آج سے تقریباً پندرہ سال قبل پہلی بار صحافی کے طور پر ایک علاقائی مسئلے پر لکھنے کی کوشش کی۔ پہلی وابستگی ہفت روزہ ہائی کلوس نیوز سے رہی اور فخر ہے کہ راجہ بشیر صاحب نے بہترین راہنمائی فراہم کی اور ایک طویل عرصہ ادارتی صفحے کی ذمہ داری تفویض کیے رکھی۔
پھر ایک ایسا سلسلہ چل نکلا جو آج تک جاری ہے۔ اس پورے عرصے میں صحافت معاش کا ذریعہ نہ بن پائی، نہ ہی بنانے کا سوچا کہ پاکستان میں ایسا سوچنا بھی اب محال ہو چکا ہے۔
کبھی پڑاؤ کیا سماء ڈیجیٹل پہ جہاں بلاگز کا باقاعدہ حصہ رہا تو کبھی رُخ مکالمہ اور دیگر ویب سائٹس کی جانب مڑ گیا۔اتنی جگہ لکھنے کے باوجود لیکن آج میں ناکام ہو گیا۔ میں آج ایک لفظ تک نہیں لکھ سکا۔
اپنے ابو کی قبر کا کتبہ لکھنا چاہا، لیکن کم و بیش سترہ گھنٹے بعد بھی کتبے کے لیے ایک سطر لکھنا تک کارِ محال ٹھہرا۔ میں ایک لفظ لکھنے کی کوشش میں پوری اپنی زندگی پہ نگاہ دوڑاتا ہوں تو مجھے محسوس ہوتا ہے کہ نہیں یہ جو لفظ میں لکھنے جا رہا ہوں یہ میرے والد کی مجھ پہ کی گئی محنت کے آگے کچھ بھی نہیں ہے۔ میں کسی سطر میں اپنی مہارت دکھانے کی کوشش کرتا ہوں یا کسی جملے کو ترتیب دینے کا سوچتا ہوں تو مجھے دل سے آواز آتی ہے کہ میرے ابو کی مجھ سے محبت اور پیار کے آگے اس جملے کی ترتیب تو بے معنی ہے۔ اس سطر میں تو ایسا کچھ بھی نہیں کہ میں اپنے پیارے ابو کی قبر کے کتبے میں وہ پیار دکھا سکوں کہ جو انہوں نے مجھے تمام عمر دیا۔
زندگی کے اتار چڑھاؤ میں میرے پیارے ابو نے مجھے کبھی اس اتار چڑھاؤ کا احساس نہ ہونے دیا۔ خود اگر پرانے کپڑے پہنے تو میرے لیے نئے کپڑوں کا ہونا لازم تھا۔ اچھا کھانا سامنے ہوتا تو ان کی کوشش ہوتی تھی کہ پہلا نوالہ میں کھاؤں ۔ سکول، کالج یا پھر ان کی زندگی کی ڈور جُڑے رہنے تک، ان کی ہم حتیٰ الوسع کوشش ہوتی کہ مجھے نئے جوتے مہیا کریں۔ گھر واپسی پہ دیر ہونے پہ ان کا کہنا کہ یار تم لیٹ نہ آیا کرو، اس وقت تو پتا نہیں تھا، لیکن آج ان کی غیر موجودگی میں ان کا کہا گیا یہ جملہ بہت یاد آتا ہے۔ اخبارات سے وابستگی بھی بہت پرانی ہے۔ ایک مرتبہ کسی نے روزنامہ اوصاف کا ایک تراشہ بزرگوار کے سامنے لا رکھا جس میں راقم الحروف کا ایک کالم شائع ہوا۔ شام کو گھر واپسی پہ ان کے چہرے کی مسکراہٹ ایسی تھی کہ لگا جیسے کائنات کا ہر خزانہ میسر آ گیا۔ میری کامیابی پہ میرے ساتھ خوش ہونے والی ذات، اور میری پریشانی میں میرا حوصلہ بننے والی ہستی، میرے پیارے ابو۔
ابو میں نے بہت سے کالمز لکھے، بہت سے بلاگز لکھے، میری سو لفظی کہانیوں کی تعداد اب دو ہزار ہونے کو ہے۔ لیکن میں آپ کی قبر کا کتبہ جیسا سوچتا تھا ویسا نہ لکھ پایا۔ کیوں کہ میرے پیارے ابو! مجھے کائنات میں ایسے لفظ ہی نہیں مل پائے کہ جن کو میں آپ کی شفقت، آپ کی محبت اور آپ کے لمس سے تشبیہ دے سکوں۔ میری تو تمام تر کوششیں بے سود رہیں کہ بھلا کیسے ممکن ہے کہ میں وہ احساس تحریر کر پاؤں کہ جب میں آپ کی بیماری میں بھی آپ کو پشت سے زور سے پکڑتا تھا تو نجانے کیسے آپ میں توانائی آ جاتی تھی اور آپ لپک کر اٹھتے تھے اور کہتے تھے کہ ٹھہرو عباس ایک لمحہ ذرا تمہارے لیے تو میں اب بھی بہت ہوں۔
میرے پیارے ابو! یقیناً آپ میرے لیے بہت تھے اور بہت ہیں۔ آج بھی ابو آپ کی لحد کی مٹی مجھے حوصلہ بخش دیتی ہے۔ میں آج بھی آپ کی نرم شیو پہ اپنا ہاتھ پھیرتا ہوا محسوس کر لیتا ہوں۔ میرے پیارے ابو میں آج بھی آپ کے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے مسکرا کر آپ کو کہتا ہوں کہ ابو جی! کیا خیال ہے آج تنویر سے بال نا کٹوائے جائیں۔ ابو! میرے پیارے ابو! آپ میری پریشانی میرے بناء بتائے بھی محسوس کر لیتے تھے نا کہ عباس پتر آج بہت خاموش ہو اور جب میں باوجود آپ کی کوشش کے بتاتا نہیں تھا تو آپ کہتے تھے کہ پتر میں جانتا ہوں پریشان تو ہو لیکن میری دعا ہے انشاء اللہ تم ناکام نہیں ہو گے۔ اور پریشانیاں بھی دور ہو جائیں گی۔ ابو جی! آج بھی میری پریشانیاں آپ کا لمس محسوس کر کے دور ہو جاتی ہیں۔ اور آج بھی ابو جی آپ کے پاس ہونے کا احساس موجود ہے۔ یہ لحد اور مٹی آپ کو مجھ سے جدا نہیں کر سکے۔ آپ میرے ساتھ تھے اور میرے ساتھ ہیں۔ میں اسی لیے پریشانیوں سے نہیں گھبراتا کہ آپ کا ساتھ ہی تو مجھے ہر مشکل کا مقابلہ کرنے کی ہمت بخش دیتا ہے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں