• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • المارِ سیہ عرف فخرالدین عارفی کی حرکت نازیبا، مشورہ ایک بیوی نیک کو /خنجر عظیم آبادی

المارِ سیہ عرف فخرالدین عارفی کی حرکت نازیبا، مشورہ ایک بیوی نیک کو /خنجر عظیم آبادی

اے بی بی بانو کس نفس امارہ سے ہو اپنے برقی کھاتے پہ محوِ کلام، مارِ سیہ ہے جس کا نام ۔ یہ عظیم آباد کا مردود بڑا عیاش ہے، اس کی سنگت نہایت خراب اور ذلیل بودوباش ہے۔ عیاشی کے ہیں چرچے خاص و عام ۔ لونڈے بازی میں ہے بڑا بدنام ۔ ہوگا برا انجام ۔
موسوم ہے عظیم آباد کی گلیوں میں عارفی کی جگہ مارِ سیہ سے۔ مستورات کو تاڑنا شیشے میں اتارنا اس حبشی کا کام ہے، مے نوشی اور لونڈے بازی سے بھی اس کی رغبت عام ہے۔ شہر عظیم آباد کی گلیاں اور رنڈی خانے آج بھی گواہ ہیں یہ رو سیاہ عظیم آباد کے رنڈی خانے میں کوٹھے کے نیچے، ہاتھ میں گجرا، گلے میں رومال، منہ میں پان ، رخِ سیہ پہ اور سیاہی مل کر لچک لچک کر واسطے رنڈیوں کے گاہک تلاشنے کا کام بھی کرتا تھا ۔ آج بھی ہفتے کی شب رنڈی خانے میں حاضری دینا نہیں بھولتا رنڈیاں اس کی راہ تکتی ہیں ۔ اے بی بی یہ آج بھی کوٹھے پہ جاتا ہے اور رنڈیوں کے تھکے، ہارے ،کچلے ، مسلے جسم کی مالش کرتا ہے ۔ منٹو کا مالشیا بھی اسے دیکھے تو استاد مانے ۔ خدا جھوٹ نہ بلوائے تو شب دیجور نوریا کو بھی برے وقتوں میں مالشیا بنانے میں اسی ذلیل چتکبرے گدھے سی عقل والے سیاہ بھینسے کا ہاتھ تھا ۔
اے میرے برقی کھاتے کے دوستو، ہم نواؤ، میرے عزیزو اے بی بی بانو اس عقل سے کورے مار سیاہ کی پیدائش کا قصہ بھی عجب ہے ۔ کہوں تو زبان چھلے، آبلہ پڑے منہ جلے نہ کہوں تو غضب ہے ۔ لو آج خنجر راز سر بستہ سے پردہ اٹھائے دیتا ہے ۔ دنیا کو اصلیت بتائے دیتا ہے ۔ برقی دوستوں کو غوطہء حیرت میں ڈوبائے دیتا ہے ۔
شہر عظیم آباد کے ایک غریب مفلوک الحال مہتر کے پیٹ میں رسولی ہوئ ۔ درد سے بےحال ہوا ہسپتال میں منتقل ہوا ۔ دوا دارو ہوئ نہ شفا ملی نہ درد سے افاقہ نہ ہوا ۔ طبیب نے رسولی کی جراحی تجویز کی ۔ ادھر مہتر کی جراحی کی ابتدا ہوئ ۔ طبیب نے اوزار جراحی ابلتے پانی میں ڈالا اور مہتر کو بےہوشی کی دوا سنگھائ ۔ دفعتاً ایک نرس خوش خرام افتاں و خیزاں دوڑی آئ ۔ اسکی گود میں سیاہ چمرخ بدہیبت نومولود پڑا تھا ۔ بھوک سے کریہہ آواز میں چینچے جاتا ۔ مطب سر پہ اٹھائے دیتا ۔ نرس نے طبیب کو واقعہ دل خراش سنایا ۔ بن بیاہی ماں کے شکم سے پیدا نومولود دکھایا ۔ کہا ماں مطب کے پچھواڑے کوڑے کے ڈھیر پر پھینک کر جا چکی ۔ کوئ دم آوے کہ کتے نوچ کھائیں نرس کی نگاہ پڑی اور اٹھا کر طبیب کے پاس دوڑی ۔
طبیب ہوا پریشاں ۔ اس سیاہ چمرخ نومولود کا کسے بنائے نگہباں ۔ پنگورہء شفاخانہ پہ پڑے مہتر کو دیکھا ایک خیال لہرایا برق سی چمکی، کوندھی، لہرائ اور طبیب کے ہونٹوں پہ مسکراہٹ آئ ۔ بڑے اطمینان سے جراحی کا عمل مکمل کیا اور مہتر کے ہوش میں آتے ہی اسکی گود میں نومولو د تھمایا ۔ مبارک باد دی کہ آپکے شکم پاک میں رسولی نہ تھی بلکہ یہ سیاہ گوشت کا لوتھڑا تھا جو جیتا ہے اور سانس لیتا ہے اور چینخنے میں بلاؤں کو مات دیتا ہے ۔ مہتر حیران ہوا پریشان ہوا ۔ حواس باختہ طبیب کی صورت تکنے لگا ۔
طبیب نے سمجھایا ۔ یہ ہے ایک معجزہ جو اللہ جل و شانہ ہزاروں سال میں ایک آدھ بار فرماتا ہے ۔ اے مہتر تو بی بی مریم پہ سبقت لیے جاتا ہے۔ اے مرد مومن یہ بچہ تیرا ہے ۔ تونے جنا ہے ۔ انکاری ہوا تو خدا کی قدرت سے منکر ہوگا ۔ پھر قہر خداوندی تیرے گھر پہ برسے گی کہیں جائے اماں نہ ملے گی ۔
مہتر خاموش ہوا نومولود کو سینے سے لگایااور گھر کی طرف چل پڑا ۔ مار سیاہ چند برس کا ہوا تو والدہ کی بد فطرتی کی طرف مائل ہوا۔ حق ہے کہ خون کا اثر رنگ ہے دکھاتا ۔
اے کتاب چہرہ کے ہمسفرو، ذرا اس ولدالحرام کے کارنامے سنو۔ جب والد اس کا حلال خور سدھارا ملک عدم بے گور و کفن ۔ اس غلام اغلام کو چار روٹی کے لالے پڑے، کھانے لگا ہوٹلوں کے بچے ہوئے کھانے سڑے۔اک روز ملن ہوا ایک بوڑھے دلال سے جسے میسر نہیں تھا لونڈا کئ برسوں سے ۔ بس مانجھتا رہتا تھا زکر عرق سرسوں سے ۔ دیکھا والدالحرام فخرو کو بدحال کھلائ اسے گرما گرم دال اور جلیبیاں لال ۔ پھر چانپا لے جاکر اپنی کوٹھری میں، فخرو ہائے ہائے کرتا رہا ہڑبڑی میں ۔
بعد اس ورزشِ بے اختیار کے دلال نے اٹھایا لونڈے کو للکار کے۔ لگایا آنکھوں میں اس کے سرمہ، کھلائی گلوری احمریں، گلوبند جیسے مرچیں ہری ہری لونڈا فخرو پہنچا دلال کے باڑے میں، یعنی رنڈی پاڑے میں۔ اس طرح فخرو بن گیا خوشیا، اس عرصہ دراز میں حکما نے جانے کتنی بار اس کا معقد سیا۔ تفصیل سے داستان اگلے اقساط میں آوے گی، ابھی شوقِ تجسس بھڑکانا مقصود ہے، نہ رفت ہے نہ بود ہے ۔
زمانہ گزرا، مارالسیاہ نے وہ پنکھ پرزے نکالے کہ انسان تو انسان حیواں بھی اپنا پائے حیرت اپنے ہی منہ میں ڈالے۔کبھی مجلس میں پیوندِ معقد کھجائے کبھی شرم حیا سے عاری بے بضاعت زکر سہلائے ۔ شرفا کی سامنے آئے اور لاحول کی لعنت پائے، غرض لچھن سے علم ہونے لگا کہ یہ لونڈا کسی مردود کے ساتھ ہے سونے لگا۔
وقت کے ساتھ یہ انبارِ بے حیائی کرنے لگا خود ستائی ۔ ڈینگیں وہ پادتا کہ گمگ سے حشرات الارض مارتا۔ اس کے قصے معقد زنی کے ہیں بے شمار، جو خنجر پر رہے ادھار ۔
اے بیٹی بانو ۔ خنجر کی نصیحت مانو اس فخرو مالیشیا عرف فخرالدین عارفی سے بچیو، اور اپنی نئی نویلی جوتی سے اس کی خبر لیجیو ۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply