• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • لیاقت بلوچ صاحب کا انٹرویو اور تین اعتراضات/نذر حافی

لیاقت بلوچ صاحب کا انٹرویو اور تین اعتراضات/نذر حافی

نام نہاد بنیاد اسلام بل کا جادو اب سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ مہنگائی، بے روزگاری، سیاسی عدمِ استحکام اور انسانی حقوق کو چھوڑ کر اب مذہبی جنگ لڑئیے۔ انِ دنوں میں بس اسی کی کمی رہ گئی تھی۔ سپاہِ صحابہ تو ایسے کاموں کو اپنی کامیابی گردانتی ہی ہے، اب کی بار تو جماعتِ اسلامی کو بھی اس میں کوئی قباحت نظر نہیں آئی۔ فی الحال ہم اس حوالے سے یہ تو نہیں کہنا چاہتے کہ سپاہِ صحابہ اور جماعتِ اسلامی ایک پیج پر ہیں، یہ تو سب کو جلد یا بدیر خود بخود پتہ چل جائے گا۔ تاہم یہ ضرور بتانا چاہتے ہیں کہ شاید پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایسا ہوا ہے کہ شیعہ عمائدین و قائدین نے بلاتفریق اس بل کو مکمل یکجہتی کے ساتھ مسترد کیا ہے۔

دوسری طرف مفتی گلزار نعیمی صاحب اور مفتی حنیف قریشی صاحب سمیت کچھ اہل سنّت اکابرین نے بھی اس بل سے عدم اتفاق کیا ہے۔ کچھ ہی دیر پہلے میڈیا واچ پاک کے ترجمان نے اس مسئلے پر جماعت اسلامی کی نامور شخصیت جناب لیاقت بلوچ صاحب سے ان کا موقف جاننے کی کوشش کی۔ یاد رہے کہ لیاقت بلوچ صاحب کو جماعتِ اسلامی میں ریڑھ کی ہڈی کی سی حیثیت حاصل ہے۔ آپ ۱۹۷۷ء میں اسلامی جمعیت طلبہ پاکستان کے مرکزی صدر منتخب ہوئے۔ اس کے بعد ۱۹۸۵ء، ۱۹۹۰ء اور ۲۰۰۲ء میں قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ وہ اس وقت جماعت اسلامی پاکستان کے نائب امیر ہیں۔

بلوچ صاحب نے اپنے انٹرویو میں ایک بات بڑی واضح کہی ہے کہ “شیعہ علماء جن کا ہم بےپناہ احترام کرتے ہیں، انہیں معلوم تھا کہ یہ قانون سازی کا مرحلہ جاری ہے، شاید انہوں نے بھی کوئی اس طرح سے سنجیدگی سے توجہ نہیں دی، یہ بات پہلے بھی اگر نشاندہی ہو جاتی تو یقینی طور پر اس کا ایک بہتر حل تلاش کیا جاتا۔” اُن کے اس جملے کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اب توپوں کا رُخ شیعہ علماء کی طرف موڑ لیا جائے، تاہم اس کا یہ مطلب ضرور ہے کہ شیعہ علماء حالاتِ حاضرہ کے حوالے سے بہت پیچھے ہیں۔ ہمارے پاس سیاسی نعرے، جلسے، جلوس اور پارٹیاں تو ہیں، لیکن سیاسی ماہرین، تھنک ٹینکس اور پولیٹیکل ڈیسک نہیں ہیں۔

اس سے پہلے نصابِ تعلیم کے حوالے سے بھی یہی حقیقت سامنے آئی تھی کہ نصاب کمیٹی سے مربوط شیعہ علماء نے اس میں اپنا مطلوبہ کردار ادا نہیں کیا تھا۔ یہ دونوں ایشوز اپنی اہمیّت کے اعتبار سے تاریخی نوعیّت کے ہیں۔ یہ بات پریشان کُن ہے کہ ان دونوں ایشوز کا تعلق سیدھا جا کر شیعہ علماء سے بنتا ہے۔ جو ہوا سو ہوا، لیکن اب تو شیعہ عمائدین اور اکابرین کو تھنک ٹینکس کی تشکیل کو سنجیدگی سے لینا چاہیئے۔ اس موضوع پر محترم تبرید حسین صاحب کا ایک کالم بعنوان “تیری رہبری سے سوال ہے” ہماری نظروں سے گزر چکا ہے، لہذا قارئین سے گزارش ہے کہ اُن کا مذکورہ کالم ایک مرتبہ ضرور پڑھیں۔

دوبارہ چلتے ہیں بلوچ صاحب کے انٹرویو کی طرف۔ ان کے انٹرویو میں جو سب سے بڑی پریشان کُن بات مجھے نظر آئی، وہ اُن کا یہ کہنا تھا کہ یہ بِل تو پہلے سے موجود تھا، اعتراض سزا کے بڑھانے پر ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ لوگوں پر ابھی تک یہ بھی واضح نہیں ہے کہ اصلی اور حقیقی اعتراض کیا ہے۔؟ سزا کے بڑھانے پر شور بلند ہونے کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ یہ اعتراض صرف سزا بڑھانے پر ہے۔ منطقی، عقلی، حقیقی، اصلی، بنیادی اور اساسی اعتراض تین باتوں پر ہے: ایک، توہین کی جامع و مانع تعریف کی جائے۔ کیا علم و ادب کے دائرے میں تاریخی حقائق لکھنا و بیان کرنا اور تجزیہ و تحلیل کرنے کو توہین کہتے ہیں یا نہیں، غیر علمی و غیر مودّبانہ گالی گلوچ کو توہین کہتے ہیں۔؟

دو، اسی طرح صحابہ کرام کی تعریف میں بھی مشخص کیا جائے کہ کیا آلِ رسولؐ سے آشکارا بغض رکھنے والوں، ان کے ساتھ جنگیں لڑنے والوں اور انہیں شہید کرنے یا درپردہ شہید کرانے والوں کو بھی صحابی کہا جائے گا یا نہیں،؟ صحابی صرف وہ عظیم ہستیاں ہیں، جنہوں نے رسولؐ کے وصال کے بعد اُن کی آل کے ساتھ اطاعت و مودتّ اور عقیدت کا رشتہ نبھایا۔ تین، تیسرا اعتراض یہ ہے کہ اس بِل میں سب سے پہلے خود رسول اکرمؐ، اُن کے والدینِ گرامی اور اُن کے چچا حضرت ابو طالبؑ کی توہین کی سزا کو شامل کیا جائے۔ رسول خداؐ کو نعوذ باللہ کوئی گنہگار اور فاسق انسان اگر اپنے جیسا کہے اور لکھے تو یہ سرورِ دو عالم کی توہین ہے، اس طرح سرکار کے عظیم الشّان والدین کو اور عظیم محسن و چچا حضرت ابو طالبؑ کو نعوذ باللہ اگر کوئی مشرک و کافر جیسی گالیاں لکھے یا کہے تو اُسے بھی توہینِ پیغمبرؐ کی پاداش میں سزا ملنی چاہیئے۔

مسلمانوں کے نزدیک سب سے مقدس ہستی نبی کریمﷺ کی ہے۔ یہ کہاں کی منطق ہے کہ خود نبی ؐ، اُن کے والدین اور اُن کے محسن چچا کی توہین پر تو کوئی سزا نہ ہو اور نبی ؐکے غلاموں، خادموں، کنیزوں کیلئے قانون سازی کی خاطر زور لگایا جائے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ دال میں ضرور کچھ کالا ہے، ورنہ سب سے پہلے نبی کریمؐ اور اُن کے بزرگان کی اہانت اور توہین کو روکا جاتا۔ ہم نے پہلی فرصت میں اربابِ حل و عقد کی خدمت میں یہ تین اعتراضات پیش کر دیئے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

مذکورہ بالا انٹرویو میں ایک خوش آئند بات بھی تھی اور وہ یہ کہ لیاقت بلوچ صاحب اپنے لب و لہجے سے کافی پُرامید تھے اور انہوں نے یہ کہا کہ ان شاء اللہ ہم سارے قائدین کے ساتھ مل کر راستہ تلاش کر لیں گے۔ یقیناً اتنی بڑی شخصیت سے ایسی ہی امید رکھی جا سکتی ہے۔ تاہم میں آخر میں انہیں اور اُن جیسے دیگر بزرگان کو ایک مرتبہ پھر یہ یاد دہانی کرانا چاہتا ہوں کہ اصلی اعتراض ایک نہیں بلکہ منطقی، عقلی، حقیقی، اصلی، بنیادی اور اساسی اعتراضات تین ہیں۔ یہ تین اعتراضات ختم ہو جائیں تو پھر سزا کی مدّت و نوعیت اور جرمانے پر بحث کی باری آئے گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
محترم تبرید حسین کا کالم
http://voiceofnation.blogfa.com/post/1858

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply