مہنگائی کے عادی لوگ/توصیف ملک

ستر برسوں سے یہی ہوتا آیا ہے ، ہر سال چیزوں کے ریٹ بڑھتے ہیں ، لوگ اس پر شور مچاتے ہیں لیکن پھر آہستہ آہستہ عادی ہو جاتے ہیں۔
یہ عادی ہونے کا دورانیہ تین چار ماہ کے لیے ہوتا ہے ، یہ عادی کا لفظ سمجھانے کے لیے استعمال کیا ہے ورنہ ہوتا یہ ہے کہ جو تو دکاندار / تاجر ہوتے ہیں وہ کبھی اپنا نقصان نہیں کرتے بلکہ مہنگائی ان کو ہمیشہ فائدہ ہی دیتی آئی ہے کہ چیزیں مہنگی ہونے سے ان کے پاس موجود سٹاک بھی لا محالہ مہنگا ہو جاتا ہے۔
کبھی کبھار مہنگائی کی وجہ سے کساد بازاری ہو جاتی ہے یعنی گاہک کم ہو جاتا ہے لیکن پھر بھی کچھ عرصے بعد وہ بھی ٹھیک ہو جاتی ہے کہ لوگوں کی ضرورتیں کم نہیں ہوتیں۔
سرکاری ملازمین کی تنخواہ بھی بڑھ جاتی ہے کیونکہ حکومت کے پاس افراط زر کا ریکارڈ موجود ہوتا ہے اور جب سرکاری ملازمین کی تنخواہ بڑھتی ہے تو لا محالہ پرائیویٹ کی تنخواہ بھی بڑھ جاتی ہے کیونکہ ایک مزدور کی کم سے کم اجرت ایک سب سے کم سرکاری درجے کے ملازم کے برابر کرنے کا قانون موجود ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اب آتے ہیں اصل مدعے پر !یہ افراط زر ہر حکومت بلکہ سالانہ اگر حساب لگایا جائے تو پانچ سے دس فیصد تک ہوتی ہے ، بعض اوقات پندرہ فیصد تک بھی ہو جاتی ہے ، سنہ 2013 میں جب ن لیگ کی حکومت آئی تو پہلے سال مہنگائی کی شرح گیارہ فیصد تک تھی اور اسی طرح یہ بڑھتی رہی۔۔
ایک بات ذہن نشین رہے کہ جس چیز کے ریٹ ایک دفعہ بڑھ جائیں تو وہ واپس نہیں آتے ( سوائے پٹرول یا جلد خراب ہونے والی چیزوں کے )
پی ٹی آئی کی حکومت کے پہلے سال میں مہنگائی کی شرح دس اعشاریہ پانچ فیصد تھی جو کہ بعد میں نو اور دس کے درمیان بالترتیب رہی
پچھلے دس ماہ کے دوران یہ شرح پچیس فیصد تک جا چکی ہے اور اس میں مزید اضافہ ہو گا۔
اتنا شدید اضافہ پاکستان کی تاریخ میں شاید پہلے کبھی نہیں ہوا ، اسی وجہ سے اس کا ” عادی ” ہونے میں عوام کو کافی وقت لگے گا ، لوگوں کی قوت خرید بڑھنے میں دو چار ماہ نہیں بلکہ دو تین برس بھی لگ سکتے ہیں۔
اس دوران ضرورتیں کیسے پوری ہوں گی اس کے لیے عوام کو خود ہی سوچنا ہے کیونکہ حکومت کے پاس اس کا کوئی پلان نہیں ہے
اپنی ضروریات کو کم کرنا ہے ، ضروریات زندگی میں سے ان چیزوں کا انتخاب کرنا ہے جو کہ بہت ضروری ہیں اور پھر اسی لحاظ سے ان کی فہرست بنانی ہو گی یا پھر اپنے وسائل کو بڑھائیں تاکہ اس ہوشربا مہنگائی کا مقابلہ کیا جا سکے۔
اس دفعہ مہنگائی کا عادی ہونے کے لیے وقت زیادہ لگے گا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply