کہانی کا دُکھ(1)-ناصر خان ناصر

ایک کہانی وہ تھی جسے وہ لکھتی تھی اور ایک کہانی وہ تھی جس کا لکھا وہ بھوگتی تھی، دونوں کہانیاں بالکل مختلف تھیں مگر گڈ مڈ ہو ہو جاتی تھیں۔
پھر جو وہ لکھنا چاہتی تھی، اس سے لکھا نہیں جاتا تھا۔ اکثر لکھے کا بھوگنا لکھنے کے دکھ سے بڑھ جاتا تو اس کی لکھی لکھائی  سے اس کے اپنے ارمانوں کا لہو ٹپک پڑتا، کبھی کبھار لکھی بات کے شرارے بھیگے بھوگے من کو سلگا دیتے، تب آنکھیں سلگتے دهواں دهار لاوے جیسے آنسوؤں کا پیرہن سینے کے درد کو عطا کر دیتیں۔ درد میں ڈوبے لفظوں نے اس کی پہچان سارے جہان میں کرا دی تھی مگر جس کہانی کا عنوان اس کے چہرے پر لکھا گیا تھا، وہ کوئی  نہیں پڑھ پاتا تھا۔

شاید اسی لئے اس کی ہر اک وہ بات جو وہ لکھ دیتی تھی، ہر اس بات پر بھاری پڑ جاتی جو سینے میں لکھی، ادهوری اَن پڑهی رہ جاتی تھی۔

اس سینے پڑی اَن لکھی بات کو کہیں اور نہ لکھا جا سکتا تھا تو وہ بات پڑی پڑی مرنے اور مرجھانے لگتی اور پھر گلتی سڑتی کا تعفن اتنا بوجھل ہو جاتا کہ لکھے لفظ بھی یہ بھاری بوجھ ڈهونے سے انکاری ہو ہو کر منہ پھلانے لگتے۔ یوں تو ان نہ لکھے لفظوں کا دکھ ان پڑهے لفظوں کے دکھوں کے عین مین برابر کچھ یوں تھا جیسے انھیں خدا نے انصاف کے ترازو کے دونوں پلڑوں میں دهر کر خود برابر کیا ہو۔ کبھی کبھار لکھنے والی کو لگتا کہ اس کی کہانی لکھنے والے خدا نے ناانصافی کرتے ہوئے خود اسے ایک پلڑے میں ڈال دی ہے اور دوسرے پلڑے میں اس کی بیتی کہانی اور لکھی کہانی دونوں ہی ڈال دی ہیں۔

کہانیوں والا پلڑا اپنی بے چارگیوں کے بھاری پن کی بِنا پر جھکتا ہی چلا جاتا ہے اور وہ جو زندگی پر بھی بھاری پڑ گئی  تھی، اَن کہی بات کی طرح ہلکی پڑ گئی  ہے۔
پھر وہ کبھی خود خدا بن کر خود پر بیتی کہانی اور خود کی لکھی کہانی کو ترازو کے دونوں مخالف پلڑوں میں ڈال کر تولنے بیٹھ جاتی۔
کبھی ایک پلڑا جھکتا، کبھی دوسرا۔۔دونوں کبھی برابر نہ ہو پاتے۔۔۔۔

کہانی لکھنے والی کو پتہ تھا کہ جس دن ترازو کے دونوں پلڑے برابر ہو گئے، اس دن وہ خود پر بیتی کہانی کا حرف حرف خود بن جائے گی۔ وہ مٹھیاں بھر بھر کر لفظوں کی چھانٹی کرتی، کچھ فقرے، ادھر اُدھر کی چند باتیں کہیں سے حذف کرتی مگر کوئی  بات نہ بنتی۔ پھر کبھی کچھ فکر اور تردد دکھ بھوگتی کہانی کے ماتھے سے پسینے کی طرح پونچھ کر لکھی کہانی میں ڈالتی، کبھی لکھی کہانی کے چلتے چبھتے فقرے زندگی کی کہانی میں اُچھال دیتی۔۔ مگر دونوں پلڑے پھر بھی کبھی برابر نہ ہو پائے اور وہ جو اسکے ماتھے کی تحریر پڑهنےکا دعویدار تھا اور اس کی لکھی کہانی بھی سب سے پہلے پڑهتا تها۔۔۔ وہ سب کچھ پڑهنے کے باوجود نہ اسے کبھی سمجھ سکا، نہ اس کی لکھی کہانی کو۔۔

کہانی لکھنے والی سمجھ سکتی تھی کہ وہ نہ کچھ سمجھ پاتا ہے نہ کچھ جاننے کی کوشش جان بوجھ کر کرتا ہے۔ تب کہانی لکھنے والی کے دل میں زور و شور سے درد اٹھتے، فکر کی پیاس نے اسے اندر سے صحرا کے کنویں کی طرح بہت گہرا کر دیا تھا، جیسے بوند بوند پانی کو ترستی کہانی نے خود لفظوں کے نئے معنی کھوجنے کے لیے زخمی سینے کی دھرتی کو اپنے ناخنوں سے کرید کرید کر ایک گہرا کنواں کھود لیا ہو، مگر اب ارمانوں کے خالی کنویں میں آرزو کا کمنڈل ڈال کر کنارے پیاسی بیٹھی کو صرف سرابوں کے خواب ہی سوجھتے ہوں۔ اس اداس بیٹھی کی بیٹھی رہ جانے والی کو لگتا جیسے دنیا کے تمام سمندر خشک ہو کر صحرا بن گئے ہیں اور وہ اپنے آنسوؤں سے انھیں پھر سے بھرنے کی سعی کر رہی ہے۔ آنسو کم پڑ جاتے تو لفظوں کی مچھلیاں تڑپنے لگتیں اور ہر لکھی کہانی پیاس سے تڑپتی ریگ زاروں میں بھٹکنے لگتی۔۔۔

اسکے ننگے پاؤں میں چھالے پڑ جاتے اور آنکھوں میں پیاس بھر کر وہ نامکمل کہانی ہی دم توڑ دیتی۔۔۔

وہ جتنی گہری باتیں کرتی، اسے پڑهنے کا دعویدار اسے اتنا ہی اتھلا گردانتا۔ تب بے بسی سے سلگتی کا من چاہتا کہ وہ اپنی کہانیوں کے تمام کرداروں کو گونگا بنا چھوڑے یا اپنے تمام لفظوں کے لبوں پر مبہم نا فہمی کے تالے لگا کر انکے ہاتھ  پاؤوں باندھ کر چلچلاتی دھوپ میں ڈال دے۔ اپنی بات کو نہ سمجھا سکنے کا دکھ وہ جس پلڑے میں ڈالتی، وہی دوسرے پلڑے میں پڑے بات نہ کر سکنے کے دکھ سے بھاری ہو جاتا۔ پھر اداسیوں سے پیلی پڑتی کو لگتا کہ اسے اپنی سوچوں کا وتر کسی کمہارن کی طرح جھٹک جھٹک کر مٹی کے کھلونوں جیسے لفظوں سے جھاڑنا پڑے گا۔ اپنی قیمتی سمجھ بوجھ والی باتوں کو بھی فالتو لفظوں کی طرح کانٹ چھانٹ کر لکھی کہانی کو فہمیدہ اور سبک بنانا ہو گا۔۔۔ تبھی شاید وہ اس کی ہر بات سمجھ پائے گا مگر وہ ان لکھی بات جو اس کی آنکھوں میں دهری تقدیر کے لکھے کا انتظار کرتی تھی، وہ بات کبھی بن ہی نہ پائی۔۔۔

پھر اسے لگتا کہ اس نے سچ مچ کہانی کا جنم بھگتانے کے بعد اسے لکھ ڈالا ہے۔ ۔ مگر کہانی سے جھاڑے وتر کی مٹی کی طرح پونچھے لفظ جو اس کے اپنے ہی بدن کا حصّہ تھے، جنہیں شاید اس نے اپنی لکھی کہانی کی سوئی  تقدیر جگانے کے لئے اپنے ہی جسم سے کاٹ پھینکا تها ۔

وہ سب اب انگلیوں کے پور، آنکھیں، کان اور ہونٹ بن گئے ہیں اور خدوخال کے بِنا خالی چہرہ بے حِس ہو گیا ہے۔ اسے لگتا کہ اب اس کے پاس کہنے سننے کو اک لفظ بھی نہیں بچا۔۔۔ صرف ماتھے پر چپکا کہانی کا عنوان اور آنکھوں کی جگہ گڑهوں میں چپکی بیٹھی اَن کہی بات ہی باقی رہ گئی  ہے۔

ایک بار اس نے اپنی پرانی کہانی کو نیا بنا لینے کی نئی  بات سوچی۔ تمام پچھلی بھلائی  ہوئی  اور اَن کہی باتوں کے ٹوٹے سرے سے نئی  باتوں کے سِرے گانٹھ کر وہ نئی  نویلی کہانی گھڑنے لگی۔ اس کے جسم پر بیتی کہانی کے سارے سرے گڈ مڈ رہتے تھے اور گچ مچ گٹھڑی بنی جسم پر بیتی کہانی نے ہاتھوں پکڑے قلم کی زبان مستعار لینے سے انکار کر دیا تھا۔ بہت سارے رشتے تھے اور سماج کے بھیانک قانون، مذہب اور معاشرے کی زنجیریں اٹھائے ہوئے، جانے اور انجانے چہرے تھے جو اس پر اور اس کی کہانی پر کڑی نظریں جمائے کھڑے تھے۔ بہت سے پہرے، بہت سی مجبوریاں، سماج، قانون، مذہب اور ریت و رسم کی چھریاں جلاد بن کر اسکی زبان گدی سے کھینچتی رہتیں تھیں۔ زندگی کبھی اسکے قلم سے ساری سیاہی چوس لیتی، کبھی آرزویں خواہشوں کی گود میں منہ چھپا کر تقدیر کے لکھے کو ماننے سے ہی انکاری ہو بیٹھتیں۔ تب وہ بھی لاچار ہو کر کورا کاغذ بن کر بیٹھ جاتی، جس پر کچھ نہ لکھا جا سکتا تھا۔

اگر کچھ لکھا جاتا بھی تو کسی سے پڑها نہ جانا تھا۔ پڑھ بھی لیا جاتا تو اسے سمجھنا مشکل ہوتا کہ یہی تقدیر کا لکھا بھی تھا۔

اس کورے کاغذ پر اس نے جس کا نام لکھا تھا، وہ اسے دیکھے بغیر ہی سارے کا سارا پڑھ سکتی تھی۔ وہ اسے حرف بہ حرف، لفظ بہ لفظ زبانی یاد تھا۔ اس کی پور پور کا لمس اسے حفظ تھا۔۔۔ مگر شاید اس کی اپنے جسم پر لکھی جادوئی  تحریر کی سیاہی اس نے اپنے آنسوؤں اور آرزوں کے لہو کو خاموشیوں کے درد میں گھول کر خود بنائی  تھی۔ تبھی نہ تو اسے کبھی اس نے پڑها، نہ ہی وہ خود اسے کچھ بتا پائی ۔ لکھنے والی کو پتہ تھا کہ دونوں کہانیوں کو ادھورا ہی رہنا ہے، کیونکہ ہر وہ بات جسے اس نے دکھ کی طرح جھیلنا ہے، اس کی کہانی وہ بات کبھی نہیں جھیل پائے گی۔۔۔

پھر وه۔۔۔ جو کسی دلفریب جھوٹ کی طرح اسے ملتا تھا اور اگرچہ اس کے شہد میں ڈوبے لہجے ہمیشہ وہی بات کہتے تھے جنہیں کہانی لکھنے والی کے کان سننے کے متمنی رہتے تھے۔۔۔۔
مگر نجانے کیوں اسے اس کے ہر لفظ سے عجیب سی بُو آتی تھی ۔۔

حرف حرف کبھی حرص میں ڈوبا، کبھی ہوس سے بھیگا، کبھی لہجے کی آواز کے سُر سے تال نہ ملتی، کبھی الفاظ کھوکھلے پن سے خوخیانے لگتے۔

وہ ہر لفظ کو سچ کی طرح سوئیکار کرتی اور فکر کے پانیوں میں ڈبکیاں دلا کر اعتبار کے رنگ میں رنگ ڈالتی۔۔۔ پھر اعتماد کے چھنٹے دے کر ان کے مردہ بدنوں میں جان ڈالنے کی کوشش کرتی مگر کوئی  بات نہ بنتی تھی۔۔۔
کچے رنگ اُتر اُتر جاتے۔۔۔
یہ دیکھ کر اسے اپنی کہانی کے ادھورے پن اور پریتم کی بناوٹ پر رونا آ جاتا۔۔۔یہ دیکھ کر لکھی کہانی اور بیتی کہانی کے سارے فقرے آپس میں گڈ مڈ ہوتے، الٹے پلٹے ہو ہو کر اتنا ہنستے کہ اس کا جی بے اختیار چاہنے لگتا کہ وہ تیز چاقو سے اپنی ہتھیلیوں پر لکھی تقدیر کی تمام لکیریں مٹا کر اپنی لکھی کہانی کا رخ بدل ڈالے۔ اور پھر ٹپکتے لہو سے ماتھے پر نئی  کہانی کا عنوان لکھ لے۔۔۔
پھر تنہا بیٹھ کر روتی کو خود اسی بات پر ہنسی آ جاتی کہ وہ جسے خود ایک کہانی بننا تھا، اب کیوں ایک معمولی بات بن کر رہ گئی ہے۔

اس کے لئے سارے موسم بے رنگ تھے اور ساری دهرتی بنجر، صرف کبھی کبھار کوئی   کوئی  شبد ذرا سا رنگ اور خوشبو لئے شگوفوں کی طرح پھوٹ پڑتا تو کہانی ہنس پڑتی، مگر کہانی لکھنے والی کو نجانے کیوں رونا آ جاتا۔۔

پت جھڑ کا موسم درد کے ان دیکھے سنہرے بور لے کر آیا اور گزر گیا۔۔۔

کہانی کے بدن سے جڑے پتوں کی جگہ زخم اور زخموں کے نشان رہ گئے، جن سے وقت پیپ کی طرح رستا تھا۔۔۔

وہ کہانی جو لکھی جا سکتی تھی، اس سے وفا کے چند لفظ زرد پتوں کی طرح جھڑے مگر لکھنے والی نے انھیں دهو پونچھ کر پھولوں کی طرح گلدانوں میں سجا دیا۔۔۔ اور اپنے لہو سے انھیں دن رات سینچنے لگی۔
گویا اپنے دل کی شاخوں پر نظموں کو پھولوں کی طرح اگانے کا سامان کرنے لگی۔ پھر رت بدلی اور جھوٹ بولتے ہوئے “اس” کے منہ پر کسی سچ کی کلیاں کھلنے لگیں۔ کہانی لکھنے والی کو لگا کہ بے موسمی بہاریں سچ مچ آنے والی ہیں۔

اس کی لکھی کہانیوں کے لفظ پھولوں کی طرح رنگین ہو کر مہکنے لگے۔ شاید جب وہ اس سے پریم سے بات کرتا تھا تو لکھنے والی خود بہار بن جاتی تھی۔ مگر کچھ عجیب سی بات یہ تھی کہ ساری دنیا کو معطر اور مسحور کر دینے والے لفظوں میں اسے خود کوئی  مہک محسوس نہ ہوتی تھی۔ اسے خود اپنے بدن سے پھولوں کی مہک آتی مگر اپنی لکھی کہانی کا بدن خوشبو سے عاری پا کر وہ اداس ہو کر دل مسوس کر رہ جاتی۔۔۔

اپنے لفظوں کے پھولوں میں اپنا رنگ دیکھنے کے باوجود جب وہ انھیں اصلی پھولوں کی طرح مہکتا نہ بنا سکتی تو وہ خود تو نہیں، البتہ اس کی کہانی لفظوں کی خالی ٹہنیوں سے لپٹ لپٹ کر چیخیں مار مار کر رو پڑتی تھی۔

پھر میلوں ٹھیلوں کے دن آن پہنچے اور وہ جو اس کی لکھی کہانی کا کچھ نہیں لگتا تھا اور بھوگی کہانی کا سب کچھ تھا، اس سے لفظوں کے بدلے ہوئے معنوں کی طرح ملنے لگا۔۔۔

کہانی لکھنے والی کا دل دهک سے رہ گیا۔ اس کی کہانیوں نے بھی اداسیوں کے چوغے پہن لئے مگر جس بیراگ کا رنگ اس کی اپنی روح نے پہنا تھا، وہ اب بھی کسی کو اور خصوصا” اسے نظر نہیں آتا تھا جو کچھ نہ ہو کر بھی اس کا سبھی کچھ تھا۔

“تم مجھے چھوڑ کر چلے کیوں نہیں جاتے؟”

پتہ نہیں یہ الفاظ کون کسے کہتا تھا؟

مگر یہی بات لکھی کہانی اور بھوگی کہانی کا مشترک درد بن کر کانوں میں انڈیلا رہ جاتا۔ یہ سارے الفاظ بھی دهندلے ہو کر کھو جاتے، صرف مفہوم کی بجلیاں ہی غم کے سیاہ بادلوں میں گونجتی کڑکتی رہ جاتیں۔۔۔

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply