پشاور میں خدا کا گھر جل گیا ہے/ڈاکٹر ندیم عباس

مسجد اللہ کا گھر اور امن کی جگہ ہے، یہاں پر انسان اپنے رب سے ہم کلام ہوتا ہے۔یہاں ہر طرح کی تفریق ختم کرکے ایک ہی صف میں کھڑا ہو کر برابری کا پیغام دیا جاتا ہے۔ مساجد اسلام کی عظمت کی دلیل ہیں۔ یہاں سے بلند ہوتی اذانیں اللہ کی کبریائی کا اعلان ہوتی ہیں۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ہمارے بچپن میں مساجد بند نہیں ہوتی تھیں بلکہ اللہ کا گھر ہمیشہ کھلا رہتا تھا۔ مقامی لوگ،مسافر اور دیگر عام لوگ کسی بھی وقت مسجد میں داخل ہوسکتے تھے۔ عام طور پر بزرگ اذان سے آدھا گھنٹہ پہلے مسجد میں آ کر بیٹھ جاتے اور خدا کی باتیں ہوتیں اور قرآن کی تلاوت کی جاتی تھی۔ اسّی کی دہائی میں فرقہ واریت کا ناسور شروع ہوا اور نوے کا عشرہ فرقہ کی بنیاد پر مساجد کی تقسیم کا زمانہ تھا۔ اس سے پہلے اکثر مقامات پر تمام مسالک کے لوگ ایک ہی جگہ نماز ادا کرتے تھے۔ مساجد کا الگ کرنا بہت ضروری تھا، کیونکہ اس طرح ہی دوریاں پیدا کرکے قتل عام کرانا ممکن ہے، ورنہ تو لوگ پرامن انداز میں مل جل کر ہی رہیں۔

مجھے یاد ہے کہ بزرگ اس بات پر یقین کرنے کو تیار نہیں ہوتے تھے کہ کہیں مساجد کو تالا لگایا جاتا ہے اور مساجد میں بھی چوری ہوسکتی ہے؟ پھر وہ وقت بھی آیا کہ گاوں ہو یا شہر، ہر جگہ مساجد کو تالے لگنے لگے۔ وہ جگہیں جو جائے امان تھیں، وہاں پر حملے ہونے لگے اور ایک ایک حملے میں شہداء کی تعداد چار چار سو افراد تک پہنچنے لگی۔ جب فرقہ وارانہ قتل عام میں ایک فرقہ کو ٹارگٹ کیا جا رہا تھا تو اکثریت خاموش تھی، جس کی وجہ سے چند فرقہ پرست طاقتور ہوگئے۔ بات نہ یہاں رکنی تھی اور نہ رکی، آگے بڑھی ان فرقہ پرستوں نے ریاست میں ریاست بنانے کے خواب دیکھنے شروع کر دیئے اور کل ہماری پولیس فورسز کے نہتے جوان جب اللہ کے حضور سربسجود تھے، خون میں نہلا دیئے گئے۔

دنیا بھر کا میڈیا پشاور کی مسجد میں ہونے والے بم دھماکے کی خبر کو بریکنگ نیوز کے طور پر چلا رہا ہے۔ دنیا بھر میں لوگ سہمے ہوئے یہ خبر سن رہے ہیں کہ کیسے مسلمان ہیں؟ اپنے ہی مذہب کی عبادت گاہوں کی اینٹ سے اینٹ بجا رہے ہیں اور فخر سے سینہ چوڑا کرتے ہوئے اسے قبول بھی کر رہے ہیں؟ ہم پاکستان میں سیاحت کو فروغ دینے کے خواب لیے بیٹھے ہیں، ذرا تصور کریں اگر کسی ملک کے بارے میں ہم اس طرح کی افراتفری والی تصاویر دیکھیں تو وہاں جانے کا تصور بھی کریں گے؟ یقیناً نہیں بلکہ ہم تو ہر اس شخص کا راستہ روکیں گے، جو ایسے ملک میں جانا چاہے۔

افغان طالبان کو اب واضح پوزیشن لینا ہوگی، اگر وہ کوئی پوزیشن نہیں لیں گے تو ان کے حوالے سے یقیناً پاکستان میں واضح پوزیشن لی جائے گی۔ طالبان کو یہ بات یاد رکھنی چاہیئے کہ ان کے ملک میں بہت سی فالٹ لائنز موجود ہیں اور ہر طرح کے افغانستانی پاکستان میں موجود ہیں۔ پاکستان نے کچھ نہیں کرنا، بس انہیں تھوڑی سی جگہ دینی ہے اور باقی کا کام وہ خود کر لیں گے۔ کل سے سوشل میڈیا پر بہت سی ایسی چیزیں دیکھنے کو ملیں، جن میں یہ مطالبہ کیا جا رہا تھا کہ جب تک اس دھماکے کی تپش کابل میں محسوس نہیں ہوگی، یہ کام رکنے والا نہیں ہے۔ یہ تپش دو طرح سے محسوس کی جا سکتی ہے۔ پہلا یہ کہ جس طرح ہم نے طالبان کو سپورٹ کیا اور آج بھی ان کے لیے سفارتکاری کر رہے ہیں، وہ ہماری تکلیف کو اپنی تکلیف کی طرح سمجھیں اور ان عناصر کا قلع قمع کر دیں، جو ان کے ہاں موجود ہیں۔

یقیناً ان کے پاس بہت سی باتیں ہوں گی اور وہ ہم سے وہی کہیں گے، جو ہم امریکہ سے کہتے آئے ہیں۔ تو یہاں یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ امریکہ بہت دور سے آیا ہوا تھا، اس کے پاس واپسی کا آپشن تھا اور ہم نے یہیں رہنا ہے اور ہمیں وقت کا کوئی ایشو نہیں ہے۔ آج نہیں تو کل صورتحال مزید واضح ہو جانی ہے اور پاکستان تیزی سے افغان بارڈر کے متعلق اسی حساسیت کی طرف بڑھ رہا ہے، جو انڈین بارڈر پر ہے۔چاہتے نا چاہتے ہوئے اگر امن و امان کو کنٹرول کرنا ہے تو اس بارڈر کو کنٹرول میں لانا ہوگا۔ ایسے معاملات کو قوم پرست بیانیہ میں نہیں دیکھنا چاہیئے، کچھ لوگ لکھ رہے ہیں کہ پنجاب اور سندھ پرامن خیبر پختونخواہ بدامنی کا شکار ہے۔ پشاور بدامن ہے تو پاکستان بدامن ہے، ہم سب بدامن ہیں۔ سندھ اور پنجاب میں اگر کہیں یہ سوچ ہے کہ خودکش حملہ آور ایک ہی علاقے اور ایک ہی قومیت سے ہوتے ہیں تو یہ سوچ بھی درست نہیں ہے، یہ کہیں کے بھی ہوسکتے ہیں۔ پاکستان میں کہیں پر کوئی بھی حملہ کرے، وہ قابل مذمت ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

خارجی فکر کی ایک تاریخ ہے، یہ ہمیشہ مسلمانوں کے قتل عام کی تحریک رہی ہے اور ان کا علاج فقط اور فقط تلوار ہے۔ حضرت علیؑ کے دور میں جب خارجی اٹھے تو مذاکرات کی بہت کوششیں ہوئیں، مگر کامیاب نہ ہوسکیں۔ خارجی فکر کی کجی یہی ہے کہ یہ اپنے علاوہ کسی کو قبول نہیں کرتی۔ مفتی تقی عثمانی صاحب دیوبندیوں میں بڑا نام ہے اور بلکہ انہیں دیوبندی مفتی اعظم کہا جاتا ہے۔ انہوں نے بڑے دو ٹوک انداز میں اس فکر کے غلط ہونے کو بیان کیا ہے اور پاکستان کو ایک اسلامی ریاست اور پاکستان میں دہشتگردی کو بغاوت قرار دیا ہے۔ اس سے دہشتگردوں کے فکری بیانیہ پر گہری چوٹ لگی ہے۔ اب ریاستی اداروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان شرپسندوں کے خلاف کارروائی کریں، عام مسلمانوں کے قاتلوں کو سزا دیں اور اسلامی ریاست کا امن بحال کریں۔

Facebook Comments

ڈاکٹر ندیم عباس
ریسرچ سکالر,اور اسلام آباد میں مقیم ہیں,بین المذاہب ہم آہنگی کیلئے ان کے کام کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply