج/ کی تاریخوں کو کس انداز سے اپنے فکر کے تناظر میں دیکھتا ہے۔

پہلا باب (تعارف)

فوکو پہلے باب میں ہی تاریخ فلسفہ، ادب، سائنس، معاشیات، حکومتوں اور اداروں کی تاریخ کا نقشہ کھینچتا ہے اور کہتا ہے کہ مؤرخین نے تاریخ کو پڑھنے کے لیے تاریخی انداز فکر کے دو طریقے اپنائے ہیں۔ پہلا روایتی تاریخی فکر جبکہ دوسرا آئیڈیے/خیال کا تاریخی فکر ہے۔

فوکو روایتی تاریخی فکر کے بارے میں کہتا ہے کہ مورخین نے اب تک اپنی تمام تر توجہ طویل دورانیوں پر مرکوز رکھنے کی کوشش کی ہے کیونکہ وہ جاننا چاہتے ہیں کہ سیاسی، سماجی یا ادارہ جاتی وقوعوں کی تبدیلی اور تغیر کے بطن میں وہ کونسے مستحکم، مستقل اور مخفی رجحانات تھیں جنھوں نے طاقت کو متحد کرکے کمزور اور محکوم سلسلوں کو ساکت اور غیر مستحکم کرنے کی کوشش کی ہے ۔ تاریخ کے بدلتے ہوئے ظہور میں ایسے کونسے آلات تھے جن کے استعمال نے غیر منفعت بخش حد تک (زندگی کی لمبی دوڑ میں) فرد کی آزادانہ نقل و حمل اور غور و فکر کو متاثر کیا ہے؟ وہ تاریخ کے ان حالات اور تشکیلات کا معائنہ کرتا ہے اور اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ مورخین کے آلات میں سے کچھ چیزیں ایسی ہیں جنھیں بعد میں آنے والے مورخین یا تاریخ کے طالب علموں کے لیے ورثے میں رہ گئی تھی اور کچھ چیزیں انہوں نے بوقت ضرورت خود دریافت کیے ہیں۔ اس ضمن میں وہ مثال معاشی ترقی کے ماڈل، مارکیٹ کا تحلیلی تجزیہ، آب و ہوا کے بدلتے ہوئے اثرات وغیرہ کے مثال دیتا ہے۔ مثلاً، سیاسی شورش سے لے کر مادی تہذیبی ترقی کے دروازوں تک، نت نئے طریقے انسانوں نے ایجاد کیے۔ مگر یہ بات سب جگہوں پر منکشف ہوتی ہے کہ ہر طریقہ اور انداز اپنے نرالے پن اور مخصوص ہونے کے باوجود غیرتسلسل ہونے کا شکار ہے۔ اس بات کا ظہور بھی، المیہ ہے، تب ہوتا ہے جب کوئی اس کی یا انکی تہہ تک پہنچنے کی کوشش کرتا ہے۔ جنگوں، حکومتوں، عالمی وقوعوں کے بدلتے ہوئے منظروں کے بہیتر یا ان کے سینے میں یکدم ساکت اور خاموش تاریخوں کا قبرستان ہے: سمندری راستوں کی تاریخ، قحط اور خشک سالی اور آبپاشی کی تاریخ، غرضیکہ بھوک اور شکم سیری کی توازن برقرار رکھنے کے تاریخ دبی ہوئی ہے۔ روایتی تجزیے کے سوالات دوسرے قسم کے سوالات سے تبدیل کیے گئے ہیں۔ مثال کے طور پر پہلے پوچھا جاتا تھا کہ دو مختلف ایونٹس کے مابین کیا ربط ہے؟ آیا ان کے درمیان کوئی علت و معلول کا رشتہ بھی ہے؟ کیا مجموعے (totality) کو بیان کرنا ممکن ہے؟ یہ سوالات اب دوسرے قسم کے سوالات سے تبدیل کیے گئے ہیں: ایک لہر (stratum) کو دوسرے لہر سے کیسے علیحدہ کیا جا سکتا ہے؟ کس قسم کے سیریز بنائے جا سکتے ہیں؟ سیریز میں کس سیریز کا استعمال منفعت بخش رہے گا؟ (وغیرہ وغیرہ)۔

دوسری  قسم آئیڈیے کا تاریخی فکر ہے۔ اس فکر کے رو سے مورخین نے آئیڈیے کو کھوجنے کی کوشش کی ہے۔ اس فکر کے ذریعے فوکو سائنسی، فلسفیانہ اور ادبی رجحانات کے متعلق مورخین کا نقطہ نظر سامنے لاتا ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ علم کے ان شعبوں میں ایک شفٹ آتا رہا ہے اور ان علوم کو اپنے اپنے دائروں میں مقید کرنے کا تسلسل نمودار ہوا ہے جن کو وہ غیر تسلسل کا نام دیتا ہے۔ خیال کے اس غیر تسلسل (discontinuities of thought) کے تصور کے ابھرنے کے ساتھ تھاٹ کی کانٹینیوٹی میں ایک زبردست مگر لمحاتی وقفے رونما ہوئے ہیں جنہوں نے تھاٹ کے مخصوص پیراڈائم کو درہم برہم کیا ہے۔ تاریخ کے مطالعے کا یہ نقطہ نظر تاریخی تناظر میں اس کے قریبی ذرائع کا شکل اختیار کر کے ڈس کانٹینیوٹی کی دلچسپی کا موضوع رہا ہے۔ اس لیے ان فیلڈز میں تاریخ کے مطالعے کا یہ عنصر روایت کا مسئلہ نہیں رہتا بلکہ اس کے تقسیم، حد بندی اور بنیادی اکائیوں کا مجموعہ ابھرتا ہے جو بذات خود اس انداز کو غیر متعلق کرتا ہے۔ اس مطالعے کے دوران جو ڈاٹس ( discontinuities) سامنے آتے ہیں ان کو مہارت سے پر کیا جاتا ہے اور نئی بنیادیں استوار کی جاتی ہے۔ اس طریقے میں ڈس کانٹینیوٹی کے بارے میں جو سوالات اٹھ کھڑے ہوتے ہیں انہیں یہ ماہرین نئی تاریخ اور تھیوری کی  شکل دیتے ہیں۔ انکے سوالات میں مثلاً، ڈسپلن کیا ہے؟ متن کیا ہے؟ تصور کیا ہے؟ تشریح اور فارملائزیشن کی جائز سطح کونسی ہے؟ ساختیاتی بنت کیا ہے؟ وغیرہ شامل ہیں۔ فوکو بتاتا ہے کہ کچھ ڈسپلنز تسلسل سے غیر تسلسل میں بدل چکے ہیں اور کچھ پیچیدہ کارپس (tangled corpus) سے غیر تسلسل اور مانع ہونے والی اکائیوں (interrupted unities) میں۔ سیاسیات، معاشیات اور اداروں کے بارے میں ہماری حسّاسیت اس لیے زیادہ ہے کہ ہم پختہ عزم اور ارادے کے مالک ہیں۔ انہونی چیزوں کا تعاقب ان ڈسپلنز میں کچھ زیادہ ہی ہے۔ اس کے برعکس علم اور خیال کی تاریخ ہے جس میں ہم اختلاف کے کھیل میں زیادہ توجہ دیتے ہیں۔ ان دونوں نے ایک دوسرے کو جانے بغیر ایک دوسرے کے حدوں کو عبور کیا ہے۔

تاریخی مطالعے میں فوکو کے نزدیک ڈاکیومنٹ کو اب تک مانومنٹ کے طور رکھا گیا ہے۔ یہ نیا عمل ڈاکیومنٹ پر سوال کرنے سے ابھرتا ہے اور تاریخ کا یہ نیا مطالعاتی عمل تاریخ کی جگہ آرکیالوجی کے طور پر وجود میں آتا ہے جس میں ابھی تک ڈاکیومنٹ کو مانومنٹ یا آرٹیفیکٹ کے طور پر رکھا گیا تھا؛ اس سبب تاریخ (history) آثار قدیمہ (archeology) کا شکل اختیار کرتا ہے۔ بہرحال، انداز فکر کے جن دو طریقوں اور ان میں مذکورہ جس تبدیلی (شفٹ) کو ہم نے شروع میں بیان کیا تھا، وہ بالآخر چار چیزوں پر منتج ہوتی ہیں۔

سب سے پہلے، کچھ مخصوص ترقی پسند سلسلوں کو منتخب کرنے کے بجائے تاریخ کا احاطہ کیے جانے والے مختلف قسم کے خیالات (سیریز) کو برآمد کرنے اور اس سے حاصل ہونے والے خیالات کو پوری توجہ سے سوال کیا جاتا ہے جس نے تاریخ کو تشکیل دیا ہے۔ پھر سوالات کے اس سیریز کو خود مورخین متعلقہ سیریز میں جمع کرنے کے بجائے چیلنج کرکے خود متفرق سوالات اٹھاتے ہیں ۔ یہ عمل نتیجے کے طور پر وہ انداز ہائے فکر سامنے لاتا ہے جس کا ذکر ہم اوپر کر چکے ہیں۔

اس کے بعد، غیر تسلسل کا تصور ( concept of discontinuity) آتا ہے جو پوری تاریخی مشق میں ایک بڑا اور وسیع کردار ادا کرتا ہے۔ غیر تسلسل دستاویزات کی تاریخی حدود اور اور ٹوٹ پھوٹ کو دکھاتا ہے جو ایک تسلسل کے ساتھ مختلف سطحوں پر بچھائے ہوئے ہیں۔ تسلسُل میں افراتفری پہلے آتی ہے اور محقق (مورخ) کا کام بعد میں شروع ہوتا ہے۔ محقق کا کام دستاویزی مواد کو ٹارگٹ کرکے اسے حل کرنا ہوتا ہے۔

تیسرا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ مجموعی تاریخ کا امکان ختم ہوجاتا ہے کیونکہ، جیسا کہ ظاہر ہے، کسی خاص دور میں لوگوں کی اپسٹیمِک ویلیو ایک جیسی ہوتی ہے مگر اس امکان کا ختم ہوجانا اس کے روح عصر (episteme) کو متاثر کرتا ہے اور مجموعی تاریخ عمومی تاریخ میں بدل دی جاتی ہے جس میں تسلسل کے راہوں کو توڑ مروڑ کر پیش کیا جاتا ہے۔ اس مخصوص دور کے تمام متنوں کا تعلق توڑا جاتا ہے اور اس کو کسی خاص ادارے اور طاقت کے زیر اثر لایا جاتا ہے۔ مجبوراً ہمیں متفرق تصورات کو قبول کرنے کی طرف بڑھا دیا جاتا ہے۔

سب سے آخر میں، ڈاکیومنٹ کا سوال مؤرخ کے لیے بہت سے نئے طریقہ کار کے مسائل کو جنم دیتا ہے: کسی کارپورا آف ڈاکیومنٹس کی تعمیر اور حد بندی کیسے کرنی چاہیے؟ تجزیے کے کونسے اصول اپنائے جانے چاہییں؟ تعمیر کی کونسی تہوں کا سامنے لائے جائیں؟ لکیر علاقوں میں کھیچنے چاہیے یا، پھر ادوار؛ یا کسی اور جگہ؟

Advertisements
julia rana solicitors london

گو کہ یہ چیزیں پہلے سے وجود رکھتی تھیں مگر ان کو اس طرز کے پیمانے پر کیوں نوٹ نہیں کیا گیا؟ اس کا جواب بڑی حد تک نفسیات (psychoanalytic) ہے۔ فوکو کہتا ہے کہ مارکس نے تعلقاتی تجزیے سے، نطشے نے عقلی بنیادوں کو اخلاقی شجرہ نسب سے بدل کر اور فرائڈ نے اس انداز سے کہ ہم خود میں شفاف نہیں ہے۔ ان سبھی مہابلیوں نے تاریخ کو نشہ آور نیند سلانے کے برعکس سے لوگوں کو جگانے کے لیے انسانی ذات اور تاریخ کے غیر تسلسُل کو متعارف کرانے کی کوشش کی۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply