پانچ صاحب اسلوب شاعر/عامر حسینی

روٹین ورک کہیے یا روزانہ کی بنیاد پر اپنی قوتِ  محنت کو اُجرت کے عوض بیچنے کا معاملہ کہیے یا پھر استاد مارکس کی زبان میں رشتہ زیست کو قائم رکھنے کے لیے اپنی پیدا قدر زائد کو اُجرت کے عوض سرمایہ دار کے قبضے میں جانے کا عمل کہیے یہ ہمارے جسمانی اعضاء کو ہی آہستہ آہستہ نگلتا نہیں ہے بلکہ یہ ہمیں آہستہ آہستہ مشین میں بدلتا جاتا ہے۔ ہمارے پاس نہ دن کو احساس جمال سے کام لیتے ہوئے زندگی کی حیوانی سطح سے اوپر ہوکر تخلیق کرنے اور اُس سے حِظ اٹھانے کا وقت ہوتا ہے اور نہ ہی رات کو یہ فرصت میسر آتی ہے کہ دل و دماغ کے ساتھ پورا جسم دُکھ رہا ہوتا ہے۔ اور علیٰ  الصبح اُٹھ  کر پھر ہمیں وقت پر اپنی اُجرتی غلامی کےمقام جسے عُرف عام میں “کام کی جگہ” کہتے ہیں، پہنچنے کی فکر ہوتی ہے ۔ لیکن جن کے اندر احساسِ  جمال بھرا ہوتا ہے اُن کا جذبہء  تخلیق شعر کہنے کی، شعر پڑھنے کی، فکشن لکھنے کی، فکشن پڑھنے کا وقت پہلے سے مختصر ہو کے نیند کے دورانیہ کو مزید کم کرتے ہوئے نکال ہی لیتا ہے۔

میں صبح 8 بجے سے کام کرنے لگا اور کرتا ہی چلا گیا ۔یہاں تک کہ اعصاب جواب دے گئے اور میں کام کرنے والی کرسی پر بیٹھا بیٹھا سو گیا اور ایک گھنٹہ بعد بیدار ہُوا تو سامنے میرے “پانچ صاحبِ اسلوب شاعر  ” منتخب کلام” پڑی تھی، میں نے اُس کی ورق گردانی شروع کی تو ایک کے بعد ایک شاعر کا منتخب کلام پڑھتا چلا گیا۔ اور جو سفر میں نے محبوب خزاں کے منتخب کلام سے شروع کیا تھا وہ شکیب جلالی سے غلام محمد قاصر سے ہوتا ہوا ثروت حسین کی منتخب شاعری سے گزرتا ہُوا کب جمال احسانی کے منتخب کلام تک پہنچا مجھے پتا بھی نہ چلا ۔ اگرچہ میں غلام محمد قاصر، شکیب جلالی، ثروت حسین اور جمال احسانی کو زندگی کے مختلف ادوار میں بار بار پڑھا ہے لیکن اس بار کی قرات کا مزا اور تھا اور لُطف بھی بھرپور، میں با آوازِ بلند یا یوں کہہ لیجیے کہ جہری قرات کے ساتھ پڑھا کچھ وقت کے لیے میں اپنی محنت قدر زائد کی شکل میں کارپوریٹ سرمایہ میں جمع ہونے سے پیدا شدہ دکھ کو فراموش کر بیٹھا اور محنت کی لُوٹ سے جنم لینے والے احساسِ بیگانگی کو میں ادبی سطح پر موجود احساسِ بیگانگی سے ملانے میں کامیاب ہوگیا۔
اے بہارِ سر گراں تو خزاں نصیب ہے
اور ہم ترس گئے تیرے التفات کو

بھاگتے جاؤ کسی سمت کسی سائے سے
تذکرہ ایک ہے، افسانہ در افسانہ کہو

جو کھیل جانتے ہیں اُن کے اور انداز
بڑے سکون، بڑی سادگی سے کھیلتے ہیں

خزاں کبھی تو کہو ایک اُس طرح کی غزل
کہ جیسے راہ میں بچے خوشی سے کھیلتے ہیں

محبوب خزاں پر ہمارے ہاں زیادہ نظر نہیں گئی، انھیں ابھی اور دریافت ہونا ہے لیکن یہ بھی کم نہیں کہ 70ء کی دہائی سے لیکر ا ب تک اُس دہائی کی نمائندہ شاعری کی آوازوں میں اُن کی آواز شامل کیے بغیر کوئی تذکرہ شعر و ادب مکمل نہیں ہوتا ۔ یہ میرا اپنا احساس ہے اس سے آپ کو اختلاف کا پورا حق ہے ۔

شکیب جلالی سے جب سے میں متعارف ہُوا، تب سے اب تک اُن کو نہیں بھولا، وہ ایک ایسے شاعر ہیں جن کی جدید غزل کا اسلوب اور بوطیقا مجھے اپنے سحر سے نکلنے نہیں دیتی، عماد قاصر بھائی کا انتخاب بھی زبردست ہے ۔ شکیب نے مجھے دیمک کے لکھے تبصروں کو دیکھنا سکھایا اور اَنا کے پندار کو قائم رکھتے ہوئے اپنے ہی قدموں پہ گرنے کا ہُنر بھی، یہاں اُن کے اشعار اس لیے درج نہیں کررہا کہ انھیں ہر ایک نے سُن بھی رکھا ہے اور زیرِ  لب یا قرات جہری کے ساتھ دوہرا بھی۔۔
تونے کہا نہ تھا کہ کشتی پہ بوجھ ہو‍ ں
آنکھوں کو اب نہ ڈھانپ، مجھے ڈوبتا بھی دیکھ

رکھتا ہے خود سے کون حریفانہ کش مکش
میں تھا کہ رات اپنے مقابل ہی ڈٹ گیا

جمنے لگی، شکیب جو پلکوں پہ گردِ شام
آنکھوں میں پھیلنے لگا خوابِ سحر کا رنگ

شکیب ایسا شاعر ہے جو مجھے فکشن نگار کی طرح ڈاکیوفکشن اشعار میں کرافٹ کرتا نظر آتا ہے اور   اُس کا یہی ہنر مجھے بار بار حیران کرتا ہے۔

روز لاتی ہے اَن کہے پیغام
شہر خوباں کوچہ ء گردِ ہَوا

ہمارے شہروں کی آلودگی ہی ہماری سانسوں کو ہی نہیں اُکھیڑتی بلکہ ہمارا شہرِ تن بھی یہی کام کرتا ہے۔۔
سانس گُھٹتی ہے شہرِ تَن میں شکیب
کس خلا کی ہے رَہِ نَورد ہَوا

میں شکیب کے اس شعر کو جب بھی پڑھتا ہوں تو نجانے کیوں میری آنکھوں کے سامنے سقراط سے لیکر ابو زر تک، عماریاسر سے لیکر میثم تمار تک، حسین ابن ِ علی سے لیکر بھگت سنگھ تک اور چی  گویرا و حسن ناصر سے لیکر نذیر عباسی تک اور رزاق جھرنا سے لیکر ایاز سموں تک اور شاہنواز سے لیکر میر مرتضیٰ اور بے نظیر تک نایاب صدیقی سے لیکر ساجد خاصخیلی تک اور قرۃ العین طاہرہ سے لیکر کریمہ بلوچ تک اور اسد الزمان سے لیکر شیخ مجیب تک اور الاندے سے لیکر بھٹو تک نجانے کتنے شہیدوں کے لہو کے چھینٹے اپنی فصیلِ جاں پر نظر آنے لگتے ہیں۔
فصیلِ جسم پر تازہ لہو کے چھینٹے ہیں
حدودِ وقت سے آگے نکل گیا ہے کوئی

ہم میں سے کتنے ہیں جن کی ہمت جواب دے گئی ہے لیکن اس دوران کتنے دیوانے ہیں جنھوں نے رختِ سفر ابھی تک باندھا ہوا ہے،
ہمت نے جواب دے دیا ہے
دیوانے پھر بھی چَل رہے ہیں

غلام محمد قاصر واحد تخلیق کار نہیں تھے جنھیں مشین ہوجانے کا دھڑکا لگا رہتا تھا اور وہ یہ سوچ کر لرزتا رہتا تھا
کروں گا کیا جو محبت میں ہوگیا ناکام
مجھے تو اور کوئی کام بھی نہیں آتا

چُرا کے خواب وہ آنکھوں کو رہن رکھتا ہے
اور اُس کے سر کوئی الزام بھی نہیں آتا

کبھی کبھی مجھے اپنے ڈھیٹ پَن پر بہت غصہ آتا ہے، میں اپنے آپ سے برہم رہنے لگتا ہوں، سوچتا ہوں کہ یہ بائی پولر ڈس آڈر، پوسٹ ٹراما سچوئشن، اینگزائٹی اور ڈپریشن مجھے اُس طرح سے تباہ و برباد کیوں نہیں کرتے جس سے تخلیق کےسوتے پھوٹتے ہیں اور ثروت حسین جیسے لوگوں کا جنم ہوتا ہے جو حیدرآباد کے اسٹیشن پر بیٹھ کر ایسے شعر کہہ لیتے ہیں،
پاؤں ساکت ہوگئے ثروت کسی کو دیکھ کر
اِک کشش ماہتاب جیسی چہرہِ دلبر میں تھی

خزاں کی دوپہر ہے اور بیٹھا سوچتا ہوں میں
مسلسل خاک ہوتا یہ مکاں بھی ایک آیت ہے

موت کے درندے میں ایک کشش تو ہے ثروت
لوگ کچھ بھی کہتے ہوں خود کشی کے بارے میں

جمال احسانی ایک ایسے شاعر ہیں جنھیں جب جب بھی پڑھا ایک نئی تازگی روح و بدن کو ملی اور کوئی دن ایسا نہیں جاتا جب میں اُن کو نہ پڑھتا ہوں اور ہر بار پڑھتے ہوئے مجھے یہ احساس ہوتا ہے جیسے پہلی بار پڑھ رہا ہوں میں، اُن کا یہ شعر تو مجھے روز ہی یاد آتا ہے

نہ کم سمجھ سفرِ عمر یک نفس کو جمال

اُس ایک راہ میں سارا جہان پڑتا ہے

اس مرتبہ جب کوہ سلیمان کی ردکوہیوں می‍ں سرمایہ داری کی آلودہ ترقی کے سبب سیلاب کی تباہ کاریوں نے جن المیوں کو جنم دیا تو مجھے جمال احسانی کا یہ شعر رہ رہ کر یاد آتا رہا،
برہنگی ہے کچھ ایسی کہ جسم ڈھانپنے کو
زمین کے واسطے کم آسمان پڑتا ہے

ایسے اشعار صرف جمال احسانی ہی کہہ سکتا تھا
بہت ہشیار ہوں، اپنی لڑائی آپ لڑتا ہوں
میں دل کی بات کو دیوار پر لکھا نہیں کرتا
(ایک ستم ظریف نے یہ شعر سُن کر مجھے کہا کہ جمال احسانی کے دور میں کمبخت یہ فیس بُک نہیں ہوا کرتی تھی)
اگر پڑ جائے عادت آپ اپنے ساتھ رہنے کی
یہ ساتھ ایسا ہے کہ انسان کو تنہا نہیں کرتا

جو دل کے طاق میں تونے چراغ رکھا تھا
نہ پوچھ میں نے اُسے کیسے ستارہ کیا

عجب ہے توُ کہ تجھے ہجر بھی گراں گزرا
اور ایک ہم کہ ترا وصل بھی گوارہ کیا

رویا ہوں ایک ہستیِ نادیدہ کے حضور
مٹی میں آنسوؤں کو ملانے کا دکھ ہوا

لوگوں کو بھی ملال ہوا ہے میرے حال پر
مجھ کو بھی داستان سُنانے کا دُکھ ہوا

کاش میں تجھ پہ ریاضی کے سوالوں کی طرح
خود کو تقسیم کروں، کچھ بھی نہ آئے حاصل

ایک ایسی ہی خزاں کی سرد رُت تھی اور اتوار کا روز، رات کے دس بج رہے تھے، میں پروفیسر ضیغم شمیروی مرحوم کے گھر اُن کے کمرے میں ایک کرسی  پر  براجمان تھا اور سامنے بستر پر پروفیسر صاحب لیٹے ہوئے تھے اور بات وہ کررہے تھے ایسے کرافٹ کی جس میں شاعری کرنا ہر کس و ناکس کے بس میں نہیں ہوا کرتا اور مجھے مصطفیٰ خان شیفتہ کے شعری کرافٹ کی مثال دیتے ہوئے کہہ رہے تھے کہ اسد اللہ خان غالب یونہی شیفتہ کو اپنا استاد نہیں کہتے تھے شیفتہ کا کرافٹ انھیں ایسا کہنے پر مجبور کرتا تھا اور اس طرح کے انکسار کے اظہار میں اُن کی بڑی اَنا اُن کے آڑے نہیں آتی تھی ۔ میں اُن کی کہی بات کے چھور کو اُس وقت تو ٹھیک سے پا نہیں سکا تھا لیکن جب میں نے جمال احسانی کو پڑھا تو مجھے اُن کے کہے کی سمجھ آئی ۔ خاص طور پر جب میں نے اُن کی وہ غزل پڑھی جو ایک فقیر کو گاؤں کی پکی سڑک پر چلتے دکھاتے ہیں۔۔ پکی سڑک گاؤں کی۔۔ پیچھے گونج کھڑاؤں کی۔۔۔ ایڑی سیدھے پاؤں کی۔۔۔ کیا کرافٹنگ ہے، کیا ردھم ہے، کیا روانی ہے!

ایک فقیر چلے جاتا ہے پکی سٹرک پر گاؤں کی
آگے راہ کا سناٹا ہے، پیچھے گونج کھڑاؤں کی
اُس رستے میں پیچھے سے اتنی آوازیں آئیں جمال
ایک جگہ تو گھوم کے رہ گئی ایڑی سیدھے پاؤں کی

عماد قاصر نے پانچ شاعروں کے اسلوب کو صرف اُن کی شاعری کے منتخب کلام سے ہمارے سامنے مجسم نہیں کیا بلکہ اپنے بُرش کے اسٹروک سے اُن کی تصویروں میں اپنے وفور تخلیق اور تخیل سے بھی انھیں ہمارے سامنے لا کھڑا کیا ہے ۔

فراست رضوی اس کتاب کے مقدمے میں لکھتے ہیں،
آج ستر کی دہائی کے ان قلمکار ساتھیوں پر ہم نظر کرتے ہیں تو ہم دیکھتے ہیں ان میں ناظمہ طالب اور سید ساجد کو قتل کردیا گیا، شکیب جلالی، آنس معین اور ثروت حسین نے خود کُشی کرلی، شاہد اختر شیزوفرینیا کا شکار ہوکر جوانی میں داغِ مفارقت دے گئے۔ پروین شاکر نے شہرت کی بلندیوں کو چُھولیا،لیکن وہ جوانی میں ہی ایک ٹریفک حادثے کا شکار ہوگئیں مگر اپنے پیچھے بہترین نسائی شاعری کا ایک بڑا ذخیرہ چھوڑ گئیں۔

عماد قاصر کا یہ انتخاب ناصر کاظمی کے “انتخابِ میر” کی طرح شہرت کی اُن بلندیوں کو نہ بھی چھوئے تو ہمارے ذخیرہ انتخاب شاعری میں اہم درجہ ضرور پالے گا ۔

Advertisements
julia rana solicitors

حمایت علی شاعر نے اپنے ادارہ “رنگ ادب” سے اسے شائع کرکے اُردو ادب کی ایک بڑی خدمت سرانجام دی ہے ۔
میں اس انتخاب کو اپنی اکثر پڑھی جانے والی کتابوں کے ساتھ اپنی میز پر رکھنے کے قابل سمجھتا ہوں اور اس پر انھیں داد کا مستحق قرار دیتا ہوں ۔

Facebook Comments

عامر حسینی
عامر حسینی قلم کو علم بنا کر قافلہ حسینیت کا حصہ ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply