میرٹھ چھاؤنی،کیمپ نمبر 28میں گزارے22ماہ(6)-گوہر تاج

کلو کیمپ سےنرائین گنج ، کھلنا اور پھر انڈیا 

کلو کیمپ کے باہر ٹرکوں کی قطار تھی جن کے دھواں پھینکتے اور شور مچاتے انجن جنوری کی سرد صبح میں بُرے نہیں لگ رہے تھے۔ اِن سے نکلنے والا گرم دُھواں جسم کوجو سینک دے رہا تھا وہ بَھلا لگ رہا تھا ۔ایسے حالات میں چھوٹی چھوٹی نعمتوں کی بھی قدر ہوتی ہے۔ ہم سب ٹرک پہ چڑھنے والی قطار میں کھڑے اندر جانے کے منتظرتھے۔ راستے کے لیے روٹیاں اور بچی ہوی روٹیوں کے ٹکڑے بھی بوریوں میں بھر  لیےگئے تھے کیونکہ کہا یہ جارہا تھا کہ سفر لمبا ہے اور پیٹ بھرنے کے لیے مناسب مقدارمیں کھانا چاہیے۔چھوٹے بچوں کے لیے دودھ اور کھانا وافر تھا۔انڈین فوج کے افسر اورانکے سپاہی کے ساتھ سامان اور مسافر ڈھونے کےعمل کی معاونت کے لیے پاکستانی فوجی بھی تھے لیکن ایک فرق یہ تھا کہ نہ ان کی بیلٹ تھی اور نہ ہی سروں پہ کیپ لگی تھی۔ جو عزت اور وقار کی علامت ہوتی ہے۔انکی شکست خوردگی کی دلیل کےطور پہ۔ ۔بس انکی خاکی وردی ہی انکی پہچان تھی!

اب ہماری ٹرک میں چڑھنے کی باری آگئی تھی۔ اونچے ٹرک پہ چڑھنے کے لیے ایک چھوٹی سی سیڑھی لگا دی گئی تھی تاکہ بچے اور عورتیں آرام سے چڑھ سکیں۔ نام بنام لوگوں کو پُکار کر اوپر چڑھانا اور ٹرک پہ بٹھانا ایک مشکل عمل تھا لیکن سارا کام بہت دوستانہ ماحول میں ہُوا۔ ٹرک میں کوئی  سیٹ نہیں تھی،اور گنجائش سے زیادہ لوگ تھے ۔ لیکن سب خوش تھے کہ وہ اپنے خاندان کے ساتھ ہیں اور اس جگہ سے جان بچا کے جا رہے ہیں، جہاں اب ان کے لیے کوئی  گنجائش نہیں۔ انڈین فوج کا رویہ ہم سب اورفوجیوں سے بہت اچھا تھا۔

والد صاحب ذہنی کیفیت کی مختلف اسٹیج  سے گزر رہے تھے۔ “ہم کہاں جارہے ہیں؟” انہوں نے بے یقینی سے پوچھا۔ میں نے سمجھاتے ہوۓ کہا “ ہم پاکستان جا رہے ہیں۔لیکن پہلے انڈیا جائیں گے۔دیکھیے آپ محفوظ ہیں اَبّی۔ ہماری حفاظت کی ذمہ داری انڈین فوج نے لی ہوئی ہے۔ دیکھا نہیں۔۔ کتنی اچھی طرح ہمیں کلو کیمپ میں رکھاتھا۔” انہوں نے استفسار کیا”لیکن نماز کے وقت فائرنگ جو ہُوئی تھی۔ ہم نے انہیں رسان سے سمجھایا “لیکن انہوں نے ہماری حفاظت بھی تو کی تھی۔بس انڈیا میں ایک ہفتےکی تو بات ہے پھر ہم چلے جائیں گے۔” اب سوچتا ہوں کہ وقت اور حالات کے ساتھ کس طرح آپکا کردار بدل جاتا ہے۔

وقت سے پہلے حادثوں سے لڑا ہُوں
میں اپنی عُمر سے کئی سال بڑا ہُوں

اتنے مسافروں کو ٹرک میں سوار کرنے کا مرحلہ دو ڈھائی  گھنٹے سے کم کا نہ ہوگا۔ اورایک بار پھر ہمارا سفر شروع ہُوا ۔ شہر کی فضا محفوظ نہ تھی۔ غیر بنگالیوں کےخلاف نعرہ بازی اور حملہ آوری میں شدت تھی۔کہیں پتھراؤاور کہیں نعرہ بازی۔ سب کو معلوم تھا کہ ان ٹرکوں کے مسافر کون ہیں۔ ٹرک میں آگے پیچھے فوجی ہماری حفاظت کے لیے اپنے اسلحہ کے ساتھ پورے طور پہ الرٹ کسی بھی حملہ سے نمٹنے کےلیے تیار تھے۔جب پتھراؤ ہُوا تو والد صاحب پریشان ہوگئے۔”تم لوگوں نے تو کہا تھا کہ ہم باحفاظت جا رہے ہیں۔”ہم نے کہا “ابّی ابھی تو ہم آرمی کے پہرے میں جا رہے ہیں۔کچھ نہ ہوگا آپ پریشان نہ ہوں۔” راستہ میں حفاظت کے لیے جگہ جگہ آرمی کی  جیپیں  کھڑی ہوئی  تھیں  ۔

ہم اب کلو کیمپ سے نارائن گنج ریورپورٹ جا رہے تھے جہاں سے اسٹیمر اور لاؤ نج چلتےہیں۔ وہاں تک کا فاصلہ تقریباً بیس پچیس کلو میٹر تھا۔ٹرک پتلی پتلی تنگ سڑکوں سے گزر رہا تھا۔ راستے میں دِلوں میں نفرت رکھنے والے حملہ آوروں اور آزادی کی خوشی میں “جوۓ بانگلا جوۓ بانگلا” کے نعرے لگاتے ہوۓ ہجوم ملتے۔ ان کو معلوم تھاکہ  ہم اُردو بولنے والے پاکستانی ہیں اور اس ملک کو چھوڑ کے جا رہے ہیں جو کبھی ان کا بھی وطن تھا۔کئی لوگوں نے ہمارے ٹرک پہ پتھر پھینکے جس پر انڈین فوجی ہجوم کو منتشر کرنے کے لیے ہوائی  فائرنگ کرتے   اور ساتھ ہی میگا فون پہ راستہ صاف کرنےکی ہدایت بھی دیتیے ۔ ان فوجیوں کو بنگلہ کے بجاۓ اردو آتی تھی۔ اس طرح ہمارے ساتھ کام کرنے کے لیے ان علاقوں کی فوج کا ہی انتظام کیا گیا تھا جن کی زبان اُردو تھی ۔نارائین گنج کا راستہ صدر گھاٹ سے ہوتا ہُوا نارتھ بروک روڈ سے گزرا ۔ وہی علاقہ جہاں ہمارا پرانا گھر تھا۔ اپنا گھر دیکھا تو عجیب سی کیفیت طاری ہوگئی۔ ابّی اوردوسرے مسافروں کو بھی گھر دکھایا۔وہی گھر جس میں سالوں ہم سب سکون سے رہتےرہے تھے ۔۔اب ویران پڑا تھا۔اس محلے میں مختلف زبانیں بولنے والوں کی دل کی زبان اورلہو کا رنگ ایک ہی تھا، مگر اب دل بدل گئے اور راستے جُدا ہوچکے تھے۔ بالآخر ان پُرخطرراستوں کو عبور کرتے ہوۓ ہمارے ٹرک نارائین گنج ریور پورٹ پہنچے ۔

نارائین گنج میں ہمیں بتایا گیا کہ اب اگلا سفر اسٹیمر میں طے ہوگا۔ اسکے بعد ہی ہم بارڈر پہ پہنچیں گے۔تاکہ وہاں سے ہم انڈیا کے لیے سوار ہوسکیں۔ اسٹیمر دو منزلہ تھے۔ اس میں جانے کے لیے لکڑی کے تختوں کا پُل بنا تھا جس پر چلتے ہوۓ خوف سامحسوس ہورہا تھا۔ ہمارے ساتھ ہمارا بچھا کھچا سامان بستر بند اور ٹین کی پیٹیوں کی صورت تھا۔ جن پر شناخت کے لیے خاندان کے سربراہ کا نام اور رجسٹریشن نمبرچاک سے لکھ دیا گیا تھا۔ بٹھاتے ہوۓ تمام لوگوں کی گنتی ہوئی ۔ اسٹیمر میں بھی گنجائش سے زیادہ مسافر تھے۔ ہماری جگہ کھڑکی کے  نزدیک تھی ۔ لوگوں کو بتایا گیاتین دفعہ سگنل بجے گا اور تیسرا سگنل روانگی کا ہوگا۔اب اسٹیمر سے بندھی رسی کُھل چکی تھی، جس کے بعد اسٹیمر نے پہلے سُبک خرامی اور پھر تیز رفتاری سے سفرطے کرنا شروع کردیا۔

یہ میرا پانی کا پہلا سفر تھا۔ اب رات کا اندھیرا چھانے لگا۔ وہ چاند کی گیارہ یا بارہ تاریخ تھی ۔ اندھیرے کا بطن چاک کرتی چاند کی پھیلی چاندنی میں ہم نے قدرت کی پُراسراریت کو عیاں دیکھا۔ کسی نے بتایا یہ دریاۓ میکھنا ہے۔ اور اسکے ساتھ ہی تا حدنگاہ پھیلاسندر بن کاگھنا جنگل۔ چاند کی دودھیا روشنی میں گھنے جنگل میں آزادپھرتے مختلف جانور اور ان کی آوازیں ماحول کو مزیدپُراسرار بنا رہی تھیں۔ ایسے  میں اچانک سے کسی کی آواز گونجی “ارے وہ دیکھو وہ لاش ہے۔” اور پھر ہم سب نے قدرت کے پُراسرار حسن کے ساتھ انسان کی بہمیت کی مکروہ زندہ مثالیں پانی کی شوریدہ لہروں پہ   بہتے مُردہ انسانی لاشوں کی شکل میں دیکھیں۔ کچھ کے پیٹ پُھولے توکچھ نارمل تھے مگرکسی کے جسم پہ اسکی قومیت اور زبان کا نام نہیں چسپاں تھا ۔ یہ سب انسان تھے جو اَب بے جان بے بس تیرتے لاشے تھے۔رات کے وقت پانی کی رنگت بہت واضح نہیں تھی لیکن انسانیت کی سفاکی اور اتھلا پن ضرور برہنہ تھا۔ جو سُندر بن کے جنگلات اور چنگھاڑتے جانوروں سے کہیں زیادہ خطرناک تھا۔

رات کے بارہ ایک بجے کے قریب ہم کھلنا پہنچے۔ ایک بار پھر اسٹیمر کی بندھی رسی کُھلی ہم سب پانی پہ ڈولتے تختوں کے پُل سے خشکی پہ اُترے۔ یہاں ٹرکوں پہ بیٹھ کےہمیں ایک کھلے میدان  میں لے جایا گیا جو ریل کی پٹڑی کے پاس کا علاقہ تھا۔ اس طرح اب بہت سارے ٹرک لائین سے کھڑے ہوگئے۔ایک ٹرین پٹڑی پہ کھڑی تھی۔ لیکن یہ کوئی اسٹیشن نہ تھا۔بس جیسے اچانک سے چلتی ہوئی  ٹرین روک لی گئی ہو۔ ہم سبھوں کوٹرین کے پاس لائین سے کھڑا کردیا گیا۔باہر کڑا کے کی سردی تھی۔ میرے ساتھ کھڑے ایک لڑکے نے کہا “ کیا چاۓ واۓ نہیں ملے گی؟” جس پر میں نے کہا “دعوت میں تھوڑی آۓہیں۔”

اب ہم سب ایک کھلے میدان میں تھے یہ کھلنا شہر تھا اور اس طرح ابھی ہم بنگلہ دیش میں ہی تھے۔ ہمیں دیکھ کے مقامی آبادی کا جم غفیر جمع ہوگیا۔نعرہ بازی شروع ہوگئی۔ جس نے خوف پیدا کردیا۔ انڈین فوجیوں نے ہوائی  فائر کرکے مجمع کو منتشرکردیا۔ اب ٹرین میں لِسٹ سے خاندان کے سربراہ کا نام لے کر پکارا گیا اور سیٹوں پہ بٹھایا گیا۔ ہماری حفاظت کے خیال سے انڈین سپاہیوں نے ڈبے کی کھڑکیوں کو کیل لگاکے لاک کر دیا۔

لیکن ٹرین نہیں چلی اسکی وجہ یہ بتائی  کہ ٹرین میں گنجائش   زیادہ مسافروں کی ہے۔لہذا ابھی اور ٹرکوں کا انتظار کرنا ہوگا۔ ہمیں ایک بار پھر ٹرین سے اتار کے کھلنا  میں ہی ٹرین اسٹیشن کے قریب ایک کنٹونمنٹ بلڈنگ میں ٹھہرایا گیا ۔ یہاں ایک بار پھر بلڈنگ کے احاطہ میں لوگ جمع ہو کر نعرہ بازی کرنے لگے۔ لیکن اس بات کی تعریف کرنی ہوگی کہ انڈین فوجیوں نے مستقل ہمیں اپنی حفاظت کے حصا ر میں رکھا ہُوا تھا۔

اگلے دن دوبارہ جب ٹرک آۓ اور مطلوبہ گنتی پوری ہوئی  تو ہم سب مسافر منتظر ٹرین پہ سوار ہوگئے  ۔ ہر بوگی میں دو تین سپاہی اسلحہ کے ساتھ تھے۔ اور ساتھ ہی سفرمیں کھانے کے لیے روٹی کے ٹکڑوں کی ایک بوری اور پانی کا انتظام تھا۔ہمیں کچھ نہیں پتہ تھا کہ ہماری  اگلی منزل کہاں ہوگی۔ انڈین فوجی  ہمارے باربار پوچھنے پہ کہتے کہ ہم انڈیا میں کہاں جارہے ہیں ہمیں خود نہیں پتہ ۔ ہمیں جو ہدایات ملتی ہیں وہ ہی بتاسکتے ہیں اگلا راستہ کیا ہوگا ہم نہیں بتا سکتے۔بس ایک امید تھی کہ اب ہم محفوظ ہیں اور بنگلہ دیش کی نفرتوں کے حصار سے آزاد ہیں۔ انڈیا میں یہ خوشیاں تھیں کہ ہم انکی قید میں جارہے ہیں۔ ہمیں صرف یہ پتہ تھا کہ ہر گزرتے دن کے ساتھ تکلیف کےدن کم ہوں گے اور ہم  پاکستان  کی آزاد فضا میں سانس لیں گے۔

ریل کھلنا کے قریب ترین بارڈر جیسور کو پار کرتی ہوئی  انڈیا میں داخل ہوگئی ۔ پھرکلکتہ سے ہوتے ہوۓ اور ہورڑہ پُل سے گزرتی ہُوئی  ایک ٹرین اسٹیشن پہ پہنچی۔ جس کےرُکتے ہی سارے فوجیوں نے ریل کو اپنے حصار میں لے لیا۔ ہم سب کو بہت بھوک لگی تھی لہٰذا روٹی کے ٹکڑے نوش جاں کیے اور اس پر پانی پیا۔ یہ کونسی جگہ ہے اور آگےکیا ہوگا ہمیں اسکاکچھ پتہ نہیں تھا۔

رو میں ہے رخش ِعمر کہاں دیکھیے تھمے

نے ہاتھ باگ پر ہے نہ پاء  ہے رکاب میں

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply