چین ،روس تعلقات اور خطرے کی گھنٹی/محمد وقار اسلم

انسان جس قدر ترقی یافتہ ہوجائیں یا ٹیکنالوجی اپنی آخری حدوں کو چھولے پھر بھی جنگ کا ابدی تعلق رہا ہے اور کسی نا کسی موڑ پر جنگی جنون گھیر ہی لیتا ہے۔ چین اور روس کے تعلقات بظاہر بہتر دکھائی دے رہے ہیں پر عالمی منظرنامے پر دیکھا جائے تو یہ چین کے لئے نقصان دہ ثابت ہو سکتے ہیں۔اپنی بقا کیلئے،طاقت کے حصول کیلئے،بابیل قابیل اور غاروں میں رہنے والوں کی طرح ہم ایک دوسرے کو قتل کرنے سے باز نہیں آسکتے،یہ انسان کی سرشت میں شامل ہے۔رواں صدی کے آغاز میں دوبڑی عالمی جنگیں دیکھنے کے بعد نئی نسل کیلئے ناگزیر ہے کہ وہ بھی جنگ دیکھے گی۔لیکن یہ کوئی نہیں جانتا کہ کب ایسا ہوجائے۔ آنے والے چند سالوں میں عین ممکن ہے کہ ہم بھی اپنی آنکھوں سے جنگ دیکھ لیں۔ہوسکتا ہے وہ کوئی علاقائی جنگ ہویا پھر تمام قوام عالم پر اس کا اثر پڑے، یوکرین اور روس جنگ بھی ایک طوالت اختیار کر چکی ہے نیٹو ممالک، امریکا، یورپ جہاں اس کی مذمت کر رہے ہیں وہیں چین ،روس کا ساتھ دیتا دکھائی دے رہا ہے مگر یہ کوئی نہیں جانتا کہ یہ ساتھ کب تک رہے۔شام میں جو صورتحال چلتی رہی ہے وہ کسی بڑی جنگ سے کم نہیں لیکن اس کے علاوہ بھی مسلسل چلتے تنازعات کتنے ہولناک ہوسکتے ہیں،یہ کوئی نہیں جانتا۔

سپر پاورکا اپنے دھند لکوں کی جانب سے سفر جاری ہے۔ہر عروج کو زوال ہے،کوئی نئی طاقت دنیا پر غلبہ پانے کوہے۔فی الوقت یورال کے پہاڑوں کی سرحدوں پر چین اورروس اپنی طاقتیں جمع کرنے میں مصروف ہیں۔دونوں بڑی فوجیں رکھتے ہیں،جو ہر ی طاقت سے لیس ہیں اور توسیع پسندانہ عزائم رکھتے ہیں ۔ فی الحال تو ایک دوسرے کی حمایت میں دکھائی دیتے ہیں لیکن حالات کی کساد بازاری کسی بڑی تبدیلی کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتی ہے۔دونوں ہی سائبر یا پر اپنے حق کا دعویٰ کرتے ہیں۔وسائل سے مالا مال غیر گنجان آباد علاقہ، جو رقبے میں گیڈا سے بھی بڑا ہے،طویل عرصے سے چین کی نظروں میں ہے۔کچھ سال قبل چین نے زبردستی روس سے سائبیرین زمین خریدنے کی کوشش بھی کی۔بیجنگ سائبیر یا کے کم از کم مشرقی حصے پرتاریخی لحاظ سے اپنا حق سمجھتا ہے اور بہت سے چینی روسی سرحدپر آباد ہیں۔البتہ کریملن،ماسکو کا قلعہ جو روس کا مرکزی حصار ہے۔وہاں سے تنازع  شروع ہوتا ہے۔اگر سائبر یا کو تنازع  بنا کر کبھی چین اور روس کے مابین جنگ ہوئی تو وہ بے حد المناک ہو گی۔اس کے صرف دو نتائج ہوسکتے ہیں۔ یا تو چینی فوج روس کو برباد کر دے گی یا پھر ماسکو ایٹمی جنگ سے اجتناب نہیں برتے گا،بہر حال دونوں صورتوں میں مرنے والوں کی تعداد تبا ہ کن ہوگی ۔ روس اور یوکرین لڑائی میں جہاں پیوٹن اور شی جن پنگ ایک پیج پر دکھائی دئیے وہیں پر یوکرائن کے صدر زیلنسکی کا دورہ واشنگٹن معنی خیز رہا۔ چین اس وقت مغربی ممالک کی جانب اپنی رغبت بڑھا رہا ہے اور پالیسی میں یکمشت تبدیلی دیکھنے کو مل سکتی ہے۔ روس کی جانب سے BRI پر تعاون سمیت متعدد پروجیکٹس پائپ لائن میں ہیں مفادات ہی ہیں جو انہیں اکٹھے رکھ رہے ہیں تاہم وقت کی کروٹ ان تعلقات میں سقم پیدا کر سکتی ہے۔

چین میں تقافتی انقلاب کا دور1966ء سے لے کر 1976ء تک کے اس عرصے کو کہتے ہیں جس کا آغاز اس وقت کے رہنما ماؤ زے تنگ نے اپنی طاقت کے اظہار کے لیے کیا تھا۔ثقافتی انقلاب کے آغاز سے قبل ماؤزے تنگ کی،آگے کی طرف عظیم چھلانگ’کی پالیسی کے تباہ کن اثرات کے باعث کئی مرتبہ قحط دیکھنے میں آئے تھے اورلاتعداد شہریوں کو ایسے المیوں سے گزرنا پڑھ تھا کہ پورے کا پورا چینی معاشروہ بدنظمی اورانتشار کا شکا ہوگیا تھا۔

اس دور میں‘‘ریڈ گارڈ’’میں شامل نوجوانوں نے اپنے بڑوں،پارٹی عہدیداروں،دانشوروں،ہمسایوں اوررشتہ داروں تک کا اس طرح استحصال کیا تھا کہ انہیں کھینچ کھینچ کر ان اجلاسوں میں لے جایا جاتا تھا۔جدوجہد کے لیے نشتیں کہلاتے تھے۔اس کے علاوہ لوگوں کے گھروں پر حملے بھی کیے جاتے تھے اور بہت سے متاثرین تو خودکشی پر بھی مجبور ہوگئے تھے۔

ثقافتی انقلاب کے دور میں جن افراد کو نشانہ بنایا گیا،ان میں سے بہت سے جیلوں میں ڈال دیے گئے یا ہلاک کردیے گئے۔اس بارے میں چین میں ابھی تک کوئی سرکاری اعدادو شمار میسر نہیں ہیں۔ایک مغربی مؤرخ کا اندازہ ہے کہ اس دوران صرف1967ء میں تقریباً پندرہ لاکھ لوگ مارے گئے۔لاکھوں لوگوں کو تشدد کا نشانہ بنایاگیا اوران کی تذلیل کی گئی۔جس کے نتیجے میں سماجی،اقتصادی اورسیاسی بے چینی نے جنم لیا۔چین کی تاریخ بغاوتوں کی ایک طویل تاریخ رکھتی ہے۔ماؤزے آٹھ ملین لوگوں کو ہلاک کرنے کے بعد اقتدار میں آیا تھا۔چند دہائیاں قبل باکسر بغاوت میں ایک لاکھ سے زائد ہلاکتیں ہوئی تھیں۔اس سے بھی پہلے تائپنگ بغاوت میں بھی بیس سے ستر لاکھ لوگ مارے گئے تھے۔ اب چین ایک نئے معاشی ہیجان سے گزر رہا ہے اور کرونا وائرس سے ایک بڑے پیمانے پر نقصان کا سامنا کر چکا ہے، روس سے اس کے مفادات ہیں اور یہ نہیں چاہتا کہ اہم مواقع گنوا بیٹھے۔ یورپی ممالک سے تعلقات کی بڑھوتری کے لئے شاید چین کو روس سے کچھ معاہدات پر نظر ثانی کرنا پڑے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اس تاریخی پس منظر کو سامنے رکھتے ہوئے چین میں ایک نیا ثقافتی انقلاب ناممکن نہیں ہے۔چین میں پہلے ہی روزانہ کی بنیاد پر پانچ سو سے زائد احتجاج ہوتے ہیں۔ہر سال لگ بھیگ ایک لاکھ فسادات پھوٹے پڑتے ہیں۔رہنما بدعنوان ہیں۔نوجوان ایک نئی بغاوت کے متعلق سوچتے ہیں۔اگر آئندہ مالی بحران اس کے معیار زندگی کونیچے لے آیا تو دنیا کو خون ریزی کی ایک اور لہر دیکھنے کو ملے گی اور یہ بھی دیکھا جا سکتا ہے کہ آج کے دوست کل کے دشمن بن جائیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply