یہ پالا ہے/ڈاکٹر مجاہد مرزا

اس نام سے لکھی ایک مختصر کتاب کو لکھنے والے نے سوانحی ناول کہا ہے۔ مجھے بہت زیادہ شک ہے کہ یہ سوانحی کتاب ہے اور ناول تو میں اسے مانوں گا ہی نہیں کہ ہئیت کے حوالے سے یہ افسانوں کا تسلسل لگتا ہے جسے وڈیو کی اصطلاح میں سیریل کہا جاتا ہے۔ ناول بہت زیادہ گندھا ہوا اور وسیع تر کینوس پر لفظوں سے مصور کیا گیا پیچیدہ سلسلہ ہوتا ہے جسے کہیں توڑا جاتا ہے تو کہیں دوسرے سرے کے ساتھ جوڑا جاتا ہے مگر یہ کتاب نہ ناول ہے نہ ناولٹ۔

اسے پڑھتے ہوئے مجھے ” تن تارارارا ” نام کا ناولٹ یاد آیا جو میں نے نصف صدی پہلے پڑھا تھا جسے رحیم گل صاحب نے تحریر فرمایا تھا، تب وہ ناول بھی لگا تھا اور پرکیف تحریر بھی۔ تن تارارا کا اگر ” یہ پالا ہے ” سے کوئی تعلق ہے تو تحریر کا انتہائی سادہ پن، پھر مجھے منشی پریم چندر کی تحاریر یاد آئیں جو ایک حد تک مماثل لگیں، ساتھ ہی کرشن چندر کے بچوں کے لیے لکھے ناول یاد آئے مگر وہ تو پروپیگنڈہ ناول ہوتے تھے۔ کرشن چندر صاحب سوشلسٹ تھے نا۔

عارف خٹک سوشلسٹ نہیں ہے سچ پوچھو تو جتنا میں اسے جانتا ہوں اور بہت ہی کم جانتا ہوں وہ کچھ بھی نہیں ہے البتہ ایک دردمند اور اچھا انسان ہے جو محبت میں ڈرانے سے بھی باز نہیں آتا، جب اس نے رات کے ندھیرے میں کراچی کے سڑکوں پر گاڑی چلاتے ہوئے ساتھ والی نشست پہ متمکن مجاہد مرزا سے کہا، “سر ایک آنکھ تو بالکل نہیں دیکھتی، دوسری کی بینائی بھی خاصی کم ہے مگر آپ گھبرائیں نہیں میں گاڑی پھر بھی بہت اچھی چلا لیتا ہوں “۔ یا تو میں گاڑی رکواتا اور گاڑی سے باہرنکل جاتا یا پھر اس کی کہی بات کو جھوٹ سمجھ کے بیٹھا رہتا جو میں نے کیا۔

اب عارف خٹک کی یہ دوسری کتاب جب نظر سے گذری تو مجھے اپنا سب سے پہلے لکھا افسانہ “پہلے باٹا پھر اسکول ” یاد آ گیا جو کراچی سے شائع ہونے والے مجلہ ” الفتح ” میں شائع ہوا تھا۔ اس افسانہ میں ایک آٹھ سال کا بچہ متکلم تھا۔ بہت بعد میں میں نے جانا کہ یہ خٰیالات اس بچے کے نہیں تھے میرے تھے جو میں نے اس کی زبان میں بیان کیے۔ عارف خٹک کے اس افسانوی تسلسل کا “میر ” بھی دراصل وہی زبان بولتا ہے جو خود عارف خٹک نے آج کل اپنائی ہوئی ہے وہ جو عام ہو چکی جس میں انکار کو منع کہا جاتا ہے اور اس بات پہ یہ تو بنتا ہے کہا جاتا ہے۔

بچہ جو اس کتاب میں ہے وہ عارف خٹک ہرگز نہیں لگتا مگر اس کی روح میں 2022 کا عارف خٹک حلول کیے ہوئے ہے جو جب خود بچہ تھا تو میر ہی تھا جس کو بہت سالوں بعد عارف خٹک نے حساس شعور دیا۔

Advertisements
julia rana solicitors

میں نے بچوں کے لیے لکھا ہوا یہ افسانوی تسلسل، جسے بڑے بھی پڑھ سکتے ہیں یا شاید عارف خٹک کے خیال میں بڑوں کے لیے لکھا گیا سوانحی ناول جسے بچے بھی پڑھ سکتے ہیں، ایک ہی نشست میں پڑھ ڈالا، رات ایک بج کر سینتالیس منٹ پہ ختم کرکے اپنی نیند خراب کی مگر اطمینان تھا کہ عارف خٹک اس کتاب کے “میر ” کو اپنی موجودہ عمر تک پہنچاتے اور اس کے بعد کی عمر کا ذکر کرتے کرتے اگر ابن صفی کی طرح سو سوا سو کتابیں نہ بھی لکھے تو گیارہ بارہ ضرور لکھ ڈالے گا جو اسی طرح ایک نشست میں پڑھی جانے والی ” ڈائجسٹ بکس “ہوں گی، سہل، زودہضم اور لذیذ، انشااللہ۔

Facebook Comments

ڈاکٹر مجاہد مرزا
ڈاکٹر مجاہد مرزا معروف مصنف اور تجزیہ نگار ہیں۔ آپ وائس آف رشیا اور روس کی بین الاقوامی اطلاعاتی ایجنسی "سپتنک" سے وابستہ رہے۔ سماج اور تاریخ آپکے پسندیدہ موضوع ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply