کہانی کا دُکھ(2،آخری حصّہ)-ناصر خان ناصر

کہانی لکھنے والی نے کئ بار ان لفظوں کو پکارنا چاہا جو امید دلاسے اور تسلی کے قبیلے سے تعلق رکھتے تهے اور اب اپنے معنی بدل کر یاس، نا امیدی اور حسرت کے چوغے پہن رہے تھے۔
ان لفظوں نے بھی اس کے “اس” کی طرح اس کی ہر بات کا سنا ان سنا ایک کر دیا اور بالکل “اسی” کی طرح آنکھیں بدل کر اپنا منہ چھپانے لگے۔
دراصل اسے”ایک وہ” مل گئ تھی۔۔۔
جس سے مل کر اس کی کہانی کے رنگ تیکھے ہو کر اسے زیادہ شوخ لگنے لگے تھے مگر کہانی لکھنے والی کی دنیا ہی اندهیر ہو گئ۔
یہ دوسری “وہ” دیکھنے میں کیسی ہو گی؟ کہانی لکھنے والی نے اس کی تصویر تصور کی آنکھ سے بنانا چاہی مگر کوئ تصویر بنتی نہیں تھی۔
کبھی کچے رنگ سرے سے بگڑ جاتے، کبھی ناک نقشے گرفت میں نہ آتے، کبھی چہرہ ہی اکھڑنے لگتا، کبھی ناک نقشے کے بخیے ہی ادھڑ ادهڑ جاتے۔
میلے ٹھیلے کے رنگین اونچے قہقہے لگاتے دنوں میں کہانی لکھنے والی تنہائ کا دکھ بھوگنے لگی۔
اس کی آنکھیں بھیگتے بھیگتے خود بخود یوں سلگنے لگتیں جیسے گندھک کے تیزاب کا آگ لگ گئ ہو۔
باہر سڑکوں پر میلے لگے ہوئے تھے، ہنستے بولتے لوگوں کے ٹهٹھ ۔۔۔ خوشنما لباسوں میں ٹھٹھے لگاتے شور مچاتے گزرتے رہتے تو کہانی لکھنے والی کو لگتا کہ وہ صرف ایک آنکھ بن گئ ہے۔۔۔
جو کچھ نہیں دیکھ سکتی، صرف لوگوں کے ہجوم میں ایک چہرہ ہی ڈهونڈتی رہتی ہے۔
اس نے یہ بھی جانا کہ اسکی تازہ لکھی ہوئ بے چاری کہانی بے دم ہو کر دھڑام سے نیچے گر پڑی ہے۔
پھر اس کی لکھی ہر کہانی کے سارے کے سارے کردار بے چہرہ ہو کر بے موت مرنے لگے۔
ان لکھی کہانیوں میں بھی صرف آنکھیں ہی انکھیں باقی رہ گئیں۔ ان آنکھوں نے درد بھوگتی کی خاموشی سے آنسو بہاتی اکھیوں میں جو کہانی پڑهی، اس میں حروف بھلے پھولوں کی طرح پروئے ہوئے تھے مگر انتظار کی خوشبو کی مہکار میں بس کر خاموش راہ تکتے رہتے تھے.
پھر اچانک اسے یاد آیا، ایک بار اس نے اسے کہا تھا کہ وہ سچ مچ اس کی خوبصورت آواز پر عاشق ہو گئ ہے. اس نے اسے یہ بھی بتایا تھا کہ اگر خدا کی کوئ آواز ہوتی تو ہو بہو اس کی آواز جیسی ہی ہوتی۔۔۔
اور یہ کہ اب اسے اس کی آواز کے علاوہ کچھ بھی سنائ نہیں دیتا۔ یہ بات سوچ کر اسے یوں لگا کہ اب اس کا سارا جسم، ساری روح صرف ایک کان ہی بن کر رہ گئے ہیں۔
یہ بات سن کر وہ جوابا” صرف مسکرایا تھا. اپنی آچھوتی بات کی ناقدری پر وہ بھی صرف مسکرا کر چپ ہو گئ تھی مگر جیسے دهیمے قدم چلتی کہانی کے پیروں میں ایک کنکری کے چبھ جانے کا احساس اسے دیر تک رہا تھا۔
کنکر تھا کہ کانٹا؟
جانے وہ کون سی کہانی تھی؟
اس کی لکھی ہوئ، یا اس پر بیتی ہوئ!
شاید لکھی ہوئ تھی!
نہیں! خود اس کی اپنی کہانی۔۔۔
یہ چبھن کا احساس اس کے اپنے جسم کو ہی نہیں ہوا، یہ پیڑا کہانی کے جسم نے بھی سہی تھی۔
اسے صرف یہی معلوم تھا کہ اب اسکے لفظوں کے کان بھی تھے اور آنکھیں بھی اور وہ بےکل ہو کر سڑکوں پر پھیلے ہجوم میں اپنے مفہوم کا چہرہ کھوجتے پھرتے تھے۔۔۔ کہانی لکھنے والی نے دیکھا کہ اس کی ساری زندگی اب ایک سڑک بن گئ ہے۔
اس سڑک کے دونوں طرف آوازیں کستے شور مچاتے لفظوں کا بہت بڑا ہجوم ہے۔۔۔
کان پڑی آواز سنائ نہیں دیتی۔۔۔
وہ صرف آنکھ بن کر اس سڑک سے گزر رہی ہے۔
ہر طرف ڈهونڈنے کے باوجود ہجوم میں اسے وہ چہرہ کہیں نہیں مل رہا جو اسے پھر سے کان بنا سکتا ہے۔۔۔۔
جس آواز کو اس کی آنکھیں سن سکتی تھیں اور کان دیکھ لیتے تھے، اس کا دور دور تک کہیں پتہ نہ تھا۔۔۔۔
دیکھنے سننے والی کہانی بن کر اس آواز کو کھوجتی سڑک کے کنارے کنارے چلتی رہی۔
وہ رک رک کر قدم قدم ایک ایک چہرہ پڑهتی تھی اور ٹھنڈی آہ بھر کر رہ جاتی تھی۔
کاش وہ دونوں بھی اسے کہیں نظر آ جائیں۔۔۔
ہنستے مسکراتے، باہوں میں باہیں ڈالے، بچوں کی طرح خوش ہوتے ہوئے۔۔۔
اگر وہ ان دونوں کو ایک نظر اکٹھا دیکھ لیتی تو شاید اس کے سینے میں انوکھی خلش بھری ٹھنڈک کا ایک جنگل اگ ہی پڑتا۔ اس کا “وہ” یہ بات نہیں جانتا تھا کہ وہ تو محبت کا ایک ایسا شبد تھی جو نفرت یا حسد میں کبھی ڈھل ہی نہیں سکتا۔
کہانیاں لکھنے والی اب صرف یہی دیکھنا چاہتی تھی کہ اسکی “وہ” شکل و صورت کی کیسی ہے؟
وہ خوش نصیب جس کی قسمت میں “وہ” لکھا گیا ہے، اسے پا کر کس طرح مسکراتی ہے؟
وہ جس کی ہر ایک بات سے بات کی بات نبھ جاتی ہے اور کہانی خود نیا جنم لینے لگتی ہے، اب کس حال میں ہے؟
پھر کہانی لکھنے والی نے دیکھا کہ اس کی سوالی متلاشی آنکھوں نے بھی لکھے حروف کی طرح اپنے معنی آپ ہی بدل ڈالے ہیں۔۔۔
اب وہ خود بھی صرف دو ہاتھ بن گئ ہے جن کی جھولی پھیلا کر وہ خدا سے اس کی خیر مانگنے لگی ہے۔
اور شاید اپنی کہانی کا یا۔۔۔
خود اپنے جینے کا حق بھی مانگ رہی ہے.
خدا کی آنکھیں بھی شاید اس ایک لمحے کو دیکھتی سنتی تھیں کہ اب کی بار اس کے ہاتھوں نے آنکھ بن کر یہی دیکھا کہ “وہ” خجل خوار سا ایک پیڑ کے سائے تلے کسی بینچ پر تنہا اداس بیٹھا رہ گیا ہے۔۔۔
نخرے والی “وہ” جس کے لئے وہ ایک “کہی بات” بن گیا تھا، سچ مچ روٹھ کر جا چکی ہے۔
بات صرف اتنی سی تھی کہ وہ بھرے پڑے میلے میں بیمار پڑ گیا تھا اور اس کی “وہ ” جو موج میلہ لوٹنے کے لئے ہی میلے میں آئ تھی، اس دلربا کی دل کی ڈکشنری میں تیمار داری کا کوئ لفظ کہیں تھا نہ مفہوم۔۔۔
صرف عشرت اور ہوس ہی دهوپ کی طرح چمکتی تھیں اور اس کی بے وقت بیماری کی بدولت پرچھائیاں بن کر ڈهل گئ تھی۔۔۔
تب لکھنے والی کے ہاتھ تو وہی رہے مگر ان پر پڑی ریکھائیں دعائیں بن کر اس کے آنسووں کی طرح رخساروں پر پھیل گئیں۔
اس کے روئیں روئیں نے تڑپ تڑپ کر اس کی خیر مانگی جو تڑپتی کو اکیلا بلکتا ہوا چھوڑ گیا تھا۔۔۔
اور تپ سے سلگ رہا تھا۔
تب اس نے سوچا کہ اگر وہ صرف ایک انگلی بن جائے اور کسی طرح جا کر اسے چھو سکے تو وہ ضرور بہ ضرور اچھا ہو جائے گا۔۔۔
اس کی ہر سانس دعا بن کر نکلی۔۔۔
“اگر کوئ خدا ہے اور سنتا ہے تو وہ مجھے لمحہ بھر کے لیے ایک انگلی بنا دے”
اس کے ہاتھوں کی ضد اتنی کڑی تھی کہ ایک بار تو خدا بھی ہنس ہی پڑا۔۔۔
کہانی بھوگنے والی نے دیکھا کہ وہ ساری کی ساری انگلی بن کر خود بخود کسی سمت بڑهنے لگی ہے اور دور تنہا سر جھکائے بیٹھے ہوئے کو چپکے سے چھو آئ ہے۔
اس نے یہ بھی دیکھا کہ اس کی انگلی کے لمس کی تاثیر سے وہ بھلا چنگا ہو کر آٹھ بیٹھا ہے۔
تب لکھنے والی کا ذہن جیسے سویا سویا ہوا یک لخت بیدار ہو گیا. اس نے دیکھا کہ وہ پور پور خدا کا شکر ادا کر رہی ہے، جس نے اس کے ماتھے کی تحریر بدل ڈالی ہے۔
اس کی لکھی کہانی کے سارے حروف جو اپنے اپنے چہرے چھپائے، منہ تھوتھائے کونوں کھدروں میں دبکے پڑے تھے، ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے معنی خیز فقروں میں ڈهلنے لگے ہیں۔
اب اس کی کہانیوں کے سارے بچھڑے پریمی پردیسوں سے گھروں کو لوٹ آئے تھے اور اپنے پریتموں سے گلے ملنے لگے تھے۔
دنیا کے سارے پنچھی شام ہوتے ہی اپنے اپنے رین بسیروں میں لوٹنے لگے تھے۔
ہر ٹوٹی ہوئ بات کا سرا نئ بات سے گانٹھتی نے یہ بھی دیکھا کہ وہ بھی لوٹ آیا ہے جس کا انتظار اس کے ساتھ ساتھ اس کی کہانیاں بھی کرتی رہتی تھیں۔ اب جنموں سے راہ تکتی اس کی اپنی کہانی بھی شاید مکمل ہو جائے؟
اس کے ماتھے پر لکھی کہانی کا عنوان اب بھی انتظار ہی تھا مگر اس کا رنگ اور مفہوم اپنی مہک بدل چکا تھا۔
پھر اس نے محسوس کیا کہ لوٹ کر واپس آئے ہوئے کو نہ تو جانے کا کوئ پچھتاوا یا ملال تھا نہ ہی لوٹ کر واپس آ جانے کا اضمحلال۔۔۔
نہ وقت کھوئے جانے پر کوئ تاسف، نہ اپنے ہرجائ پن پر کوئ شرمندگی، خجالت۔۔۔کہانی لکھنے والی کے حساس دل میں سارے اگلے پچھلے سوئے درد جیسے انگڑائیاں لے کر یکلخت جاگ اٹھے۔ کاش وہ میری لکھی ہوئ کہانی کی طرح ہمارے گزرے کھوئے وقت کا، چاہے بالکل تھوڑا سا ہی۔۔۔ مگر کچھ تو سوگ منا لے۔
پچھتاوے کا اک آنسو!
تاسف کی اک جھلک۔۔۔ اور کچھ نہیں تو کاش وہ اس چھوڑ کر جاتی بے وفا کو یاد کر کے ہی اس کے غم میں نڈھال ہو کر میرے کندھے پر سر رکھ دے۔ وہ صرف ایک آنسو ہی بہا لے تو میں اسے پھر سے قبول کر لوں گی۔۔۔
مگر وہ جو اس روٹھی ہوئ محبت کو منا تو رہا تھا مگر اسے بھرے میلے میں چھوڑ کر جاتی “وہ” اب یاد تک نہیں تھی۔۔۔
“شاید وہ محبت کرنا جانتا ہی نہیں ہے” لکھنے والی نے بڑے کرب سے سوچا!
اب اسے اپنی کہانی کا عنوان بنانے سے بھی کوئ بات بننی نہیں ہے۔
شاید میری اپنی کہانی کو ادھورا ہی رہنا ہے؟
کون سی کہانی کو مکمل ہونا ہے اور کون سی کہانی تشنگی کا گھونٹ پی کر سدا کے لیے ادھوری ہی رہے گی؟
یہ نہ لکھنے والی کو خبر تھی، نہ لکھی جانے والی کہانی کو۔۔۔
صرف خدا مسکرا رہا تھا۔
پھر سارے دروازے اس پر بند کرتی، نیر بہاتی لکھنے والی کا اپنا آخری فیصلہ یہی تھا کہ اس کی اپنی کہانی نا مکمل رہے گی مگر لکھی ڈوبتی کہانی کو جس بات سے کنارے لگایا جا سکتا تھا وہ کشتی کے پتوار جیسی بات اسے اب سوجھ گئ تھی۔
وہ جانتی تھی کہ اب اگر اس نے اپنے ہاتھ پنکھ کی طرح پھیلا دئیے تو وہ ضرور پتوار بن جائیں گے۔
اس بات سے لکھی کہانی تو بھنور سے نکل آنی ہے مگر بیتی کہانی جس کنارے پر ڈوب چکی ہے، اس دلدل سے نکالنے والی۔۔ پتوار جیسی کوئ بات باقی ہی نہیں بچی۔
اس نے اپنے ہاتھ پھیلائے اور آنکھیں سکیڑ کر دیکھا کہ اب وہ صرف ایک دیوار بن گئ ہے۔۔۔۔
اک بے جان بنا در و روزن اونچی سنگلاخ دیوار جس کے آر پار نہ تو کوئ جھانک کر دیکھ سکتا ہے نہ کوئ اسے پھلانگ کر اس پار آ سکتا ہے۔
اس کے ہاتھوں لکھی کہانی اب مکمل تھی مگر ماتھے لکھی جیون کہانی کا عنوان ہی کھو گیا تها!
یہ بات دیوار کے اس پار رہ جانے والے اس کو کبھی معلوم ہی نہ ہو سکی کہ وہ کیا کھو بیٹها ہے!
اسے تو صرف ایک بہت بڑی سی سنگلاخ دیوار ہی نظر آتی تھی۔۔۔
دیوار کے پیچھے کیا ہے، اسے شاید کبھی تجسس تو ہوا ہو گا مگر دیوار سے سر ٹکرانے کا حوصلہ کبھی نہیں۔۔۔
کہانی کا دکھ جھیلنے والی اب ہنستی ہے یا روتی ہے؟
دیوار کچھ نہیں بتاتی، ساری کی ساری کہانیاں ہی دیوار کی مانند چپ ہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply