• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • معذور افراد فری لانسنگ کو ذریعہ معاش بنانے کی کوشش کریں/ثاقب لقمان قریشی

معذور افراد فری لانسنگ کو ذریعہ معاش بنانے کی کوشش کریں/ثاقب لقمان قریشی

پہلی اور دوسری جنگ ِعظیم نے دنیا کو بڑی تباہی سے دوچار کیا۔ مغربی ممالک میں معذور افراد کو جو حقوق حاصل ہیں اسکی سب سے بڑی وجہ بھی یہی جنگیں تھیں۔ جنگوں کے نتیجے میں لاکھوں افراد معذوری کا شکار ہوئے۔ معذوری کا شکار یہ افراد جب گھروں کو لَوٹے تو پتہ چلا کہ آگے تو اندھیرا ہی اندھیرا ہے۔ نوکریاں، رسائی اور برابری کے انسانی حقوق کے نام کی کسی چیز کا وجود ہی نہ تھا۔ جنگوں کے نتیجے میں معذور ہونے والے فوجیوں اور عام افراد نے معذور افراد کے حقوق کی تحریک کی بنیاد رکھی۔ جن کا آغاز احتجاج ہی سے  ہُوا تھا۔

امریکہ کیونکہ ان جنگوں سے باقاعدہ متاثر نہیں ہوا تھا اس لیے امریکہ میں معذور افراد کے حقوق کی تحریک کا آغاز ساٹھ کی دہائی سے شروع ہُوا۔1978ء میں امریکہ میں معذور افراد کے حقوق کے بِل کی ایک شِق پر ملک کے مختلف شہروں میں احتجاج ہُوا۔ یہ احتجاج اٹھائیس دن تک جاری رہا جس کے بعد معذور افراد کے مطالبات کو تسلیم کر لیا گیا۔

معذور افراد کے حقوق کو تسلیم تو کر لیا گیا۔ نوکریوں میں کوٹے بھی دیئے گئے، لیکن مسئلہ ابھی بھی برقرار تھا۔سرکاری نوکریوں کا کوٹہ اتنا نہیں تھا کہ تمام معذور افراد کو نوکریاں فراہم کی جاسکیں۔ دوسری طرف کاروباری طبقہ معذور افراد کو نوکری دینے پر راضی نہ تھا۔ کاروباری طبقات کے خدشات دریافت کرنے کیلئے امریکہ میں مختلف سروے ہوئے۔ جس میں سب سے مشہور سروے “ڈو پونٹ” کا تھا۔ جس میں مختلف شہروں کے کاروباری حضرات سے معذور افراد سے متعلق خدشات اور تحفظات کو اکٹھا کیا گیا۔ پھر نوکری کرنے والے معذور افراد کی پرفارمنس سے ان کا موازنہ کیا گیا۔ جس کے بعد ایک جائزہ رپورٹ پیش کی گئی جس میں بتایا گیا کہ معذور افراد کام کے سلسلے میں کسی بھی طرح عام لوگوں سے پیچھے نہیں ہیں۔

معذور افراد کے حقوق کیلئے کام کرنے والی تنظیمیں ایسا ایک سروے کروا کر کاروباری طبقات کا اعتماد بحال کرسکتی ہیں۔ یہ ساری باتیں میں   پچھلے چھ سات سالوں سے کر رہا ہوں، لیکن معذور افراد کے لیڈروں نے کبھی اس جانب توجہ نہیں دی۔

بیس سال قبل جب میں نے نوکری شروع کی تو وہ دَور کاغذ کا دَور تھا۔ ہر چیز ٹائپ کرنا پڑتی تھی۔ ہر کام کا الگ رجسٹر ہوا کرتا تھا۔ جس کیلئے بہت بھاگ دوڑ کرنا پڑتی تھی۔ پھر سافٹ ویئرز کا دور آیا۔ اس وقت ہمارے ملک کی زیادہ تر کمپنیاں کسی نہ کسی قسم کا سافٹ ویئر استعمال کر رہی ہیں۔ سافٹ ویئرز نے معذور افراد کی زندگی میں بھی بڑی آسانیاں پیدا کی ہیں۔ کمپنیوں کا تمام ڈیٹا انہی پر دستیاب ہوتا ہے۔ جس پر کمپیوٹر پر بیٹھ کر باآسانی کام کیا جاسکتا ہے۔
فری لانسنگ دفتری امور کی ایک نئی جدت ہے۔ جس میں کمپنیاں لمبا چوڑا سٹاف بھرتی کرنے کے بجائے کام کو آؤٹ سورس کر دیتی ہیں۔ کرونا وباء کے دوران لوگ گھروں میں کام کرنے پر مجبور تھے۔ اس دوران فری لانسنگ کے رجحان نے مزید فروغ پایا ہے۔ کمپنیوں نے بھی دیکھا کہ ان کا کام ایسے چل رہا ہے تو انھوں نے دوبارہ آفس کھولنے کی زحمت گورا نہیں کی۔
معذور افراد میں فری لانسنگ کے فروغ کیلئے میں نے بہت سے معذور فری لانسرز کے انٹرویوز کیے۔ انٹرویوز دینے والے فری لانسرز سے میری ایک ہی درخواست ہوتی  ہے کہ برائے مہربانی اپنی سِکل کو دوسرے معذور افراد تک بھی پہنچائیں۔

کچھ عرصہ قبل میں نے حبا طارق کا انٹریو کیا۔ حبا “سپائنل باوفیڈا” کا شکار ہیں۔ حبا گُردوں کے مرض کا شکار بھی ہیں۔ ہفتے میں دو مرتبہ ڈائیلاسس بھی کرواتی ہیں۔ حبا آئی-کام کے بعد رسائی اور بیماری کی وجہ سے تعلیم جاری نہیں رکھ سکیں۔ گرافک ڈیزائننگ اور ڈیجیٹل مارکیٹنگ کے متعدد کورسز کے بعد حبا فری لانسر کے طور پر کام کر رہی ہیں۔ حبہ ایک کمپنی اور حور ویل فیئر کے نام سے ایک این-جی-او بھی چلا رہی ہیں اور بہت اچھا کما رہی ہیں۔

میں نے کامونکی کے ایک نوجوان عالیان کا انٹرویو کیا۔ جو مسکولر ڈسٹرافی کا شکار ہیں۔ جانوروں کی غذا پر ایم-فِل کیا ہے۔ عالیان فری لانسنگ کے ساتھ جانوروں کا کلینک بھی چلا رہے ہیں۔ عالیان معذور نوجوانوں کو فری لانسنگ کی مفت تعلیم بھی دیتے ہیں۔

اسی طرح ٹیکسلا کے ایک معذور فری لانسر سید عمیر کے انٹرویو کا بھی اتفاق ہوا۔ جن کی تعلیم بی-ایس-سی ہے۔ فری لانسر اور موٹیویشنل سپیکر ہیں۔ عمیر کی تقاریر مغربی ممالک میں اتنی مقبول ہیں کہ جرمنی، برطانیہ، امریکہ، آسٹریلیا وغیرہ سے لوگ صرف ان سے ملنے کیلئے پاکستان آچکے ہیں۔

میں ڈھائی سال معذور افراد کے انٹرویوز کرتا رہا ہوں اس لیے میرے پاس ایسی اور بھی مثالیں موجود ہیں۔ انٹرویوز کے دوران مجھے زیادہ تر ایسے معذور افراد ملے جنھوں نے ایک سے زیادہ ایم اے کیے ہوئے تھے لیکن وہ بے روزگار تھے۔ بعض لوگوں کے ساتھ ایسا بھی ہُوا کہ وہ انٹرویو دینے گئے اور انھیں گیٹ سے ہی انکار کر دیا گیا۔

ہمارے ملک کی بزنس کمیونٹی معذور افراد کو نوکری دینے کے حوالے سے شدید تحفظات کا شکار ہے۔ وہ نہیں جانتی کہ معذور شخص کو نوکری دینے سے ملک اور معاشرے کو کتنا فائدہ پہنچ سکتا ہے۔ دوسرا ٹرانسپورٹ، رسائی اور قابل رسائی باتھ روم ایسے مسائل ہیں جو نوکری ملنے کے بعد بھی معذور افراد کا پیچھا نہیں چھوڑتے۔

آنے والے دس بیس سالوں میں نوکری کرنے کا طریقہ کار تبدیل ہونے والا ہے۔ دفتروں کے زیادہ تر کام فری لانسنگ کی ویب سائٹس پر ملا کریں گے۔ جس میں معذور افراد کیلئے روزگار کے مواقعے بڑھنے کے امکانات ہونگے۔

معذور افراد کو چاہیے کہ وہ تعلیم کے ساتھ فری لانسنگ کی کسی سکل کو ڈیویلپ کرنے کی کوشش کریں۔ ڈی-جی-سکل کے نام سے ایک سرکاری ویب سائٹ مفت میں فری لانسنگ کے کورس کروا رہی ہے۔ اسکے علاوہ سوشل میڈیا پر بہت سے معذور فری لانسرز اپنی کمیونٹی کو مفت میں کورسز کروانے کا اہتمام کرتی رہتی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

گھر سے باہر نکلنا، دفتر جا کر نوکری کرنا ہر معذور شخص کا بنیادی انسانی حق ہے۔ لیکن اگر معاشرہ یہ حق نہیں بھی دے رہا تو ٹائم ضائع کرنے کے بجائے ہنر حاصل کیا جائے اور فری لانسنگ کی دنیا میں قدم رکھا جائے۔ آنے والا دور مصنوعی ذہانت اور فری لانسنگ کا دور ہے جس سے ہمیں بھر پور فائدہ اٹھانا چاہیے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply