• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • 30 سال کے بعد حاملہ ہونیوالی خواتین کو کن مسائل کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے؟

30 سال کے بعد حاملہ ہونیوالی خواتین کو کن مسائل کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے؟

بظاہر 30 سال کی عمر کچھ خاص زیادہ عمر نہیں ،لیکن اگر اس عمر میں خواتین حاملہ ہوں تو اُنہیں کئی پیچیدگیوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

زیادہ تعلیم حاصل کرنے والی اور پھر نوکری کرنے والی خواتین کی شادی کچھ تاخیر کا شکار ہوتی ہے،جس کی وجہ سے وہ  جس عمر میں جاکر حاملہ ہوتی،اُس عمر میں صحت کے بہت سے مسائل اُن کے منتظر ہوتے ہیں ، ماہر امراض ِنسواں کا یہ ماننا ہے کہ 30 سال کی عمر میں حمل ٹھہرنے کے سبب خواتین کو مختلف مسائل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

تیس سال کی عمر میں حمل ٹھہرنے کے بعد ہونےوالی پیچیدگیاں۔
اگر آپ کی عمر تیس سال سے زیادہ ہے اور آپ حاملہ ہیں تو اس صورت میں اپنی ماہر امراض نسواں ڈاکٹر سے رجوع کریں اور اس سے مشورہ کریں ا ۔

تیس سال کی عمر میں حمل کے ٹھہرنے میں دشواری۔
تیس سال کی عمر وہ عمر ہوتی ہے جب کہ خواتین کے جسم میں مختلف قسم کی ہارمونل تبدیلیاں واقع ہونا شروع ہو جاتی ہیں ۔ وقت کے ساتھ ساتھ ہر گزرتے سال میں ان کی زرخیزی میں کمی واقع ہونا شروع ہو جاتی ہے، جو ان کے اندر حمل کے ٹھہرنے کے امکانات کو کم کرنا شروع کر دیتے ہیں۔

ماہرین کے مطابق، خواتین میں 29 سال سے 35 سال کی عمر کے دوران ایسا بدلاؤ آتا ہے جو ان کے اندر حمل کے ٹھہرنے کے امکانات کو کم کر دیتے ہیں اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ اس عمر میں خواتین کے اندر انڈے پیدا کرنے کی صلاحیت کمی کا شکار ہو جاتی ہے اور اس وجہ سے ماہرین کے مطابق، اس عمر میں اویلیوشن سائیکل کے دوران حمل کے ٹھہرنے کے امکانات صرف 15فی صد تک رہ جاتے ہیں۔

بچے کی پیدائش  کے دوران  پیچیدگیاں ۔
تیس سال کی عمر میں اگر حمل ٹھہر بھی جاۓ تو اس کے ضائع ہونے کے امکانات بہت بڑھ جاتے ہیں امریکہ کے ادارے سوسائٹی فار ری پروڈکٹو سائنس کے مطابق، تیس سال کے بعد حمل کے ضائع ہونے کی شرح 20 فی صد تک ہوتی ہے جو کہ ایک بڑی شرح ہے۔

اس عمر میں حمل کے ٹھہرنے کے بعد اس میں نارمل ڈلیوری کے امکانات بھی بہت کم ہوتے ہیں اور زیادہ تر میں سی سیکشن ہی ہوتا ہے جب کہ اس عمر کی ماؤں کے جو بچے پیدا ہوتے ہیں ان کی صحت کو بھی کافی خطرات لاحق ہو سکتے ہیں اور ان کے ڈاون سنڈروم کا شکار ہونے کے امکانات بھی کافی ہوتے ہیں لیکن یاد رکھیں! ان پیچیدگیوں سے باقاعدہ پلاننگ کر کے بچا جاسکتا ہے ۔

کروموسومل ایب نارمیلیٹی کے امکانات۔
جن ماؤں کی بچے کی پیدائش کے وقت تیس سال یا اس سے زيادہ ہوتی ہے ایسے بچوں میں کروموسومل ایب نارمیلیٹی کے امکانات کافی بڑھ جاتے ہیں اور ہزار بچوں میں سے ایک بچہ ایب نارمل ہوتا ہے جس کے دماغ کی نمو اس کے جسم کی نمو کے مقابلے میں سست روی کا شکار ہوسکتی ہے۔لہذا ایسی خواتین کو حمل کے ٹھہرنے کے بعد سے ہر ہر لمحہ اپنے ڈاکٹر کے مشورے پر عمل کرنا لازمی ہوتا ہے۔

ماں کی صحت کو خطرات۔
وقت کے ساتھ ساتھ انسان کے جسم میں بہت ساری تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں۔ کچھ نسوانی مسائل جن میں اینڈومیٹروسس ، فائبرائيڈ وغیرہ شامل ہیں۔ حمل کے ٹھہرنے میں مسائل پیدا کرنے کا باعث بن سکتی ہیں اور اگر حمل ٹھہر جاۓ تو اس میں پیچیدگیاں بھی پیدا کرنے کا باعث بن سکتے ہیں۔اس کے علاوہ عمر کے ساتھ ہائی بلڈ پریشر ، ذیابطیس ، گردے اور دل کے امراض بھی ماں اور بچے کی زندگی کو خطرات میں ڈال سکتے ہیں۔

حمل کے ضائع ہونے کے خطرات
تیس سال کی عمر سے قبل فیملی پلان کرنے کا بہترین وقت ہوتا ہے لیکن تیس سال کی عمر کے بعد کسی بھی عورت کا جسم میچور ہو جاتا ہے اس وقت میں انڈے بننے کا عمل سست ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے حمل کے ٹھہرنے کے امکانات کم ہو جاتے ہیں اور اگر حمل ٹھہر بھی جاۓ تو کروموسومل ایب نارمیلیٹی کی وجہ سے ابتدائی طور پر پہلے تین مہینوں میں ہی حمل ضائع ہو جاتا ہے۔

جڑواں بچوں کے امکانات میں اضافہ۔
ہارمون کے اتار چڑھاؤ کے سبب تیس سال کے بعد حمل ٹھہرنے کی صورت میں جڑواں یا دو سے زیادہ بچوں کی پیدائش کا امکان زیادہ ہوتا ہے اس کا سبب بعض اوقات وہ ادویات اور طریقہ علاج بھی ہو سکتے ہیں جو کہ تیس سال کی عمر کے بعد خواتین حمل کے ٹھہرانے کے لیے استعمال کرتی ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

امید کی کرن۔
اگرچہ تیس سال کی عمر کے بعد حمل کا ٹھہرنا اور اس کا صحت مند طریقے سے پایہ تکمیل تک پہنچنا دشوار ضرور ہے مگر ناممکن نہیں ہے ۔ اس کے لیے  موجودہ دور میں ماہر امراض نسواں ڈاکٹرز کے زیر نگرانی ایسے بہت سارے طریقے نکال لیے گئے ہیں جن کے ذریعے اس عمر میں بھی نہ صرف حمل ٹھہر سکتا ہے۔ بلکہ یہ حمل کافی حد تک نارمل بھی ہو سکتا ہے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply