خیال قلمبند، سوچ گہری اب نہیں پسند/حسین خالد مرزا

میرے سے اکثر فیزان پوچھتا ہے کہ حسین بھائی کبھی ایسا ہوا کہ رات کو اچانک سے خواب دیکھا ہو اور اُٹھتے ساتھ ہی لکھنا شروع کر دیا ہو؟ ایسا یاد تو نہیں پڑھتا کہ کبھی ایسا ہوا ہوا ہو مگر ایسا اکثر ہوتا کہ جب سونے کے لیئے آنکھ بند کرتا ہوں تو بیشر خیالات گھیر لیتے ہیں۔ آج جوش چڑھا ہے لکھنے کا، سوچتا ہوں کہ مدعا بیان کروں کہ حسرت!
آج میرے خیال سے حسرت کو ترجیح دی جائے تو بہتر ہے۔ باوجود یہ کہ دل میں اب بھی ہزاروں تمنائیں زندہ ہیں۔ کبھی پلٹ کے دیکھ کر زندگی کو دوبارہ جینے کو دل کرتا ہے تو کبھی یہ چاہتا ہے کہ بس اب کی بار اب آگے کا سوچا جائے۔ چونکہ پہلی والی بات تو ممکن ہے نہیں اس لیئے بہتر ہے کہ وہ لکھا جائے کہ خیال کہ مزید پنیپنے کی خواہش رہ جائے ۔
خیال میں اک غلام آیا تھا،جسے اُس کا مالک اس کی برابری کی سطح پر آنے کی تلقین کررہا ہوتا ہے۔اب یہ بات تھوڑی سی وضاحت طلب ہے۔ مثال کے طور پر مالک کسی دوشیزہ کے ہمراہ ہے۔ اب وہ جس حالت مدہوشی میں ہے، وہ اپنے غلام کو ذائقہ چکھا کر اپنے بڑے ہونے کے جذبے کو مطمئین کرنا چاہتا ہے۔ بہت منع کرتا ہے غلام! مگر جب اس میں چاہ اور طمع جاگتی ہے تو بس مالک کے اسرار پر اپنی تسکین کی پیاس بھُجانے کو آگے بڑھتا ہے۔ چہرے پر خوشی خوشی کے تاثرات ظاھر کرتا ہے جیسے اکثر نئیر اعجاز اپنی اکثر فلموں میں کرتا ہے۔ وہی! جس نے ایکٹر ان لا میں بھی کام کیا ہے۔
بس پھر جیسے ہی قدم بیچارے غریب انسان کا اگے بڑھتا ہے۔ مالک کی بھی آنکھوں کی رنگت تھوڑی بدلنے لگتی ہے۔ بس ابھی زیادہ دیر نہیں گزرتی، کہ اوپر سے کوئی بندوق چلاتا ہے اور سیدھا غلام کی کھوپڑی میں کا کر لگتی ہے۔ جس نے گولی ماری ہوتی ہے، مالک اسے بہت ہی موافقت والے انداے میں کہتا ہے کہ یار ابھی ٹھہر تو جاتا۔ ابھی تو اس کو بدلتا دیکھنا تھا!
اب یہ تھا خیال، ساتھ میں منظر ایک بڑے سے گھر کا تھا جس کا ڈرائینگ روم بڑا سجا ہوا سا ہے اور اوپر کو ایک منزل اور بھی ہے۔ اس کے علاوہ آخری کردار تو سامنے تب آتا ہے جب گولی لگ کر ایک بندہ مر جاتا ہے۔
اکثر خیالات ذہن میں گھومتے رہتے ہیں۔ مگر فیزان کو تو میں نے کہہ دیا تھا کہ جب تک آپ کسی ایک خیال کو اچھے انجام تک نہیں پہنچا دیتے۔ جسے عام عوام سمجھ سکے تب تک اس کا تعاقب کرنا، چند پہلوؤں کو مدنظر رکھتے ہوئے اچھا ہے۔
کچھ کہانیاں سبق دے جاتی ہیں اور کچھ سوچ، مگر اکثر انجام مکمل نہیں ہوتاٴ لیکن قارئین بھی اتنے نا سمجھ نہیں کہ الفاظ میں چھپے مطلب کو نہ سمجھ سکیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply