مشہورِ زمانہ ناول’’ اینمل فارم‘‘ یا جانورستان/انیس رئیس

انسان اور جانور جنم جنم کے ساتھی ہونے کے باوجودکہیں ایک دوسرے کے رقیب نظر آتے ہیں تو کہیں ان دونوں کی ایک دوسرے سے دشمنی جان لیوا حد تک خطرناک ہوجاتی ہے ۔ایک طرف اشرف المخلوقات کا عقیدہ انسان کو دیگر تمام چرندوں ، پرندوں اور خزندوں سے برتر قرار دیتا ہے تو دوسری طرف مروجہ سائنسی نظریات کے مطابق تہذیب وتمدن سے آراستہ جدید انسان کا ماضی بھی نہ صرف وحشی جانوروں کا سا تھا بلکہ انسان کا خمیر بھی اسی مادہ سے استوار ہوا ہےجس سے جانور وں نے تخلیق پائی۔ بظاہر تو انسان اور جانور دو متضاد الفاظ معلوم ہوتے ہیں مگر سوچئے اگر ہماری دنیا جانور وں سے خالی ہوتی توروئے زمین پر بسنے والا انسان ایک خوفناک تنہائی کا شکار ہوکر اس قدر اُداس اور ملول ہوجاتا کہ اس کا اپنا وجودہی خطرے میں محسوس ہوتا ۔

انسانوں اور جانوروں کا ماخذ مشترک ہے یا مختلف اس سے قطع نظر اس حققیت سے انکار ممکن نہیں کہ کھانےپینے، اٹھنے بیٹھنے ، سونے جاگنے حتی کہ لڑنے جھگڑنے اور بچے پیدا کرنے سمیت ہماری بہت سی صفات ایک دوسرےسے ملتی جلتی ہیں بلکہ بعض صفات تو ایسی ہیں جو ہم نے اپنے پیش رو جانوروں سے ورثے میں پائی ہیں ۔لیکن انسان کی بعض جبلی اور فطری استعدادیں اس قدر حیرت انگیز اور شاندار ہیں کہ ان کی انتہاؤں کا راز کوئی نہیں جانتا سوائے اس بر تر ہستی کے جس نے انہیں تخلیق کیا ہے ۔

روئے زمین پر انسانوں اور جانوروں کے مابین اقتدار کی کشمش ہزاروں اور لاکھوں نہیں کروڑوں برس پرانی ہے ۔ایک وقت تھا جب دیو ہیکل ڈائنو سارزاور کئی کئی میٹرز پر مشتمل خونخوار جنگلی حیات ہی سطح زمین کے سیاہ وسفید کی وارث تھی۔لیکن شعور و آگہی سے مزین انسانی ارتقاء کی تاریخ سے پتا چلتا ہے کہ جب شکاری اور ذخیرہ اندوز انسانوں نےہزاروں برس پرانے شغل کو الوداع کہہ کر زراعت اور کھیتی باڑی کی طرف توجہ کی تو اس کے بعد آزاد منش جانوروں کو سدھانے کے نام پر انسانوں کا غلام بنایا جانے لگا ۔ عقل وشعور سے آراستہ انسان اونٹ ، گھوڑے ، گائے، بھیڑ ، بکریوں اور مرغیوں کی خوب خاطر تواضح کرنے لگا اور اس کی صحت و خوراک کا خوب خیال رکھنے لگا تاکہ ان جانوروں کو اپنے زیر نگیں رکھ کر ان سے مال برداری کاکام لے اور ان سے حاصل ہونے والادودھ وگوشت اپنے پیٹ بھرنے کے لئے استعمال کرے ۔

جانوروں اور پرندوں کو سدھانے کے ساتھ ساتھ دونوں ایک دوسرے کی عادات و خصائل سے بھی خوب واقف ہونے لگے ۔جانوروں سے ہم کلام ہونا ، پرندوں اور جانوروں کی زبان میں مکالمے کرنا، شاعری میں محبوب کے نازو ادا کو پرندوں اور جانوروں سے تشبیہ دینا ازمنہء قدیم سے انسان کی عادت چلی آرہی ہے ۔ سنسکرت یا پہلوی سے عربی زبان میں ترجمہ ہونے والی مشہور زمانہ کتاب ’’ کلیلہ و دمنہ‘‘ ہو یا کارٹون کی دنیا میں Mickey Mouseجیسے کردار ان سب میں جانوروں کی زبان میں انسان کو محظوظ کرنے کےسامان کئے گئے ہیں۔اردو شاعری میں عندلیب اور بلبل کے قصے ، غزال کی آنکھیں ، طاؤس اورشاہین کی مثالیں اور فاختہ و مینا کی کہانیاں نہ صرف انسانوں کا دل لبھاتی بلکہ ایک لمحہ کے لئے تویُوں محسوس ہوتا ہے کہ انسان اور جانور کوئی ایک سے ہی کردار ہیں ۔

مشہور برطانوی مصنف جارج آرویل نے ’’اینمل فارم‘‘ میں ایک طنزیہ تحریر کے انداز میں جانوروں کی زبان میں ہی ایک ایسے انسانی المیہ کو بیان کیا ہے کہ جس کا اطلاق ہر دور کے انسان پر بآسانی کیا جا سکتا ہے ۔گوکہ یہ افسانہ کمیونزم پر ایک گہرا طنز اور انقلابِ روس کے بعد جوزف اسٹالن کے سیاسی مظالم پر ایک طنزیہ نوحہ ہے لیکن دراصل یہ انسانیت کی فلاح و بہبود اور مساوات کے نام پر برپا ہونے والے ان تمام انقلابات کی قلعی کھول رہا ہے جو اوّل اوّل نہایت خو بصورت خوابوں اور نعروں سے شروع ہو کر نہایت بھیانک انجام اور پر تشدد جور وستم پر منتج ہوتے ہیں ۔ اس ناول میں یہ سبق ملتا ہے کہ جب کسی انقلاب کی قیادت اقتدار کے رسیا لوگ کرر ہے ہوں تو پھر عوام کے بل پر برپا ہونے والے انقلاب کے نتیجہ میں اگر قسمت بدلتی ہے تو وہ صرف ان آقاؤں اور حکمرانوں کی جنہیں ہم آسان زبان میں اشرافیہ کہہ سکتے ہیں۔

جارج آرویل بیسویں صدی کے ایسے ناول نگاراور لکھاری ہیں کہ جنہیں اپنی تحریروں اوروضع کردہ اصلاحات کی بدولت شہرتِ دوام حاصل ہوئی ۔ ان کی تخلیق کردہ اصطلاح ’’ کولڈ وار‘‘ یا سر د جنگ آج بھی زبان زدِ خاص و عام ہے ۔1984کے نام سے شائع ہونے والا ان کا ایک اور ناول بیسویں صدی کے دس بہترین فکشن میں شمار ہوتا ہے جس میں ’’بگ برادر‘‘ کا ایسا کردار متعارف کروایا گیا ہے کہ جو جدید آلات اور جاسوسی نیٹ ورکس کے ذریعہ سے شہریوں کی زندگی کو اجیرن بنائے رکھتا ہے ۔لیکن اینمل فارم جو ایک علامتی ناول ہےجارج آرویل کی ایک ایسی تخلیق ہے جو مشرق و مغرب میں یکساں مقبول ہوئی ۔ اس افسانے کی ہمہ گیریت اور آسان فہم زبان کے علاوہ پسماندہ و ترقی یافتہ ہر دو معاشرے اس اندازِ تحریر کو اپنے مسائل کا ترجمان گردانتے ہیں۔یہ ناول سب سے پہلے 1945ء میں شائع ہوا اور آج تک اس کے بے شمار ایڈیشن اور دنیا کی متعدد زبانوں میں تراجم شائع ہوچکے ہیں۔ اس کا اردو ترجمہ جانورستان یا مویشی خانہ کے نام سے کیا گیا ہے۔یہ ناول نہایت معنی خیز انداز میں اور غیرمعمولی ہمہ گیریت کے ساتھ حکمران اشرافیہ کی خود غرضانہ سیاست اور ذاتی مفادات پر مبنی اندازحکمرانی کو عیاںکرتا ہے ۔

اینمل فارم کی کہانی کے مطابق مسٹر جونز کے کھیت و کھلیان میں بسنے والے جانور اور پرندے ایک حسین سپنا دیکھتے ہیں ایک ایسی تبدیلی کا خواب دیکھتے ہیں جس سے ان کی قسمت بدلنےوالی اور کایا پلٹنے والی ہے ۔ فارم ہاؤس کا سب سے پرانا ساتھی ’’بوڑھامیجر ‘‘ تمام جانوروں اورپرندوں کو اکٹھا کر کےایک انقلابی تقریر کرتا اورانہیں حسین سپنے دکھاتے ہوئے اکساتا ہے کہ انسان حد درجہ ظالم اور بے رحم ہیں، یہ جانوروں سے نہایت برا سلوک کرتے ہیں اور ان کی حق تلفیاں کرتے ہیں۔ بوڑھے میجر کا انداز بیان نہایت سحر انگیز ہے وہ اپنے جانور بھائیوں سے یوں مخاطب ہوتا ہے کہ:۔

اے میرے قفس زادساتھیو! کل رات میں نے ایک عجیب خواب دیکھا ہے جسے آپ سب جانوروں کے گوش گزار کرنا اپنا فرضِ منصبی سمجھتاہوں۔ اس سے پہلے کہ میں آپ کو اپنا خواب سناؤں، آپ سے کچھ باتیں کرنا چاہتا ہوں۔ شاید اس کے بعد مجھے آپ سے اس طرح بات کرنے کاموقع دوبارہ نہ ملے۔۔۔میرے ہم قفس دوستو!اب میں تمہیں سناتا ہوں کہ رات میں نے خواب میں کیسی انہونی بات دیکھی۔ میں نے دیکھا کہ ہم سب جانور آزاد ہیں اور ایک خوبصورت جنگل میں آزادی کے ساتھ ادھر ادھر گھوم رہے ہیں۔ اس خواب کے ساتھ مجھے بچپن میں گایا ہوا ایک خوبصورت گیت بھی یاد آگیا جو میں ابھی تک بھولا ہوا تھا۔اس پیارے سے گیت کو میں بچپن میں ایک دل لبھانے والی دھن میں گایا کرتا تھا جو کچھ یوں تھی۔ اگر چہ آج میرا گلہ کچھ خراب ہے پھر بھی آج آپ کی خاطر میں کوشش کرتا ہوں۔۔۔ہمارےدکھوں اور مصیبتوں کا مداوا صرف اس بات میں ہے کہ ہم انسان سے نجات حاصل کر لیں ۔انسان ہی ہمارا واحد دشمن ہے۔ ہم آج انسان کو صفحہ ہستی سے مٹا دیں تو ہماری بھوک کا علاج اور دکھوں کا مداوا ہو جائے گا ۔ یہ انسان ہی ہے جو نہ محنت کرتا اور نہ کسی تکلیف سے گزرتا ہے بلکہ عیش و آرام سے ہماری محنت کی پیداوار کھا جاتا ہے۔نہ یہ دودھ دیتا ہے اور نہ انڈے بلکہ ایسا سست اور کاہل ہے کہ خودزمین میں ہل تک بھی نہیں چلا سکتا ۔نہ اس کو کوئی گاڑی کھینچنی آتی ہے ۔ اس کو تو اتنا تیز دوڑنا بھی نہیں آتا کہ یہ خرگوش کو پکڑ سکے مگر پھر بھی ہم سب جانوروں کا مالک بنا بیٹھا ہے ۔وہ ہم سب کو الگ الگ کام پر لگاتا ہے اور قُوت لا یَمُوت کے برابر کھانا دیتا ہے ۔صرف اتنا کہ جس پر ہم بمشکل زندہ رہ سکیں۔

جانور بوڑھے میجر کے سحر میں آجاتے ہیں اور یوں یکجان ہوجاتے ہیں کہ انسان ایسے پر امن معاشرہ کا محض تصور ہی کرسکتے ہیں۔لیکن جب جانور اپنے اتحاد اور اتفاق کی بدولت فارم ہاؤس سے انسان کو بے دخل کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں اور کھیت و کھلیان پر ان کی حکومت قائم ہوجاتی ہے تو وہ بھی انہی ’’انسانی حرکتوں‘‘ پر اُتر آتے ہیں کہ جس کے خلاف انہوں نے کامیاب جدو جہد کرتے ہوئے ایک تاریخی انقلاب برپا کیا تھا ۔جانوروں کی حکومت قائم ہوجانے کے بعد اقتدار سؤروں پر مشتمل ایک بالا دست طبقے کے سپرد ہوجاتا ہے ۔ بالادست طبقہ کو اپنے کارناموں کی تشہیر کے لئے ایک دوست جس کا نام ’’سیکولر‘‘ ہے مل جاتا ہے۔’’ سیکولر‘‘ چرب زبانی میں اپناثانی نہیں رکھتا ۔ وہ وزارت اطلاعات سنبھالتے ہوئے مثبت رپورٹنگ میں لگ جاتا ہے اور حکمراں اشرافیہ کی غلطیوں پر پردے ڈالتے ہوئے ، ان کے جو ر وستم کی بجائے صرف اچھے کاموں کو معاشرے کے سامنے پیش کرتا ہے ۔’’سیکولر‘‘ اپنے جانور بھائیوں کو قائل کرتا ہے کہ چونکہ سؤر دماغی کام کرتے ہیں لہذا انہیں بہتر خوراک کی ضرورت ہے ۔ فارم ہاؤس کا دودھ اور سیب سؤروں کی خوراک قرار پاتے ہیں ۔ اس کے بعد اقتدار کی کشمش اور بندر بانٹ دو سؤر بھائیوں میں اختلاف ڈال دیتی ہے ، حتی کہ سؤر وں میں سے نیپولین حکمران بن جاتا ہے اور دوسرے بھائی’’ سنو بال‘‘ کو ملک سے بھاگنا پڑتا ہے ۔

جانوروں نے ابتداء میں یک زبان ہو کریہ قرار داد پاس کی تھی کہ ہم انسانوں جیسی حرکات نہیں کریں گے، دو پاؤں پر چلنے والوں کو اپنا دشمن سمجھیں گے اور ایسی پر تعیش زندگی سے دور رہیں گے جو انسان بسر کرتے ہیں ۔مگر جلد ہی یہ اصول بدل جاتے ہیں اور سؤرصاحب بھی دو پاؤں پر چلنا شروع کر دیتے ، دسترخوانوں پر انواع اقسام کے کھانے کھاتے اور نرم بستروں میں سونے کے عادی ہوجاتے ہیں۔

اینمل فارم کے باسیوں کے لئے وہ رات انتہائی اداس کردینے والی مایوسی لئے ہوئی تھی جب انہوں نے دیکھا کہ ان کا محبوب انقلابی راہنما کامریڈ نپولین اپنے وزیروں اور مشیروں کے ہمراہ قریبی فارم ہاؤس کے بدنامِ زمانہ ظالم و جابر مالکان کے ساتھ اکل و شرب اور خوش گپیوں میں محو ہیں ۔آج جانوروں کے تمام سپنے ٹوٹ چکے تھے اوران کے لئے انسان یا جانور میں فرق کرنا مشکل تھا۔

جارج آرویل کے مطابق یہ ناول بنیادی طور پر تو انقلابِ روس پر ایک Staireہے لیکن اس کا اطلاق بڑے پیمانے پر بھی کیا جا سکتا ہے ۔ پس اینمل فارم کے دس ابواب میں بیان شدہ حالات و واقعات آج کےجدید اور پسماندہ دونوں معاشروں پر بآسانی منطبق کئےجاسکتے ہیں ۔ بوڑھے میجر کے خواب سے لے کر اینمل فارم کی آزادی تک ، سنوبال کا قتل ہو یا پن چکی کی تعمیر کے لئے عوام کی خواہش و قربانیاں،مسٹر جونز کے کھیت پر دوبارہ حملہ کے وقت جانوروں کی اپنے مالوف کے لئے بے مثال قربانیاں ہوں یا اقتدار کے رسیا طبقہ کی من مرضی کی آئینی تشریحات ہر خاص وعام اپنے ملک و معاشرہ کی اشرافیہ میں یہ اوصاف مشاہدہ کر رہا ہے اورتبدیلی کے ہر نعرے اور ہر انقلاب کی حقیقت کچھ یوں سامنے آتی ہے کہ یہ سپنا دیکھنے والے یہ سوچنے پر مجبور ہوجاتے ہیں کہ:۔

وہ انتظار تھا جس کا یہ وہ سحر تو نہیں

یہ وہ سحر تو نہیں جس کی آرزو لے کر

چلے تھے یار کہ مل جائے گی کہیں نہ کہیں

فلک کے دشت میں تاروں کی آخری منزل

نجاتِ دیدہ و دل کی گھڑی نہیں آئی

چلے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی

Advertisements
julia rana solicitors

جارج آرویل کا یہ علامتی ناول زمان و مکان کی قیود سے آزاد اس حقیت کاعکاس ہے تبدیلی کے خواہاں سادہ لوح عوام ایک چالاک اور مکارطبقہ کی باتوں میں آکر ان کے سحر میں یوں گرفتار ہوجاتے ہیں کہ انہیں جو خواب دکھائے جاتے ہیں وہ ان کی تعبیر پر حرف بہ حرف یقین کرنے لگتے ہیں ۔یہ ناول ایسے تمام طبقات پر گہرا طنز ہے جو تبدیلی اور انقلاب کے نام عوام کو اپنا گرویدہ بناتے اور بالآخر انہیں بے وقوف بنا کر ذاتی مفادات حاصل کرتے ہیں۔اس افسانے میں بیسویں صدی میں کمیونزم یا سوشلزم کے نام پر دکھائے گئے خواب اور عوام کی زبوں حالی کا نقشہ نہایت خوبی سے کھینچا گیا ہے لیکن اینمل فارم جس دور میں تخلیق ہوا اس وقت انسانیت جس رنج و الم سے دوچار تھی وہ سوشلزم کے المیہ سے کہیں بڑھ کر تھا ۔ اینمل فارم اگست1945ء میں عین اس وقت شائع ہوا جب ہیروشیما اور ناگاساکی کے انسان ایٹمی حملوں کے زخموں سے چُور کسمپرسی اور بے بسی کی تصویر بنے بیٹھے تھے ۔ جی ہاں بعینہ وہ ایام جب جنگ عظیم دوم کے فاتحین کروڑوں انسانوں کے مقبروں پر فتح کے جشن منانے کی تیاریاں کر رہےتھے ۔ ایڈولف ہٹلر اور مسولینی کو اس دنیا سے رخصت ہوئے ابھی چند ماہ ہی گزرے تھے ۔نوآبادیاتی نظام روبہ زوال تھا لیکن اقوام متحدہ کی صورت میں ایک نیا ’’ اینمل فارم‘‘ تشکیل پا رہا تھا ۔آج پھر مویشی خانے کے سرکردہ اور فاتحین اس بات پر متفق تھے کہ اب سے انصاف کا دور دورہ ہوگا، دنیا سے ظلم وستم کا خاتمہ ہوگا اور ہر ملک و قوم کے افراد باہم بھائی بھائی بن کر رہیں گے ۔فاتحین کی ویٹو پاور سے لیس اقوام متحدہ تشکیل پاگئی اور دنیا سے جنگ و جدل ہمیشہ کے لئے ختم ہوگیا اورپھرہر مذہب و ملت کے لوگ مل کر ہنسی خوشی رہنے لگے ۔ کاش کوئی جارج آرویل اُٹھے اور اس نئےجانورستان کا نوحہ لکھے ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply