• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • اسلام آباد میں خوجہ سراؤں سے بدسلوکی کے بڑھتے واقعات/ثاقب لقمان قریشی

اسلام آباد میں خوجہ سراؤں سے بدسلوکی کے بڑھتے واقعات/ثاقب لقمان قریشی

رانی خان خواجہ سراء لیڈر ہیں۔ اسلام آباد سے تعلق رکھتی ہیں۔ رانی خان کو پاکستان اور دنیا بھر میں خواجہ سراؤں کا پہلا مدرسہ بنانے کا اعزاز حاصل ہے۔ مدرسے کے ساتھ رانی نے ایک اور پلاٹ خریدا ہے جہاں پر خواجہ سراء کمیونٹی کے لیئے دنیا کا پہلا ہسپتال تعمیر ہونے جا رہا ہے۔ جس کے لینٹر کیلئے رانی خان فنڈ ریزنگ کر رہی ہیں۔ رانی خان نے خواجہ سراؤں کیلئے سلائی سینٹر اور شیلٹر ہوم بھی چلا رہی ہیں۔ رانی خان کے کام کو مختصر سے عرصے میں اتنی پزیرائی ملی ہے کہ یورپ اور مختلف مسلم ممالک کی ایمبیسیز نہ صرف ان سے رابطے میں رہتی ہیں بلکہ انکے کام کی بھر پور حوصلہ افزائی بھی کرتی ہیں۔ رانی خان روزانہ صبح کی دعا کرواتی ہیں۔ جسے دنیا بھر سے چھ لاکھ سے زائد افراد دیکھتے اور سنتے ہیں۔
ہم نے رانی خان سے پوچھا کہ آپ دین کی طرف کیسے راغب ہوئیں تو انھوں نے بتایا کہ
انکی پیدائش چنیوٹ کے متوسط مذہبی گھرانے میں ہوئی۔ پیدائش نارمل لڑکوں کی طرح تھی۔ عام بچوں کی طرح کھیلنا، کودنا، شراتیں کرنا سب کچھ نارمل تھا۔ جیسے جیسے رانی خان بڑی ہوتی گئیں۔ انکا رجحان لڑکیوں کے کھیلوں اور ملبوسات میں بڑھتا چلا گیا۔ شروع شروع میں والدین رانی خان کی حرکتوں کو بچہ سمجھ کر نظر انداز کر دیتے۔ لیکن جب معاملہ ذیادہ بڑھ گیا تو والدین کی تشویش بڑھتی چلی گئی۔ بات سمجھانے سے بڑھ کر مار دھاڑ تک جا پہنچی۔ کبھی ڈانٹ کر سمجھانے کی کوشش کی جاتی تو کبھی مار کر۔ کبھی کمرے میں بند کر دیا جاتا تو کبھی ڈرایا دھمکایا جاتا۔
گھر میں رہتیں تو گھر والوں کی تنقید کا نشانہ بنتیں، گھر سے باہر نکلتیں تو محلے والے تنگ کرتے۔ سکول میں سکول کے بچے چھیڑ چھاڑ کرتے۔
رانی خان کے والد صاحب دین سے بے حد لگاؤ رکھتے ہیں۔ دینی تعلیم کیلئے انھوں نے رانی کا داخلہ جامع مسجد بخاری میں کروا دیا۔ رانی اپنے آپ کو خوش نصیب سمجھتی ہیں کہ انھیں مولانا منظور احمد چنیوٹی صاحب کے شاگرد مولانا مطلوب الرحمٰن صاحب سے دینی تعلیم حاصل کرنے کا موقع ملا۔
رانی کی زندگی شدید مشکلات اور دباؤ کے ساتھ آگے بڑھ رہی تھی کہ ایسے میں رانی کی اپنی ہم عمر خواجہ سراء سے دوستی ہوگئی جو کہ انکے محلے میں ہی رہتی تھی۔ دونوں چھپ چھپ کر ایک دوسرے سے ملتیں اور اپنے ساتھ ہونے والی ذیادتیوں سے آگاہ کرتیں۔ گھریلو اور معاشرتی ناانصافیوں نے دونوں کو بغاوت پر مجبور کر دیا۔ دونوں بھاگنے کے منصوبے بنانے لگیں۔ رانی کہتی ہیں جب انھوں نے گھر چھوڑا تو اس وقت انکی عمر تیرہ، چودہ سال تھی۔
گھر سے بھاگنے کے بعد رانی کا خیال تھا شائد اب یہ اپنی مرضی کی عزت والی زندگی گزاریں گیں۔ رانی اسلام آباد اور ساہیوال کے مختلف ڈیروں پر رہیں۔ رزق حلال کمانا چاہتی تھیں۔ خواجہ سراؤں کے حوالے سے معاشرہ اتنی تنگ نظری کا شکار ہے کہ خواجہ سراء چاہیں بھی تو حالال روزی نہیں کما سکتے۔ خوبصورتی اور اچھے ڈانس کی وجہ سے رانی نے فنکشنز میں اچھی شہرت حاصل کرلی تھی۔ فنکشنز میں ڈانس کرکے اچھا پیسہ کما لیتیں، لیکن پشیمانی اور خدا کا خوف ہمیشہ ساتھ رہتا۔ اسی خوف کی وجہ سےدین کی رکی ہوئی تعلیم کو آگے بڑھانا شروع کر دیا۔ رانی نے لال مسجد سے دین کی تعلیم حاصل کرنا شروع کردی۔ اٹھائیس پاروں تک پہنچی تھیں کہ لال مسجد کا سانحہ ہوگیا۔
رانی فنکشنز سے حاصل ہونے والی آمدنی کو فضول خرچ نہیں کرتی تھیں۔ اپنی آمدن سے غریب خواجہ سراؤں کی مدد کرتیں۔ پھر ایک وقت ایسا بھی آیا کہ جب رانی نے اپنی آمدن سے پانچ مرلے کا پلاٹ بھی خرید لیا۔ رانی اور انکی بچپن کی دوست ساری زندگی ساتھ رہیں۔ پھر اچانک ایک حادثے کے نتیجے میں رانی کی دوست کا انتقال ہوگیا۔
دوست کی اچانک موت نے رانی کو صدمے میں مبتلا کر دیا۔ رانی خوابوں میں اس سے باتیں کرنے لگیں۔ ایک روز مرحوم دوست خواب میں رانی سے کہنے لگیں کہ میں نے ساری زندگی گناہ میں گزار دی، کیا تم بھی اس طرح مرنا چاہو گی۔ رانی کو اپنی دوست بڑی اذیت میں نظر آئی اور اسی رات رانی خان نے ناچ گانے کو ترک کرنے کا فیصلہ کر دیا۔
پھر رانی خان نے اپنے آپ کو گھر میں بند کر لیا اور دینی تعلیم حاصل کرنا شروع کر دی۔ اب رانی خان کچھ ایسا کرنے کا سوچنے لگیں جو پہلے کبھی کسی نے نہ کیا ہو۔ سو رانی خان نے اپنا پلاٹ بیچ کر ایک مدرسہ بنا لیا۔ رانی کے مدرسے کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں ہر فرقے اور مسلک کا خواجہ سراء آزادی سے دین کے بنیادی اصولوں اور قرآن پاک کی تعلیم حاصل کرسکتا ہے۔
رانی خان کے مدرسے میں جو خواجہ سراء قرآن پاک کی تعلیم حاصل کرنے آتا ہے۔ رانی اسے برائی سے بچانے کیلئے ایک عدد ریڑھی دلا دیتی ہیں۔ بچوں کے کھلونے اور خواتین کی ضرورت کی اشیاء دلا کر اسلام آباد کی مختلف مارکیٹوں میں کھڑا کر دیتی ہیں۔ رانی خان کی اس کاوش کو اسلام آباد کی انتظامیہ اور پولیس قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے اور ہر ممکن مدد فراہم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن مارکیٹوں کے باہر کھڑے پرائیویٹ سیکورٹی گارڈز کی طرف سے ان خواجہ سراؤں کو بدتمیزی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہ پرائیویٹ سیکورٹی گارڈز دکانداروں کے کہنے پر خواجہ سراؤں سے برا رویہ اختیار کرتے ہیں۔ رانی خان متعدد بار دھکے اور گالم گلوچ کے ان واقعات کی رپورٹ کروا چکی ہیں لیکن شنوائی نہیں ہوئی۔
چند روز قبل اسلام آباد کے ایف-10 مرکز میں اسی قسم کا ایک واقعہ رونما ہوا۔ جس میں سیکورٹی گارڈز نے خواجہ سراء کے ساتھ گالم گلوچ کی۔ 15 پر کال کرنے کے بعد بھی خواجہ سراؤں کو انصاف نہ ملا۔ رانی خان اسلام آباد کے ایس-پی کو بھی شکایت درج کروا چکی ہیں۔
رانی خان نے خواجہ سراؤں کے ساتھ احتجاج کیا ہے اور پارلیمنٹ کے سامنے دھرنے کی دھمکی دی ہے۔ رانی کا موقف بڑا واضح ہے کہ جب سی-ڈی-اے اور اسلام آباد کی پولیس انھیں اسٹال لگانے سے نہیں روکتی تو دکانداروں کو ان سے بدتمیزی کا کوئی حق نہیں۔
رانی خان کے اسٹالز کے ساتھ اس نوعیت کے واقعات پہلے بھی پیش آ چکے ہیں۔ ہر بار انھوں نے اسلام آباد کی پولیس اور انتظامیہ کی تعریف کی ہے۔ انسانی حقوق کا کارکن ہونے کے ناطے میں سی-ڈی-اے اور اسلام آباد پولیس کو خراج تحسین پیش کرنا چاہتا ہوں۔ ساتھ ہی یہ امید بھی رکھتا ہوں کہ اس قسم کے ناخوشگوار واقعات کی روک تھام ضروری ہے۔
حکومت سے ہماری یہ گزارش ہے کہ اسلام آباد کی طرز کے اس ماڈل کو ملک کے دیگر شہروں میں بھی شروع کیا جائے۔ خواجہ سراؤں سے نفرت کی اصل وجہ بھیک، ناچ گانا اور سیکس ورک ہے۔ تشدد کے ذیادہ تر واقعات فنکشنز اور سیکس ورک کے دوران ہی پیش آتے ہیں۔
اگر ملک کے چھوٹے بڑے بازاروں اور مارکیٹوں میں خواجہ سراؤں کیلیئے دکانیں مختص کر دی جائیں۔ خواجہ سراؤں کو بڑی مارکیٹوں کے باہر اسٹالز لگانے کی اجازت دے دی جائے تو ایک طرف معاشرے میں خواجہ سراؤں کے خلاف منفی رویے کا خاتمہ ہوگا تو دوسری طرف خواجہ سراؤں کو حق حلال کی روزی کمانے کا موقع بھی ملے گا۔
خواجہ سراؤں پر تشدد کے حوالے سے وطن عزیز کا شمار دنیا کے بدترین ممالک میں ہوتا ہے۔ اس حوالے سے ہمارے رویئے کو انسانی حقوق کی تاریخ میں سیاہ الفاظ میں یاد کیا جائے گا۔ حکومت مثبت اقدامات کے ذریعے اس سیاہی کو کم کرسکتی ہے جو اسکا فرض بھی ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply