قاتل کون ہے؟/ڈاکٹر نوید خالد تارڑ

یہ نہیں معلوم کہ پہلا تھپڑ کس نے مارا تھا۔ یہ بھی نہیں معلوم کہ کس کے زہریلے لفظ سب سے پہلے وجود کو چیرتے ہوئے گزرے تھے مگر یہ معلوم ہے کہ اس بچے کے لیے اس سے بڑھ کر کوئی تکلیف نہیں تھی کہ اس کی اس طرح تذلیل کی جاتی۔ سرِ بازار اس پہ چوری کا الزام لگایا جاتا۔

اسے کسی نے ایک دکان سے نکلتے دیکھا تھا، جہاں دکان دار موجود نہیں تھا اور اس کے ہاتھ میں ایک پرفیوم اور گھڑی تھے۔ کسی نے اس سے وضاحت نہیں مانگی ، اسے صفائی کا موقع نہیں دیا بس اس پہ چوری کا الزام لگا کر سب نے اسے پکڑ لیا تھا۔ اور پھر اسے پکڑتے ہی سب کو اپنی اپنی دکانوں سے گم ہوئی پرانی چیزیں بھی یاد آنے لگیں۔ پھر کوئی ثبوت ڈھونڈے بغیر سب اپنی اپنی دکانوں سے گم ہوئی چیزوں کی چوری کا الزام اس پہ لگاتے گئے۔ کیوں کہ الزام لگانا کون سا مشکل ہے ، مشکل تو الزام کو ثابت کرنا ہوتا ہے مگر ہمارے یہاں تو بس الزام لگانا ہی کافی ہوتا ہے ، ثابت کرنے کی تو ضرورت ہی نہیں ہوتی۔ سب جوانوں بوڑھوں نے بھرے بازار میں اس بچے پہ کی جانے والی مار پیٹ میں بڑھ چڑھ کر حصّہ لیا۔

پولیس کو بلایا گیا ، اس چھوٹے بچے کو کسی عادی مجرم کی طرح تھانے لے جایا گیا۔ اس کا گریبان کسی کے ہاتھ میں تھا تو قمیض کا پلو کسی کے ہاتھ میں۔ سب لوگ اس پہ تھو تھو کر رہے تھے ۔ بڑھتے الزامات کے ساتھ تذلیل بھی بڑھتی جا رہی تھی۔ لیکن کسی کو پرواہ نہیں تھی کہ اس بچے پہ کیا گزر رہی ہے ، یا اس بچے کی آنے والی زندگی پہ یہ سارا منظر کتنا اثرانداز ہو گا۔ سب لوگ بس تماشے کا حصہ بنے اس تماشے میں بڑھ چڑھ کر شامل  تھے۔

بچے کا باپ تھانے آیا تو ایک ایک الزام لگانے والے کو اس کے ہر نقصان کا ازالہ کرنے کا وعدہ کرتا گیا۔ کوئی ثبوت نہیں مانگا بس ان سے جان چھڑانے کی کوشش کی۔ سب کی ِمنت ترلے کر کے ان لوگوں سے اور پولیس سے جان چھڑا کر سر جھکائے بیٹے کو ساتھ لے گیا۔ تماشہ ختم ہوا تو سب نے اپنے اپنے گھر کی راہ لی۔ سب کے سینے تنے ہوئے تھے، سر فخر سے بلند تھے کہ ہم نے ایک عظیم کارنامہ سرانجام دیا ہے۔ دن گزرا ، شام ڈھلی اور سب اپنے اپنے بستر پہ چین کی نیند سو گئے۔

لیکن وہ بچہ جس کی بھرے بازار میں تذلیل کی گئی ، جسے سرعام زد و کوب کیا گیا اس کے بارے میں کون سوچتا۔ جب سب لوگ فخر سے سر بلند کیے جا رہے تھے تو وہاں سے سر شرم سے جھکا کر جانے والے کی پرواہ کسے تھی۔؟ سب سو گئے لیکن وہ بچہ کیسے سوتا ؟

اسے معلوم تھا کہ یہ تذلیل اب ساری عمر سہنی ہو گی ، یہ داغ ہمیشہ ماتھے کا کلنک بنا رہے گا۔ میرے ماں باپ میری وجہ سے سب سے نظریں چراتے پھریں گے۔ بستر پہ کروٹیں لیتا وہ بچہ کیسے سو جاتا۔ وہ لمبی رات اس بچے نے کس تکلیف میں گزاری ہو گی ، اس کا اندازہ کیسے کرے کوئی ؟

صبح ماں ناشتے پہ بلاتی ہے لیکن بچہ ناشتے کی ضرورت سے آگے بڑھ چکا ہے۔ وہ ناشتہ کرنے کے بجائے گھر سے باہر نکل جاتا ہے۔ ماں آوازیں دیتی ہوئی پیچھے آتی ہے۔ بچہ دریا کے پل پہ چڑھ جاتا ہے۔ ماں آوازیں دے رہی ہے مگر بچے کو اپنے جسم پہ لگی کالک دھونی ہے۔ وہ پل سے دریا میں چھلانگ لگاتے ہوئے پلٹ کر ماں کی طرف دیکھتا ہے ، الوداعی ہاتھ ہلاتا ہے اور اس سے زیادہ اسے مہلت ہی نہیں ملتی۔ اس کا جسم دریا کے یخ پانی میں ڈوبتا چلا جاتا ہے۔ ماں چیختی ہوئی بیٹے کی طرف بھاگتی ہے ، اس کا بیٹا اس کی آنکھوں کے سامنے جان کی بازی ہار رہا ہے ، اسے دیکھ کر ہاتھ ہلا رہا ہے مگر وہ اسے بچا نہیں سکتی۔ اس کے بیٹے تک پہنچنے سے پہلے ہی دریا کی تیز موجیں بچے کے جسم کو کہیں سے کہیں پہنچا دیتی ہیں۔

سب بچے کے بے جان لاشے کو ڈھونڈنے میں مگن ہیں اور کسی کو خبر نہیں کہ بچے کے تکیے کے نیچے اپنی بہن کے نام ایک چھوٹا سا پیغام درج ہے
I love you my dear sister, sorry

یہ کوئی فرضی قصہ نہیں ، کوئی افسانہ نہیں۔ چند دن پہلے پیش آنے والا ایک سچا واقعہ ہے۔ بچے کا باپ ان سب دکانداروں کے خلاف مقدمہ درج کروا چکا ہے جو چوری کا الزام لگانے میں پیش پیش تھے۔ لیکن اب اس سب سے کیا حاصل ؟

Advertisements
julia rana solicitors

ہمیں تو اندازہ بھی نہیں ہوتا کہ ہمارے لفظ کتنے ظالم ہو سکتے ہیں، کتنا گہرا اثر کر سکتے ہیں۔ ہم تو بس کہہ دیتے ہیں اور کہنے والے کا تو کچھ نہیں جاتا۔ سہنے والے پہ جو بھی گزرے وہی جانے۔ ہمیں کسی پہ الزام لگاتے ہوئے کوئی ثبوت نہیں چاہیے ہوتا ، بس شک ہونا ہی کافی ہوتا ہے۔ ہمیں کسی کی تذلیل کرنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا ، ہمیں تو بس اپنا شملہ بلند رکھنا ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply