مائی دانی کاکیڑچھا/جُونسہ چاچا(محمدیوسف خان) -جاوید خان

ایک تھے محمد اَمبیر خان ۔اُنھوں نے اپنے بیٹے نیازمحمد خان کی شادی قریبی گاؤں ٹنگی کھیترسے کروائی۔بہوکے سسرال اَورمیکے کے درمیان لگ بھگ ایک کلومیٹر کاپیدل اَور پہاڑی رستہ تھا۔رستے میں گھناجنگل تھا،جھاڑیاں تھیں ،پرانے درخت تھے اَور ایک چشمہ تھا۔چشمے کی جگہ ‘کنڈروٹا’ کہلاتی تھی۔ایک دن دُلھن میکے سے سسرال آتے ہوئے دن دوپہر کو وہاں سے گُزری تو گھر آکر شام ہوتے ہوتے بخار میں پھنکنے لگی ۔سسرال اَور میکہ پریشان ہوگیا۔سب نے سوچاضرور گھنے جنگل اَور چشمے پر سے گُزرکر آئی دُلھن کوجن یاپریوں کی ‘ٹہا’ ہوگئی ہے۔یُوں ساراگھرانہ دم درُود،دُعااَور نظر اُتارنے میں جُت گیا۔اُن وقتوں کی ساری دُلھنیں اُیسے ہی دن دیہاڑے بھری دوپہر میں پریوں اَور دیو کی ‘ٹہا’ کی نذر ہوجاتی تھیں۔کہیں دُلھے اَور دُلھنیں اس ‘ٹہا’کے بعد زندگی ہار بیٹھے۔

ایک دن محمد اَمبیر اپنے گھر کے پار پگڈنڈی پرسے گُزررہے تھے کہ سامنامائی دانی سے ہوا۔مائی دانی کو لاڈسے بڑے اَور بوڑھیاں ‘دانو ’ کہہ کر بلاتی تھیں۔مائی دانی نے پوچھاسردارا نُوھ (بہو) ٹھیک ہے تمھاری ۔؟محمد امبیر نے جواب دیا۔دانو ۔۔۔!نہیں و ہ بیمار ہوگئی ہے۔مائی دانو نے پھر پوچھا کیاہوااُسے ۔؟ دانو کنڈروٹے (چشمے ) پرسے دن دوپہر کی کڑکتی دُھو پ میں گُزر کر آئی تو کوئی بھوت چمٹ گیااُس کو۔دنوں سے بخار نہیں جارہا۔بہت کمزور ہوگئی ہے۔مائی دانو نے جواباًکہا‘‘سردارا مہاڑاکیڑچھاروز دوپہر کو وہاں کھیلتاہے ۔اُسے آج تک کچھ نہ ہواتوتمھاری بہو کوکیاچمٹ گیا۔؟مائی دانی کایہ ایک طرح کاطنز تھاکہ میراکیڑچھادُلھن سے زیادہ خوب صورت ہے۔مائی دانی اَور محمد اَمبیر خان کاگھر آمنے سامنے تھا۔درمیان میں ایک برساتی ندی بہتی تھی۔پھر مائی دانی نے یہ گھراَورزمین صوبے دار سردار محمد افضل خان صاؤ کے بیٹے اشفاق خان سے تبدیل کرلی ۔ویسے یہ زمین مائی دانی کے لاڈلے کیڑچھے کو محمد افضل خان صاحب کی ہی دی ہوئی تھی۔

محمد اَمبیرکی بہو آج بھی یاد کرتی ہیں اَور بتاتی ہیں کہ مائی دانی کانین نقش صاف اَور خوب صورت تھا۔وہ دراز قد تھیں ۔مائی دانی کے پوتے پوتیوں میں کسی ایک آدھ کے نقوش ہی اپنی دادی سے ملتے جُلتے ہیں۔ دانی مائی کے خاوند کانام دِِّ نہّ’تھا۔اَصل نام شاید کچھ اَور ہُواہو۔مگر لوگ اسی نام سے پکارتے تھے۔ان دانی مائی اَور بابادِنہّ کاکیڑچھا(لاڈلاپُتر) جو روز روز گھنے جنگل کے ،ویرانے میں ایک چشمے پر کھیلاکرتاتھا۔ ماں باپ تواسے پیار سے کیڑچھاکہتے تھے مگرنام یوسف تھا۔کیڑچھااَور کیڑچھی پہاڑی زبان میں لکڑی کے خوب صورت نقش ونگار سے سجے چمچے اَور چمچی کوکہتے ہیں۔آج زمانہ بدل گیاہے۔صنعتی دور کی بدولت لکڑی کے نقش ونگار والے کیڑچھے نہیں بل کہ سٹیل و سلور کے بنے چمچے آگئے ہیں۔یُوں کیڑچھوں کی اَہمیت اَب نہ رہی نہ ہی کوئی اِنھیں اِستعارتاًیابہ طور تشبیہ استعمال کرتاہے۔

مائی دانی اَور چاچادِنہّ کاخاندان کھڈیوں پر پہناوے بُنتاآیاہے۔اِبتداء سے ہی یہ دست کاروں کاکُنبہ تھا۔معلوم نہیں کب اَور کیسے یہ فن اِن سے رُخصت ہوگیا۔اَور رہتے رہتے ان کی نسل مائی دانی اَور ان کے لاڈلے کیڑچھے تک بالکل ہی بے فنی ہوگئی ۔یُوں بابادِنہّ محنت مزدوری سے پیٹ پالنے لگے۔اکثر کام انھیں صوبے دار غازی محمد افضل خان صاحب کے ہاں ہی مل جاتاتھا۔ہل چلانا،بوائی کرنا،مکئی کاٹنا،گھاس سنبھالنے سے لے کر دیگر کام کاج تک ۔شب وروز گُزرنے لگے اَور ان کالاڈلابیٹاکیڑچھاقدکاٹھ نکالنے لگا۔اَور ایک دن باپ کے ساتھ غازی محمد افضل خان صاحب کے کھیتوں میں ہل چلانے لگا۔باپ کے گُزرنے تک دراز قد یوسف خان اَب جونسہ کے نام سے ملقب ہوگئے تھے۔لاڈ بھرا نام کہیں گُم ہوگیا۔مائی دانی اَور بابادِنہّ یہ لاڈاَور لاڈلانام لے کر قبر میں اُتر گئے ۔جب کہ جُونسہ چاچانے زندگی کاپہیہ کھنچناشروع کردیا۔

ایک دن گورنمنٹ ہائی سکول سون ٹوپہ میں آب ِرساں کی اَسامی آئی تو قرعہ فال جونسہ چاچاکے نام پڑا۔صوبے دار محمد افضل خان کے ہاں کام کاج تو وہ کرتے ہی تھے ۔لِہٰذااس اَسامی پر انھیں سرکار کے کھاتے میں باندھ دیاگیا۔تب وہ کافی عمر پار کرچکے تھے۔دن کوسکول میں پانی بھرتے اَور چھٹی کے بعد بازار میں ہوٹلوں میں ۔کنڈروٹاجہاں اُنھوں نے اَپنابچپن گزاراتھا۔وہاں پرایک چشمہ آج بھی ہے۔سکول کے طلباجب نماز باجماعت سکول میں پڑھتے تو وہیں  پہ جاکروضو کرتے تھے۔جونسہ چاچااُسی چشمے سے پانی بھرتے اَورسکول میں لاتے۔

خوش مزاج بھی تھے مگر لڑکوں کے ساتھ اپنے پیشے کے معاملے میں تُند خُو ثابت ہوتے۔وجہ یہ تھی کہ پانی وہ کاندھوں پر ایک بڑے لوہے کے گیلن میں اٹھاکر لاتے تھے۔رستہ سکول تک ایک دم کھڑی چڑھائی تھی۔وہ سکول آتے آتے تھک جاتے ۔کوشش کرتے کہ پانی ضائع نہ ہو۔لڑکوں سے ان کوشکایت تھی کہ یہ پانی ضائع زیادہ کرتے ہیں پیتے کم ہیں۔لِہذا اس سلسلے میں اُن کے کچھ مذاق اَور شغل آج بھی یادکیے جاتے ہیں۔سکول کی پُرانی عمارت کے آغازمیں ایک کمرے میں باورچی خانہ تھا ۔اَور بغل میں کلرک کادفتر تھا۔باورچی خانے کے داخلی دروازے سے اَندر داخل ہوتے ہی لوہے کی ایک اَدھ کھلی ٹینکی رکھی ہوتی تھی۔صبح صبح وہ پانی کاایک بڑا گیلن اس میں ڈال دیتے اَور پھر اس کے آدھے حصّے  پر چڑھ کر  بیٹھ جاتے ۔لڑکوں میں جو پانی پینے آتے اُن کی نگرانی کرتے۔جولڑکاپانی کاپوراگلاس بھرتااُسے سختی سے کہتے پورا پی ۔۔۔پور۔۔۔۔ا۔۔شاباش ۔۔۔پورا ۔۔۔پورا ۔۔۔پی۔اَو ر اگر وہ آدھاچھور دیتاتو ساتھ کسی دوسرے لڑکے کو پینے کے لیے دے دیتے۔اگر مزید کوئی پینے والانہ ہوتاتو آدھاگلاس واپس ٹینکی میں ڈال دیتے تھے۔یوں لڑکے تنگ تھے اَور جب وہ دیکھتے کہ ان کاجونسہ پہائی کسی اَور کام میں لگاہواہے تو فوراً دوڑتے ہوئے جاتے اَور پانی پیتے ،جی آتاتو گرادیتے نہیں تو حساب کالیتے اَور پی کی نکل جاتے۔

اکثر گنگناتے رہتے ۔۔۔اللہ ہی اللہ کیاکرو۔دُکھ نہ کسی کودیاکرو۔اگر کوئی کچھ پوچھتاتو جواباًایسے ہی ساتھ خودساختہ قافیے بنتے رہتے اَور گاہے گاہے موقع و مناست سے بولتے رہتے تھے۔بعض اوقات کسی لڑکے کو کھڑے ہوکر پانی پیتے ہوئے دیکھتے تو لاڈ سے پکارکر کہتے ۔اللہ اللہ ماکھیرا لگی آچھیا۔۔بیجی تے پیا۔(اللہ اللہ ماں صدقے جائے بیٹھ کر پییں ۔)

ایک مرتبہ والی بال کاٹورنامنٹ تھا۔کھیل کامیدان بازارسے تھوڑافاصلے پر تھا۔وقفہ ہُواتویہ جیب سے آرواڑے (آڑو) نکال نکال کرکھانے لگے ۔کچھ لڑکے جنھیں بازاردور لگ رہاتھااَور جلد ہی شروع ہونے والے میچ کودیکھناچاہتے تھے۔ان کے پاس آئے اَور کہاکچھ آرواڑے انھیں بھی دیں ۔یہ صاف انکار ی ہوگئے اَور کہایہ پیسوں کے ملتے ہیں۔انھوں نے پوچھا کتنے پیسے بولے روپے کے دو۔ایک لڑکے نے روپیہ نکال کردیاتو انھوں نے جیب سے دو آرواڑے نکال کردیے۔پھر فرداً فرداًمزید لڑکوں نے خرید ے تو کچھ دیر بعد ان کی جیب میں دس روپے تھے۔جب جیبیں خالی ہوگئیں تو یہ اُٹھے اَور اپنے گھر یاقریبی کسی گھر کے آگے لگے درخت سے ایک تھیلابھر کرلائے۔اَب کی بار ایک روپے کے چاربیچے۔دیکھتے دیکھتے تھیلاخالی ہوگیا۔شام کو خوشی خوشی گھر گئے۔

ان کے قریبی رشتہ دار یادکرتے ہیں کہ غازی محمد افضل خان انھیں اَپنے بیٹوں کے برابر رکھتے تھے اَور لاڈسے ‘جوسوٹا’ کہَہ  کر بلاتے ۔یہ بھی صبح سویرے اُٹھتے ،نماز اداکرتے ،سورج مشرق سے طلوع ہوتاتوناشتہ کرتے اَورغازی محمد افضل صاحب کے ہاں پہنچ جاتے۔زندگی اسی ڈگر پررواں دواں رہی پھر ساٹھ کے پیٹے میں جاکر آبِ  رساں ہوگئے۔پیسہ جوڑنے میں ماہر تھے۔یہی وجہ تھی کہ اُس زمانے  میں راول پنڈی کے پوش علاقے میں اُس وقت پینتالیس ہزار کا پلاٹ لیااَور اُسی عرصے میں وہی گھر تعمیر کرلیا۔اُن وقتوں  میں گھروں میں مُرغیاں اَور مویشی پالناعام رواج تھا۔مرغے یاتومویشی خانے میں بنے اَڈوں پر بیٹھ جاتے یاکچی کُکڑ کوٹھیاں ہوتیں جن میں مُرغ ڈال دیے جاتے ۔علاوہ ایک اَور طریقہ تھا۔درختوں کی لچک دارشاخوں سے بڑی بڑی ٹوکریاں بُنی جاتی تھیں۔ان ٹوکریوں سے کئی کام لیے جاتے تھے۔مویشی خانے میں رات کوجو گوبر مویشی کرتے اُسے ٹوکریوں میں ڈال کر باہر کھیتوں میں ڈال دیاجاتا۔دُوسرالکڑیاں ،سوکھی شاخیں اَورپھل اِنہی ٹوکریوں میں ڈال کرلائے  جاتے۔تیسرا چوزوں والی مُرغی اَور بڑامُرغ بڑے بڑے ٹوکروں کے نیچے رکھ دیے جاتے تھے۔ٹوکری ہندوکُش اَور ہمالیہ کے علاوہ تمام پہاڑی زندگی کاجزو لازم رہی ۔آج بھی نیپال ،بھوٹان ،ریاست کشمیر اَور پہاڑوں میں ٹوکری استعمال ہوتی ہے۔ٹوکری بُنناایک فن تھااَور ساری دیہاتی خواتین اَور اَکثر مرد اس کام میں تاک تھے۔یُوسف خان اس فن میں خاص مہارت رکھتے تھے۔وہ ٹوکریاں بُنتے اَور دُور و نزدیک فروخت کردیتے۔اُن کی بُنی ہوئی ٹوکریاں ہاتھوں ہاتھ لے لی جاتیں ۔

ہل جوتنابھی تب ایک فن تھا۔کسی لڑکے کارشتہ کرناہو تو سب سے پہلے لڑکی والے یہ دیکھتے کہ آیاوہ بیلوں کی کسی ضدی جوڑی کوایک بڑے کھیت میں کس مہارت سے چلاکردکھائے گا۔کہیں اَیساتونہیں کہ وہ کھیت کے ایک کونے سے دُوسرے تک جاتے ہوئے  ہانپنے لگ جائے گا۔؟یُوسف خان اپنی ابتدائی زندگی میں غازی سردار محمد افضل خان صاحب کے سارے کھیت بوتے تھے۔وہ کھیتی کرنے میں ماہر تھے۔ان کی زندگی شرارتوں سے تو عبارت تھی ہی ایک شرارت جس کے لیے وہ مشہور تھے ۔یہ کہ ہل پہ جُتے بیلوں کی پُشت پر وہ پاس رکھی سوئی نکال کر چپکے سے چبھوتے تو بیل دَرد سے بلبلاکرتیز بھاگتے ساتھ جُونسہ چاچااِسی تیزی سے اَورمہارت سے ہل زمین میں یوں دباکر رکھتے کہ اُن کاپوراوزن ہل پرچلاجاتا ۔بیل ایک طرف تو بھاگتے دوسری طرف کھیت کی گہرائی میں ڈوبے لوہے کے پھل کی مدد سے بنجر زمین بھی چیرتے تو ساتھ جُونسہ پہائی کے ہل پہ گرے پورے وجود کو گھسیٹتے ہوئے  آگے بڑھتے ۔بھاگنااَور جان لگاکر زمین چیرنا بیلوں کومشکل اَور تکلیف میں ڈال دیتا۔

اُن کی شادی میرے پڑوس سے ہوئی تھی۔یہ رشتہ بھی غازی محمد افضل صاحب نے  کروایاتھا۔انھیں بارہاکہتے سُناگیا‘‘کہ میری شادی میں اُس زمانے میں پورے ۸۸ روپے خرچ ہوئے تھے۔اَوردیگر مدد و جمع تفریق کے علاوہ مَیں نے اپنابڑابھاری مینڈھابھی بیچاتھا۔’’میرے پڑوسی اَور اُن کے چھوٹے سالے میر اکبر چچازراعت میں ملازمت کے ساتھ ساتھ اپنی اَورلوگوں کی زمینوں کی بوائی کرتے رہتے تھے۔ایک تندرست بیلوں کی جوڑی ہمیشہ اُن کے گھربندھی  رہتی تھی۔میر اکبر اُن کی اس شرارت سے واقف تھے۔یوں جب بھی میر اکبر چاچاکے بیلوں کی ہتھی کسی کھیت میں جُونسہ چاچاکے ہاتھ آتی تو وہ یک دم شرارت کرڈالتے ،چوں کہ میر اکبر اپنے بیلوں سے اولاد کی طرح پیارکرتے تھے۔وہ انھیں کھیت میں لگانے سے قبل نمک ملے آٹے کے پیڑے کھلاتے پھر آغازکرتے تھے ۔ہر نئے کھیت میں ہل لگانے سے پہلے یہ اُن  کی ایک طرح سے بسم اللہ ہوتی ۔وہ دوران بوائی بیلوں کو پچکارتے ،کھیت میں کھڑا کرکے سہلاتے اَور پھر ہل چلاتے ۔مگر جب اُن کابہنوئی لاکھ سمجھانے پر بھی اُن کے بیلوں کو سوئی چبھونے سے باز نہ رہتاتو سخت ترین الفاظ میر اکبر چاچاکے منہ سے برآمد ہوتے ،غُصے سے اُن کاچہرہ لال سرخ ہوجاتا۔جونسہ چاچاشرارت کرنے اَور گالیاں کھانے کے بعد شانت شانت کام پہ لگ جاتے۔یہ عادت بالکل اَیسے ہی تھی۔جیسے کوئی لاکھ منع کرنے کے باوجود جسم پہ لگی خارش کھرچنے سے باز نہ آئے اَور اپنی کرنے کے بعد راحت پالے توپھرسے کام پر لگ جائے۔

اپنے قریبی لوگوں میں ذرا ڈینگے متصور ہوتے تھے۔جب کوئی خاص تقریب قریبی لوگوں میں ہونے کو آتی تو یہ ناراض ہونے کاناٹک کرتے فریقین کوخوب ستانے کے بعد راضی ہوجاتے۔اَیسے ہی جب میرے پڑوسی میر اکبر چاچاکی بیٹی کی شادی ہونے کوآئی تو ناراض ناراض سے لگنے لگے۔شادی نزدیک آئی تو انھوں نے شادی میں نہ آنے کاناراض سندیسہ فریقین کے گھر بھجوادیا۔آخر جرگہ ہوا۔بڑے بوڑھے بیٹھے ۔ان سے وجہ پوچھی گئی تو بھری مجلس میں بتایا کہ ‘‘مَیں نے میراکبر کو اپنی لیتری (گھاس کٹائی ) میں بلایا تھاتو یہ آیا کیوں نہیں ۔؟’’کچھ نے سمجھایا یہ اَیسی کوئی بڑی غلطی نہیں کہ جس کے لیے شادی چھوڑی جاسکے ۔چلیں شادی میں چلیں ۔دیگر نے کہاہوجاتاہے معاف کردیں ۔کسی ایک آدھ نے میر اکبر چاچاکو آنکھ ماری تو انھوں نے بھی پچکارا۔۔۔بادشاہو۔۔۔!ہم آئندہ احتیاط کریں گے۔یُوں بڑوں کے پیچھے پیچھے اَور اپنے سے چھوٹوں کے جھرمٹ میں شادی میں تشریف لائے۔گویاسب کو سمجھایا کہ دیکھومیر اکبر کو اَگر اَپنے بیل پیارے ہیں توبھلے ہوں گے۔ہمیں بھی اپنی عزت پیاری ہے۔اَور سوئیاں چبھونے سے ہمیں نہ روکیو۔۔۔!ہم اپنی کرتے ہی رہیں گے۔

دیسی مرچیں وہ ہمیشہ اپنی جیب میں رکھتے تھے۔جب سالن روٹی لیتے توساتھ جیب سے مرچیں دانتوں سے کاٹ کاٹ کرکھاتے۔اُن کاپسندید ہ کھاجا لسی ،مکئی کی روٹی اَور پتھر کی سِل پر پسی ہوئی دیسی مرچ اَور نمک تھا۔چٹ پٹے کھانے تو انھیں خوب بھاتے تھے۔زندگی کے اُس حصے میں جہاں اُنھیں فشارخون اَور شوگر کامرض چمٹ گیاتھا۔وہ چٹ پٹے کھانوں سے برابر چمٹے رہے۔ بلاکے حقہ نوش تھے۔اُن کے حقے کی چلم ہمیشہ تمباکو سے بھری رہتی اَور سلگتی رہتی تھی۔پہاڑی لوک گیت ،چن ،ماہیے اَور بیت اکثر گنگناتے تھے۔ایک بار اپنی زوجہ کے ساتھ میر اکبر چاچاکے گھر آئے تو بڑے سالے میر افضل کے ساتھ مل کر رات دو بجے تک سیف الملوک ،چن اور ماہیے گاتے رہے ۔ان کی زوجہ اَور میر اکبر چاچاکی زوجہ نے مل کر  اَپنی ٹولی بنائی اَور جواباً گیت گائے ۔اس دن کے بعد شاید میرے پڑوس کے اس گھر میں پھر کوئی محفل اَیسی نہ سج پائی ۔

میری آنکھوں میں اُن کادُھندلا ساعکس آج بھی پھرتاہے۔جب وہ گورنمنٹ ہائی سکول میں آب  رساں تھے تو ان کا دُبلااَور قدآور جسم قدرے جھکنے لگ گیاتھا۔پہلے پہل سر پر قراقلی ٹوپی شوقیہ پہنتے تھے۔پھر بعد کے اَیام میں سفید جالی دار ٹوپی جو دھاگوں سے بُنی ہوتی پہننے لگے ۔ایک آنکھ قدرے چھوٹی تھی ۔یُوں ایک ٹیڑھ سی چہرے کے حدود واَربعہ میں نظر آتی ۔جوانی میں یقیناً ایک پُر بہار شخصیت ہوئے ہوں گے۔مگر جب ہم نے دیکھا جوانی ڈھل چکی تھی۔اُس کے باوجو د ایک شرارتی مسکراہٹ،حاضر جوابی اَور مذاق اُن کے رگ وپے سے پھڑک پھڑک کر باہر کُو دنے لگتا
اُن سے کئی لطیفے جُڑے ہیں ۔ایک بار سکول میں نئے صدر معلم آئے ۔ان کی کسی کوتائی یا کسی اَور وجہ سے انھیں اکثر ڈانٹنے ڈپٹنے لگے ۔ طلباکے ایک گروہ نے انھیں صلاح دی کہ  دیکھیے یہ صاحب آپ کو روز بے عزت کرتے ہیں ۔ان کاکچھ کریں آپ تو بڑے اَیسے ویسے اَور بہادرخان قسم کے آدمی ہیں ۔جُونسہ پہائی کچھ کریں آپ ،ہم بھی ساتھ دیں گے ۔ہیڈ ماسٹر صاحب کونیچے گراؤنڈ میں لے جائیں اَور دیوار سے نیچے دھکادے کر گرادیں ۔ہم کہیں گے خود گرے۔معلوم نہیں اتفاقاًہوایاواقعی یہ بھلاپھسلاکر صدرمعلم صاحب کو نیچے گراؤنڈ میں لے گئے۔مگر اس وقت کے طلباآج بھی کہتے ہیں کہ صدر معلم صاحب کویہ لے کر تو گئے مگر آگے کی کارروائی کاانھیں حوصلہ نہ ہوا۔ممکن ہے صدر معلم صاحب کے ساتھ گراؤنڈمیں گھوم پھر  کر لڑکوں کو باور کرانے کی کوشش کی ہو۔دیکھو تمھاراجُونسہ پہائی کچھ بھی کر سکتاہے۔

اُن کے وقتوں میں دُلھن کوڈولی میں اٹھاکر لے جانے کارواج تھا۔یُوں ہر گاؤں میں ایک دو لوگوں نے ڈولی خرید کررکھی ہوتی تھی۔جب کسی لڑکی کی شادی ہوتی تو ڈولی والے سے ڈولی کرائے  پر منگوا لی جاتی۔ہمارے پڑوس میں شادی تھی۔دُلھن کاگھر لب سڑک تھاڈولی کی ضرورت نہ تھی۔مگر جُونسہ چاچاسمیت ایک اَور شخص ڈولی لے آئے ۔یہ ملحقہ محلہ پھاپھڑیلاسے تھے۔محمد کریم خان رضائیاں    بناتے تھے اَور کرائے  پر ڈولی بھی دیتے تھے۔اُن کی ڈولی عام سی تھی ۔مگر جُونسہ چاچاکی ڈولی ہارسنگارکی ہوئی خوش نماتھی۔اَب دونوں لوگ اُمیدلگائے  بیٹھے تھے کہ اُس کی ڈولی کوقبولیت بخشی جائے گی۔لڑکوں کوشرارت سوجھی اُنھوں نے ان کوبھڑکایادیکھیں جُونسہ پہائی آپ کی ڈولی کتنی پیاری ہے۔کریم خان کی ڈولی بھی کوئی ڈولی ہے۔؟دُوسراآپ اِدھر کے ہیں وہ پار لے محلے سے ہیں ۔اُن کاکوئی حق ہی نہیں بنتاکہ  آپ کے ہوتے ہوئے ڈولی لے آئیں ۔دیکھو آپ سے پوچھابھی نہیں ۔یہ تو سیدھی سیدھی بدمعاشی ہوئی ۔اَیسے کوئی کرتاہے بھلا۔؟بھئی جونسہ پہائی آپ تو بڑے دلیر ہیں یہ ہیں وہ ہیں ،ذرا لگائیں ناپھینٹی کہ  یاد رکھیں یہ بھی۔ویسے آپ تو ڈرنے والے کدھر ہیں ۔۔۔ہیں نا۔۔؟ہم بھی ادھر ہیں دیکھتے ہیں کون بدمعاشی کرتاہے۔؟ آپ تو ہمارے اپنے ہیں ۔بھلاکوئی زیادتی کرسکتاہے۔؟ہولے ہولے یہ جوش میں آگئے پہلے تو کریم خان صاحب کو  للکارا ۔۔۔اوے ۔۔کریما۔۔۔! ڈولی میری جائے گی ۔تُو ڈولی واپس لے جا۔۔۔!جب وہ نہ مانے تو یہ غصے میں آگئے ۔دُلھن کے گھر کے آگے کھڑی دیوار نماڈھلان تھی وہی پر ایک چیڑ کادرخت تھا۔پہلے تودھینگامشتی ہوئی پھر کریم خان کی ڈولی کھڑی ڈھلان پر لڑھکادی۔ڈولی لڑھکتی بجتی نیچے میدان میں جالگی اَور ٹوٹ گئی۔کریم خان نے بہت واویلاکیاکہ دیکھو کیسی زیادتی ہے میری ڈولی توڑ دی ۔مہمان کی کیسی عزت ہوتی ہے ادھر وغیرہ وغیرہ۔بارات آئی ہوئی تھی۔ کریم خان زبانی غصہ کر رہے تھے کہ مجھے ڈولی بنواکے دونہیں تو اپنی ڈولی مجھے دو۔یہ ڈٹ کے کھڑے رہے کہ  جاجانہیں دیتااور نہیں بنواکے دیتا۔رُخصتی کاوقت تھا۔دونوں فریقین آپس میں اُلجھے ہی رہے اَوردُلھن پرائے گھر سدھار گئی۔

اُن وقتوں کُتے شوق سے پالے اَوررکھے جاتے تھے۔یہ پالتو کُتوں کے کان کاٹنے میں ماہر تھے۔سوئی کے علاوہ ایک تیزدھار بلیڈ ان کی جیب میں ہمیشہ ہوتاتھا۔سرد پہاڑی علاقوں میں بانس کی شکل کاایک درخت جھُنڈ کی شکل میں اُگتاہے۔مقامی زبان میں اُسے نیڑی یانالی کہتے ہیں ۔ہمارے دَورمیں تختی پر لکھائی کے لیے اُس کی قلم تراشی جاتی تھی۔یہ اس نالی کاایک چھوٹاساٹکڑاکاٹتے پھر اِسے درمیان سے یوں چیر دیتے کہ ایک چمٹانما شکنجہ بن جاتا ۔کُتے کے کان اس چمٹانماشکنجے میں پھنساتے اَور تیز دھار بلیڈ اس مہارت سے کان پر پھیرتے کے کُتے کی چوں چاں بعد  میں ہوتی کان پہلے زمین پر پڑا ہوتا۔

کبھی کبھی کسی بے تکلف جوان کودیکھتے تو یہ بیت بولتے ۔
؎چانوٹیامہاڑیابنے وچ بولین مور
اَکھیں تواڑیاں اُویے جییاں نظر تواڑی ہور

ہم اسکول کے زمانے میں انھیں سلام کرتے تو آگے ایک لمباساجواب گیت نمالہجے میں دیتے ۔مثلاً ہم کہتے جُونسہ پہائی سلامالیکم !آگے سے جواب ہوتا۔وَلیکم السلام ۔سلامتی ایمان ۔تندرستی آپ کی جان ۔تے مَیں قربان ۔۔صدقے میری جان۔تُس وی بَل دیا۔

Advertisements
julia rana solicitors

جُونسہ چاچا نے زندگی کی نوّے سے زیادہ بہاریں دیکھیں اَور ایک شام مائی دانی کایہ لاڈلاکیڑچھاخاموشی سے اُس بستی میں چلاگیا۔جہاں انھیں چھوڑ کر ماں باپ بہت پہلے چلے گئے تھے۔آخر اُس بستی میں ہر ایک نے تو جاناہی ہے۔کسی نے پہلے تو کسی نے بعد میں ۔

Facebook Comments

محمد جاوید خان
جاوید خان راولاکوٹ آزادکشمیر سے تعلق رکھتے ہیں. شعبہ تدریس سے منسلک ہیں. سفرنامے لکھتے ہیں اور مکالمہ خاندان کا اہم رکن ہیں.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply