• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • آخر پاکستان میں مباشرت یا جنسی صحت پر بات کرنا غلط کیوں سمجھا جاتا ہے؟۔دُرین انور

آخر پاکستان میں مباشرت یا جنسی صحت پر بات کرنا غلط کیوں سمجھا جاتا ہے؟۔دُرین انور

ابھی کچھ دن پہلے میری ایک دوست STI (sexually transmitted infection)کا شکار ہوئی۔ انتہائی تکلیف اور کوفت میں ہونے کے باوجود اُس کو اپنے شوہر سے یہ پوچھتے ہوئے  شرم آرہی تھی کہ آخر اُس کو یہ انفیکشن کہاں سے لگا؟ یہ تو شکر ہوا کہ ڈاکٹر کو دکھانے کے بعد اُس کو پتہ چلا کہ وہ ایک عام انفیکشن تھا جس کی وجہ ذیابطیس تھی۔ لیکن اس سارے وقت مجھے یہ حیرانی ہوئی کہ میری دوست اپنی جنسی صحت سے کتنی لاپرواہ تھی۔
پہلے تو وہ بضد تھی کہ اُسے STI ہو ہی نہیں سکتا  کیونکہ اُس کا میاں تو بالکل ٹھیک نظر آتا ہے جبکہ اکثر اس طرح کی بیماریوں میں مریض کو اکثر علامات کلا پتہ نہیں چلتا، اور دوسرا جب اُس نے اپنے  میاں سے بات کر بھی لی تب بھی اُسے  یہ لگتا تھا کہ اُس کے شوہر کو انفیکشن باتھ روم سے لگا ہوگا۔ ایسا پہلی دفعہ نہیں تھا کہ میرا سامنا کسی پڑھے لکھے انسان کی ایسی بچگانہ سوچ سے ہوا ہو۔۔ ہمارے معاشرے میں اکثر پڑھے لکھے لوگوں کو بھی ایسا لگتا ہے کہ STI،HIV یا شوگر جیسی بیماریاں باتھ روم کے فلش سے لگتی ہیں۔

اب اتنے عرصے تک UKکے ہیلتھ سیکٹر میں کام کرنے کے بعد مجھے احساس ہوتا ہے کہ ہم نے اپنے بچوں کو جنسی تعلیم نہ  دے کر اُن پر کتنا بڑا ظلم کیا ہے۔ میں خاص طور پر اُن لوگوں سے مخاطب ہوں جن کا یہ کہنا ہے کہ پاکستان کے نوجوان شادی سے پہلے جنسی تعلقات میں نہیں پڑتے اس لیے اُنہیں جنسی تعلیم یا سیکس ایجوکیشن کی ضرورت نہیں ہے۔
یہاں UK میں ایسی تعلیم کو جنسی تعلیم کسی خاص مقصد کے تحت کہا جاتا ہے۔ چلو مان لیا کہ پاکستان کے بچے شادی سے پہلے جنسی تعلقات نہیں بناتے لیکن یہ بھی تو مانیے کہ تجربے کے نام پر پاکستانی نوجوان کس حد تک جاتے ہیں۔ اور خطرہ تو ہر انسان کے ساتھ لگا پڑا ہے چاہے وہ تعلق شادی تک جانے والا ہو یا صرف ٹائم پاس۔اور چاہے نہ  کرتے ہوں پاکستانی نوجوان شادی سے پہلے سیکس لیکن شادی کے بعد تو کرتے ہیں نا اور یہ تعلیم تب بھی بہت ضروری ہوتی ہے۔

ہمارے معاشرے میں لڑکوں کو یہ بتایا نہیں جاتا کہ کچھ عورتیں پردہِ بکارت کے بغیر پیدا ہوتی ہیں اور عورتوں کو اتنی ہمت نہیں دی جاتی کہ وہ جنسی تعلق بنانے کے دوران ہونیوالی زیادتی کے خلاف آواز اُٹھا سکیں۔ اگر تعلق بنانے کی طلب عورت میں جاگے تو اُس کو بدتمیزی سمجھا جاتا ہے اور اگر مرد میں جاگے تو یہ اُس کا حق تھا۔میں کچھ ایسے لوگوں کو جانتی ہوں جن کو جنسی تعلق کی حد کا علم ہی نہیں تھا ور اُن کو پتہ ہی نہیں چلا کہ اب وہ کنوارے نہیں رہے۔ اور سونے پہ سہاگہ  ہماری یہ سوچ کہ جنسی زیادتی کا شکار صرف عورت ہی ہو سکتی ہے۔

ہم پاکستان میں سیکس پر بات نہیں کرتے کیونکہ ہم شاید  اسے گندا یا غیر قدرتی سمجھتے ہیں مگر یہ نہیں سمجھتے کہ اس معاملے میں جہالت کے کتنے نقصان ہو سکتے ہیں۔ کبھی اس جہالت کو معصومیت سمجھا جاتا ہے اور کبھی شرافت۔اب وہ وقت نہیں رہا کہ اپنے بچوں کو جنسی تعلیم نہ دی جائے۔ گندگی اس قدر بڑھ گئی ہے اب آپ کسی پر بھروسہ نہیں کر سکتے۔ لوگ آپ کے بچے کو جنسی، دماغی اور جذباتی طور پر نقصان پہنچا سکتے ہیں۔یہ تو آپ مانیں گے کئی دفعہ شوہر کو اپنی بیوی کی کچھ چیزیں اچھی نہیں لگتی اور بیوی بھی اپنے آپ کو بدلنے کی پوری کوشش کرتی ہے مگر شکل یا جسم ایسی چیز ہے جو عورت خود بدل نہیں سکتی اور پھر جب شادیاں ٹوٹتی ہیں تو ہم الزام مغربی نظام پر ڈالتے ہیں جبکہ ہمیں اپنے بچوں کو یہ سکھانے کی ضرورت ہے اُن کو اپنے ساتھی کی عزت کرنی چاہیے نا کہ اُس کی کمیاں گنوانی چاہییں۔

جنسی تعلیم بہت ضروری ہے اُن مردوں کے لیے خاص طور پر جو شادی شدہ ہونے کے باوجود باہر کی عورتوں سے جنسی تعلق بناتے ہیں اور بیماریاں گھر لاتے ہیں۔ پتہ نہیں سیکس یا جنسی صحت پر بات کرنے سے ہم گھبراتے کیوں ہیں یا پھر اسے بے عزتی یا بدتمیزی کیوں سمجھتے ہیں جبکہ اس کی اجازت تو ہمارا مذہب بھی دیتا ہے۔
ہماری جنسی جہالت کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ UNAIDSکے مطابق پاکستان میں سال 2015 میں 100,000 لوگ HIV کا شکار ہیں۔ جبکہ 2014میں HIVکے مریضوں میں 11%کا اضافہ دیکھا گیا تھا۔

خود ایک ماں ہونے کے ناتے میرا یہ عزم ہے کہ میں اپنے بچوں کو جنسی صحت کی تعلیمات ضرور دوں گی۔کسی کو اجازت نہیں ہوگی کہ صرف شکل یا رنگ کی بنیاد پہ کوئی میرے بچوں کو نیچا دکھا سکے۔میں اُن کی   پیدائش، حفاظت اور فرحت کے حقوق کی مکمل آگاہی دوں گی۔میں اُن کو سکھاؤں گی کہ اُن کی صحت سے بڑھ کر اس دنیا میں کوئی چیز ضروری نہیں اور اُن کو اپنی جنسی صحت پر کسی سمجھوتے کی ضرورت نہیں اور یہ کہ اُن کو انکار کا پورا حق حاصل ہے۔
اور اگر لوگ خود یہ نہیں کرسکتے تو ہمارے سکول ، کالجز میں پروفیشنل لوگ آکر اس پر لیکچر کیوں نہیں دیتے؟ اگر بہت شرم آتی ہے تو مردوں اور عورتوں کو الگ بٹھا کر یہ تعلیم دیں۔ جنسی صحت کی تعلیم کو اب تک ایک معاشرے سے الگ چیز کیوں سمجھا جاتا ہے؟ خود سوچیے کہ یہ اچھا ہے کہ آپ خود اپنے بچے کو جنسی تعلیم دیں یا یہ کہ وہ خود باہر نکل کر تجربوں سے یہ سب سیکھیں ۔۔۔ ذرا سوچیے۔

Advertisements
julia rana solicitors

بشکریہ دنیا پاکستان

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply