شورائی وجمہوری فیصلے کی شرعی حیثیت۔ مفتی محمد عمران/قسط4

شورائیت کی بحث میں یہ مسئلہ بڑی اہمیت کا حامل ہے کہ حاکم وقت شوری کے فیصلے کا پابند ہوگا یا وہ اپنی صوابدید پر اتفاقی واکثریتی فیصلے کو نظر انداز کرسکتا ہے ؟

اس کے بارے میں علمائے امت کی دو رائے ہیں، اول یہ کہ شوری کا فیصلہ حاکم پر لازم نہیں ہے، یعنی حاکم کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اس اتفاقی یا اکثریتی فیصلے کو چھوڑ کر اپنی رائے پر عمل کرے۔ دوسری رائے یہ ہے کہ حاکم جمہوری واتفاقی رائے کو چھوڑنے کا مجاز نہیں ہے۔

پہلی رائے :
علمائے امت  میں سے بعض فقہاء وعلماء کا یہ موقف ہے کہ شوری کا مطلب فقط یہ ہوتا ہے کہ امام کے سامنے مختلف جہات سامنے آجائیں باقی وہ اپنے فیصلے کی تنفیذ  میں مکمل آزاد ہے۔ ان کے دلائل درج ذیل ہیں :

پہلی دلیل:
وَشَاوِرْهُمْ فِي الْأَمْرِ فَإِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَى الله.
ان مسلمانوں نے سے مشورہ کیا کرو پھر جب تم عزم کرلو تو اللہ پر بھروسہ رکھو۔
اس آیت کریمہ میں مشاورت کے بعد صیغہ واحد مذکر مخاطب لایا گیا ہے، یعنی جب آپ عزم کرو اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حاکم شوری کو نظر انداز کرکے اپنی صوابدید پر فیصلہ کرسکتا ہے۔

دوسری دلیل:
یہ حضرات صحابہ کرام کے دور اقتدار كے بعض واقعات سے استدلال فرماتے ہیں کہ جس میں انہوں نے اکثریتی رائے کو ترک کرکے اقلیتی رائے پر فیصلہ فرمایا ہے وہ مثالیں پیش خدمت ہیں:

پہلی مثال: مانعين زكواة كا مسئله:
مانعين زكوأة سے جہا د کے مسئلے میں صحابہ کرام کی ایک کثیر تعداد مخالف تھی یہاں تک کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو بطور نمائندہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس بھیجا لیکن انہوں نے اس اکثریتی رائے کو نظر انداز کیا اور اپنی رائے پر فیصلہ دیا۔

دوسری مثال: لشکر اسامہ کا مسئلہ:
جیش اسامہ کے مسئلہ میں بھی بظاہر ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اکثریتی رائے کو چھوڑ کر لشکر روانہ کیا تھا۔
ان دلائل کی روشنی میں ان حضرات کا موقف یہی ہے کہ حاکم پر اتفاقی اور اکثریتی فیصلہ کا ماننا لازم نہیں ہے ۔

دوسری رائے:

 دیگر علمائے امت کے نزدیک حاکم وقت پر شوری کی رائے کی تنفیذ لازم ہے ، مسلمانوں کے منتخب ارباب حل وعقد کی رائے کو مسترد کرنے کا حق حاکم کے پاس نہیں ہے۔ بلکہ انفرادی رائے کے مقابلے میں شوری کے فیصلے کی پابندی کرنا واجب ہے، اور شوری کی رائے لازم الاتباع حکم ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ملوکیت اور خلافت میں بنیادی فرق یہی ہے کہ خلیفہ شوری پابند ہوتا ہے اور بادشاہ اس کی پابندی لازم نہیں سمجھتا ورنہ نفس مشورے تو بادشاہ بھی کرتا ہے لیکن اگر دل نے چاہا تو مان لیا ورنہ پوری قوم کی متفقہ رائے بھی مسترد کردیتا ہے۔
ان حضرات کے دلائل بھی ملاحظہ فرمائیں:

پہلی دلیل:
سورہ آل عمران کی مذکورہ آیت کریمہ میں اللہ تعالی نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو مشاروت کا جو حکم دیا ہے، اس کا فائدہ یہ ہے کہ جب اہل شوری کا کسی مسئلہ پر اتفاقی واکثریتی رائے آ جائے تو امام کے لیے اس کی مخالفت جائز نہیں ہے۔ کیونکہ اس بات کی تائید ایک حدیث سے ہوتی ہے۔ جو علامہ ابن کثیر رحمہ اللہ نے اس آیت کی تفسیر میں ابن مردویہ کے حوالے نقل کی ہے جو حضرت علی رضی اللہ عنہ سے منقول ہے:
وعن علي بن أبي طالب- رضي الله عنه – قال: سئل رسول الله- صلَّى الله عليْه وسلَّم- عن العزْم، قال: ((مشاورة أهل الرأي، ثم اتِّباعهم))۔ (ابن کثیر: ۲\۱۵۰)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عزم کے بار ے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا اہل رائے سے مشورہ کرنا پھر ان کی پیروی کرنا۔
آیت مذکورہ کی تفسیر میں حضور صلی اللہ سے اس منقول تفسیر کے مطابق عزم کرنے کا مطلب یہ بنتا ہے کہ اہل شوری سے مشاورت کے بعد ان کی اتباع لازم ہے۔

دوسری دلیل:
حافظ ابن کثیر نے اسی موقع پر مسند احمد کے حوالے سے حضرت عبد الرحمن بن غنم رضی اللہ عنہ کی وہ روایت بھی نقل کی ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم ابوبکر وعمر رضی اللہ عنہما کو مخاطب کرکے فرماتے ہیں :
لو اجتمعتما فی مشورة ما خالفتکما یعنی اگر کسی مشورے میں تم دونوں ایک بات پر متفق ہوجاو تو میں تمہاری مخالفت نہیں کرونگا۔
تیسری دلیل:
غزوہ احد میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اکثریت کی رائے کی وجہ سے اپنی رائے کو چھوڑ کر مدینہ سے باہر جہاد کا فیصلہ فرمایا۔ (سیرت ابن ہشام)

چوتھی دلیل:
سنن درامی میں میمون بن مہران نے صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کا طرز عمل نقل کیا ہے، فرماتے ہے کہ غیر منصوص احکام میں جمع رؤس الناس وخیارہم فاستشارہم، فاذا اجتمع رایہم علی امر قضی بہ۔
کہ حضرت قوم کے سرداروں اور بہتر لوگوں کو جمع فرماتے ان سے مشاورت کرتے جب ان کی رائے کسی امر پر مجتمع ہوتی تو اسی پر فیصلہ فرماتے۔

پانچویں دلیل:
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی وابن عباس کو جمہوری رائے اختیار کرنے کا حکم فرمایا ہے اور فرمایا ولا تمضوا فیہ رای خاصة دوسری روایت میں لا تقضونہ برای خاصة فرمایا ہے یعنی کسی انفرادی رائے پر فیصلہ مت دو۔

فریق اول کے دلیل کے جوابات:
فاذا عزمت میں عزم انفرادی مراد نہیں ہے بلکہ عزم بعد المشاورت مراد ہے، جیسے کہ ابن کثیر کی نقل کردہ روایت سے اس کی تائید ملتی ہے۔
مانعین زکواة سے جہاد کے مسئلے میں ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے انفرادی رائے پر عمل نہیں یا ہے بلکہ جب وہ اس موقف کی صحت پر ڈٹ گئے تو بعد میں باقی ارباب حل وعقد کی رائے بھی بدل گئی جس کے بعد ایک متفقہ رائے پر عمل ہوا ہے۔
جیش اسامہ میں مشاورت کو اس لیے نظر انداز کیا گیا ہے کہ اس متعلق حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم موجود تھا اور مشاورت تو غیر منصوص احکام میں ہوتی ہے۔

مذکورہ بالا دونوں آراء میں سے بالفرض اگر پہلی رائے کو ترجیح بھی دی جائے تو اس سےکم از کم اکثریتی رائے کو چھوڑنے کی گنجائش معلوم ہوتی ہے جو کوئی امر لازم نہیں لہذا علمی وسیاسی اور اخلاقی انحطاط کے دور میں اگر حاکم کو جمہوری فیصلہ کا پابند بنایا جائے تو یہ زیادہ قرین حکمت ومصلحت ہے۔
اسی رجحان کی طرف شیخ الاسلام مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب نے بھی اشارہ فرمایاہے فرماتے ہے:
“ایسے حالات میں جبکہ باکمال امیر کا ملنا ممکن تھا یہ کہا گیا تھا کہ امام کا قول ملزم ہے، کیونکہ امام کے اندر تمام شرائط موجود ہیں اس کی دیانت تقوی علم تجربہ پر غرض ہر چیز پر مکمل اعتماد کیا جاسکتا ہے، لیکن جب ایسا امیر موجود نہیں تو اس صورت میں اگر اس کو کسی حد تک شوری کا پابند بنایا جائے تواس کی گنجائش معلوم ہوتی ہے”۔

آگے فرماتے ہیں :
“اس کو پابند کرنے کا یہ طریقہ ہوسکتا ہے کہ احکام کو دو حصوں میں منقسم کیا جائے۔ احکام کی ایک قسم وہ ہے کہ جو عام قانون کی شکل اختیار کرلیتے ہیں۔ اور دوسرے انتظامی اور تنفیذی نوعیت کے ہوتے ہیں۔ جہاں تک ان احکام کا تعلق ہے جو قانون کی حیثیت رکھتے ہیں ان کے بارے میں یہ بات تو واضح ہے کہ اسلامی ریاست میں کوئی شخص ایسا قانون نہیں بنا سکتا جو شریعت کے خلاف ہو البتہ مباحات کے دائرے میں قانون سازی کی جاسکتی ہے، اس قانون سازی میں امیر کو شوری کا پابند بنایا جاسکتا ہے”۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اس دور انحطاط میں حاکم کو یوں مطلق العنان نہیں چھوڑا جاسکتا ہے اس کو بہر صورت اتفاقی یا اکثریتی فیصلوں کا پابند کیا جائے گا۔ اکثریت کی رائے اگر چہ دلیل نہیں ہے لیکن علامت دلیل ضرور ہے۔
جاری ہے۔۔۔

Facebook Comments

محمد عمران
رئیس دار الافتاء دار السلام۔اسلام آباد

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply