کیا پاکستان کا دستور ’کفریہ‘ ہے؟ (1)-محمد مشتاق

پچھلے مباحث کی روشنی میں جب ہم پاکستان کی مخصوص صورتحال پر نظر ڈالتے ہیں تو چند نتائج بدیہی طور پر سامنے آجاتے ہیں:
اولاً : پاکستان دار الاسلام ہے۔
 پاکستان میں شامل علاقے یقیناًدار الاسلام کی تعریف پر پورا اترتے ہیں۔ یہاں کی آبادی کی غالب اکثریت مسلمان ہے جنہوں نے باہمی معاہدے کے ذریعے یہ بھی طے کیا ہوا ہے کہ ان کا سربراہ مسلمان ہوگا۔ اگر بعض لوگوں کے خیال میں اس معاہدے کی بعض شقیں یا دیگر قوانین کی بعض جزئیات ’’ ظہور احکام کفر ‘‘ کے ضمن میں آتی ہیں تو اس کے باوجود دار الاسلام کے دار الکفر میں تبدیل ہونے کے لیے جو دو مزید شرطیں درکار ہیں وہ یہاں نہیں پائی جاتیں۔ یہاں غلبہ اور قہر مسلمانوں کا ہے جس کی وجہ سے یہ علاقہ مسلمانوں کو ہی منسوب ہے اور دار الکفر کی متاخمت کی شرط بھی بدیہی طور پر مفقود ہے۔ ان امور کی مزید وضاحت کے لیے درج ذیل نکات پر غور کریں:

پہلی دستور ساز اسمبلی نے ۱۹۴۹ء میں قراردادِ مقاصد منظور کی جس کی رو سے یہ طے پایا کہ پاکستان میں اسلامی قانون کو بالادستی حاصل ہوگی۔ اس قرارداد کے ذریعے پاکستان کے دستوری نظام کے بنیادی مقاصد کا تعین کیا گیا۔ یہ قرارداد پاکستان کے تینوں دساتیر ۱۹۵۶ء، ۱۹۶۲ء اور ۱۹۷۳ ء میں دیباچے کے طور پر شامل کی گئی۔ پھر ۱۹۷۳ء کے دستور میں آٹھویں ترمیم کے ذریعے ۱۹۸۵ء میں اسے دفعہ ۲۔ الف کے تحت دستور کا باقاعدہ حصہ بنا دیا گیا۔ اعلی عدالتوں نے کئی فیصلوں میں اس قرارداد کو انتہائی مقدس دستاویز قرار دیا ہے یہاں تک کہ دستور سے انحراف کے دور میں بھی قراردادِ مقاصد کو ناقابلِ تنسیخ و تعطیل سمجھا گیا اور اسی بنا پر عاصمہ جیلانی کیس ۱۹۷۲ء میں قرار دیا گیا کہ مارشل لا کا نظام ناجائز ہے اور حکومت کو مجبور کیا گیا کہ وہ مارشل لا ختم کرکے دستوری نظام بحال کرلے۔

پاکستان کے تمام مکاتبِ فکر کے جید علماے کرام نے ۱۹۵۲ ء میں دستور کی اسلامی حیثیت ماننے کے لیے بائیس نکات دیے۔ پاکستان میں تمام دساتیر میں ان بائیس نکات کی روشنی میں اسلامی دفعات شامل کی گئیں۔ مثال کے طور پر سربراہِ ریاست کے لیے مسلمان ہونے کی شرط ضروری قرار دی گئی ہے۔ ۱۹۷۴ ء میں دستوری ترمیم کے ذریعے ’’مسلمان ‘‘ کی تعریف بھی دستور میں شامل کی گئی جس کے تحت نہ صرف قادیانی بلکہ بہائی بھی غیر مسلم قرار پائے۔ دستور کی دفعہ ۲ کے تحت قرار دیا گیا ہے کہ اسلام پاکستان کا ’’ریاستی مذہب‘‘ہے۔ دفعہ ۲۲۷ کے تحت قرار دیا گیا ہے کہ تمام قوانین کو اسلامی شریعت کے مطابق کیا جائے گا اور تمام غیر اسلامی قوانین ختم کردیے جائیں گے۔ اس مقصد کے لیے پارلیمنٹ کی رہنمائی کے لیے اسلامی نظریاتی کونسل بھی تشکیل دی گئی ہے۔
جب ۱۹۷۷ء میں مارشل لا آیا تو اس کے بعد پہلے عدالت ہاے عالیہ میں شریعت بنچ قائم کیے گئے، بعد میں یہ بنچ ختم کرکے ان کی جگہ وفاقی شرعی عدالت قائم کی گئی جسے یہ اختیار دیا گیا کہ وہ اسلامی شریعت سے متصادم قوانین کو تصادم کی حد تک کالعدم قرار دے۔ وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کے خلاف جب سپریم کورٹ میں اپیل کی جاتی ہے تو اس کی سماعت کے لیے خصوصی شریعت اپیلیٹ بنچ قائم کی گئی ہے۔ وفاقی شرعی عدالت اور شریعت اپیلیٹ بنچ دونوں میں علما جج بھی تعینات کیے جاتے ہیں۔ واضح رہے کہ اگر وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کے خلاف اپیل نہ ہو تو پھر اس فیصلے کی پابندی سپریم کورٹ پر بھی لازم ہوتی ہے۔

وفاقی شرعی عدالت کے دائرۂ اختیار سے ابتدا ( ۱۹۸۰ ء ) میں چار قوانین خارج کیے گئے:
الف۔ دستور
ب۔ عدالتوں کے طریقِ کار سے متعلق قوانین
ج۔ مسلم شخصی قوانین اور
د۔ مالیاتی امور سے متعلق قوانین۔

یہ ایک انتظامی قسم کا فیصلہ تھا اور اس سے مراد یہ ہر گز نہیں کہ یہ قوانین شریعت پر بالادست ہیں۔ نیز ان استثناء ات کی تعبیر وفاقی شرعی عدالت اور سپریم کورٹ نے اس طور پر کی ہے کہ بہت ہی کم قوانین اب ان استثناء ات کے ذیل میں آتے ہیں۔ مثال کے طور پر ملکیتِ زمین کی تحدید کے مسئلے کو ابتدا میں وفاقی شرعی عدالت کے دائرۂ سماعت سے باہر قرار دیا گیا کیونکہ زمینی اصلاحات کو ایک قسم کا دستوری تحفظ حاصل تھا۔ تاہم قزلباش کیس (۱۹۸۹ء ) میں سپریم کورٹ کی شریعت اپیلیٹ بنچ نے اس خیال کو مسترد کردیا۔ اسی طرح شفعہ سے متعلق قانون کو ابتدا میں عدالتی طریقِ کار سے متعلق قوانین میں شامل سمجھا گیا لیکن سید کمال شاہ کیس ( ۱۹۸۶ء ) میں اس کی نفی کی گئی۔ مسماۃ فرشتہ کیس ( ۱۹۸۰ ء ) میں شخصی قوانین کی ایسی تعریف پیش کی گئی جس کی رو سے مسلم عائلی قوانین آرڈی نینس ۱۹۶۱ء بھی وفاقی شرعی عدالت کے دائرۂ سماعت سے باہر سمجھا گیا۔ تاہم ڈاکٹر محمود الرحمان فیصل کیس ( ۱۹۹۳ ء ) میں سپریم کورٹ نے شخصی قوانین کی ایک اور تعریف پیش کی جس کے بعد یہ آرڈی نینس وفاقی شرعی عدالت کے دائرۂ سماعت میں آگیا اور اس نے اللہ رکھا کیس ( ۲۰۰۰ ء ) میں اس کی کئی شقوں کو اسلامی شریعت سے متصادم قرار دیا۔ اس فیصلے کے خلاف اپیل کا فیصلہ ابھی نہیں ہوسکا ہے۔ مالیاتی امور سے متعلق قوانین کو ابتدا میں ۲ سال، پھر ۵ سال اور پھر ۱۰ سال کے لیے وفاقی شرعی عدالت کے دائرۂ سماعت سے باہر کیا گیا۔ یہ مدت ۱۹۹۰ء میں پوری ہوچکی ہے۔ اس لیے عدالت اب ان قوانین کا جائزہ لے سکتی ہے۔ نیز اس دوران میں عدالت نے اس اصطلاح کی ایسی تعبیر پیش کی جس کی رو سے کئی قوانین مالیاتی قوانین کی تعریف سے باہر ہوکر عدالت کے دائرۂ سماعت میں آگئے۔

پاکستان کے حکمرانوں اور عدالتوں کے فیصلوں کی شرعی حیثیت کے متعلق ایک اہم دستاویز وہ فتوی ہے جس کا اصل موضوع تو رویتِ ہلال کا مسئلہ تھا لیکن اس سے زیر بحث مسئلے میں بھی نہایت واضح اور دو ٹوک رہنمائی حاصل ہوتی ہے۔ قیامِ پاکستان کے بعد رویتِ ہلال کے سلسلے میں عمومی اتفاق قائم کرنے کی ایک اہم کوشش مولانا مفتی محمد شفیع نے کی۔ انھوں نے پہلے ایک سوالنامہ مرتب کرکے ہند و پاک کے ممتاز علما کے پاس بھجوایا۔ پھر ستمبر ۱۹۵۴ء میں قاسم العلوم ملتان میں جید علماے کرام کا ایک اہم اجتماع منعقد کرایا جس میں دو دن کے تفصیلی مباحثہ کے بعد ’’زبدة المقال في رؤیة الهلال‘‘ کے عنوان سے ایک متفقہ فتویٰ تیار کیا گیا۔ اس فتوے میں پاکستانی حکومت کے فیصلوں کی شرعی حیثیت کے متعلق جو سوالات قائم کیے گئے ہیں اور ان کے جو جوابات دیے گئے ہیں، وہ زیر بحث مسئلے میں قولِ فیصل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اس لیے یہاں اس فتوے سے چند اقتباسات پیش کیے جاتے ہیں۔ پاکستانی حکمرانوں اور عدالتوں کی شرعی حیثیت کے تعین کے لیے اس فتوے میں تین سوالات قائم کیے گئے:

پہلا سوال یہ ہے کہ جو شخص قوت کے بل بوتے پر اقتدار پر غالب ہوجائے اوار ارباب حل و عقد اس کی حکمرانی پر راضی نہ ہوں کیا اس کی حکومت صحیح ہے اور اس کی جانب سے قاضیوں کی تقرری جائز ہے ؟
دوسرا سوال یہ ہے کہ کیا فاسق قضا کے لیے اہل ہے ؟
تیسرا سوال یہ ہے کہ احکامِ شرعیہ سے عدم واقفیت کسی قاضی کی اہلیت قضا ختم کردیتی ہے ؟

ان میں پہلے سوال کا جواب یہ دیا گیا ہے کہ اگرچہ احادیث نبویہ اور عبارات فقہیہ کے بموجب اصولاً حکمران کا ارباب حل و عقد کے مشورے سے مقرر کرنا ضروری ہے، لیکن اس کے باوجود اگر کوئی شخص طاقت کے بل بوتے پر حکومت پر قابض ہوجائے تو جائز امور میں اس کی اطاعت سب مسلمانوں پر واجب ہوتی ہے اور اس کی ماتحتی میں قضا اور دیگر مناصب کی ذمہ داری قبول کرنا جائز ہوتا ہے، خواہ مسلمانوں کے اہل علم میں کسی ایک نے بھی اس کی بیعت نہ کی ہو، جب تک کہ وہ کفر بواح کا مرتکب نہ ہوجائے۔ اس کے بعد پاکستان کے حکمرانوں کے تناظر میں لکھا گیا ہے کہ پاکستان میں حکام کئی معاملات میں شرعی قوانین پر عمل کرسکتے ہیں اور اس قسم کے فیصلے شرعاً صحیح اور نافذ ہوں گے کیونکہ قاضی کے ہر فیصلہ کا شرعی حکم الگ ہے ( بعض صحیح اور نافذ ہوں گے اور بعض غیر صحیح اور غیر نافذ ہوں گے )۔

دوسرے سوال کے جواب میں واضح کیا گیا ہے کہ فقہاء کے نزدیک قضا کے لیے عدل شرط جواز نہیں بلکہ شرط اولوی ہے، یعنی اس صفت کا قاضی میں موجود ہونا بہتر ہے اگرچہ اس کے بغیر بھی قاضی کے منصب پر تعیناتی جائز ہے۔ یہاں ابنِ عابدین کا یہ قول نقل کیا گیا ہے کہ اگر یہ بات مان لی گئی کہ فاسق قضا کا اہل نہیں ہے تو بالخصوص ہمارے دور میں قضا کا کام سرے سے ناممکن ہوجائے گا۔ اس کے بعد ابن الہمام کا یہ قول نقل کیا گیا ہے کہ جسے سلطان کی جانب سے قضا کا منصب سونپ دیا گیا اس کے فیصلے نافذ ہوں گے خواہ وہ جاہل یا فاسق ہو۔ البتہ ایسے قاضی کو دوسروں کے فتویٰ پر فیصلہ دینا چاہیے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

تیسرے سوال کے جواب میں پھر ابن الہمام کے مذکورہ بالا قول کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جس میں صراحتاً قرار دیا گیا ہے کہ جاہل کے فیصلے نافذ ہوں گے۔
واضح رہے کہ یہ فیصلہ ان علماے کرام نے ۱۹۵۴ء میں اس وقت دیا تھا جب ابھی پاکستان کا پہلا دستور بھی نہیں لکھا گیا تھا۔ ۱۹۵۶ء میں پاکستان نے دستوری طور پر ’’اسلامی ریاست‘‘ ہونے کا اعلان کرلیا اور قرار دیا کہ پاکستان میں تمام قوانین اسلامی احکام کے مطابق ہوں گے۔ ۱۹۶۲ء کے دستور میں اس عزم کا اعادہ کیا گیا اور قوانین کو اسلامیانے کے لیے دو ادارے اسلامی مشاورتی کونسل اور ادارۂ تحقیقات اسلامی تشکیل دیے گئے۔ ۱۹۷۳ء کے دستور میں مزید اسلامی دفعات کا اضافہ کیا گیا اور ۱۹۷۴ء میں ایک دستوری ترمیم کے ذریعے دستور میں ’’ مسلمان ‘‘ کی تعریف بھی داخل کی گئی جس کی رو سے ختم نبوت کے منکرین غیر مسلم قرار پائے۔ ۱۹۷۷ء کے انقلاب کے بعد بڑے پیمانے پر قوانین میں تبدیلیاں لائی گئیں اور کئی قوانین کو اسلامی شریعت کے سانچے میں ڈھالنے کی کوششیں کی گئیں۔ وفاقی شرعی عدالت اور سپریم کورٹ کی شریعت اپیلیٹ بنچ کے علاوہ سپریم کورٹ اور عدالت ہاے عالیہ نے پچھلے چونسٹھ برسوں میں کئی اہم فیصلے دیے جنھوں نے پاکستان کے قانونی نظام کے اسلامی تشخص کو محفوظ رکھنے میں اہم کردار ادا کیا۔ پس اس امر میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ پاکستان دار الاسلام ہے۔
جاری ہے

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply