مارکسزم کا سماجی تبدیلی میں کردار /حبیب کریم

مارکسزم کے حوالے سے میری اس راۓ سے آپ کا متفق ہونا بالکل بھی ضروری نہیں، لیکن، اتنی گزارش ضرور کرونگا کہ علمی موضوعات پر آپ کو اتفاق یا اختلاف چاہے میرے یا کسی اور کے نقطہء نظر سے ہو یا کسی بھی نظریے سے ہو، وہ علمی بنیادوں پر ہونا چاہیے۔ لیکن ہزار حیف کہ سوشل میڈیا سنجیدہ بحث مباحثے کی جگہ نہیں۔

تو خیر، جو سب سے ضروری بات ہے، اُسے آغاز میں ہی کر دیتے ہیں۔ وہ یہ کہ مارکسزم آپ کو انسانی سماج اور تاریخ کے مطالعے اور تجزیے کے لیے وہ آلات tools فراہم کرتا ہے کہ جن کا حصول کہیں اور سے ممکن نہیں۔ جدلیاتی مادیت، تاریخی مادیت، قدرِ زائد، نظریہ بیگانگی وغیرہ جیسے بنیادی آلات کو اپنے تئیں آپ جتنا کلاسیکی، مکینیکل یا آؤٹ ڈیٹڈ قرار دیں، لیکن انہیں سمجھے بغیر یا ان سے گزرے بغیر آپ سماج کا عمیق تجزیہ پیش کرنے کا دعویٰ نہیں کر سکتے۔ میں سماجی حرکیات میں کارفرما دیگر عوامل کی نفی بالکل بھی نہیں کر رہا کہ انہیں مکمل نظر انداز کیا جاۓ۔ ادب، فنونِ لطیفہ، زبان، ثقافت، جنگیں، قدرتی آفات، بیماریاں، شخصیات، عقائد، نظریات، حتی کہ Power & Knowledge کا مابعد جدیدی طلسماتی تعلق وغیرہ جیسے تمام تر عوامل سماجی تبدیلی میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔ لیکن یہ سب عوامل اُس تجزیاتی مشین کے پُرزے ہی ہیں جن کا انجن مذکورہ بالا مارکسی اصول ہیں۔

لارڈ برٹرینڈ رسل (کٹر غیر مارکسسٹ) نے ہسٹری آف ویسٹرن فلاسفی کے آغاز میں ہی ایک انتہائی اہم بات لکھی ہے کہ کسی بھی قوم کی تاریخ کو سمجھنے کے لیے لازم ہے کہ اُس دَور کا فلسفہ سمجھا جاۓ، اور کسی بھی عہد کے فلسفے کو سمجھنے کے لیے لازم ہے کہ اُس زمانے کی تاریخ کو سمجھا جاۓ۔ مارکسزم نہ محض ایک اقتصادی نظام ہے اور نہ ہی محض کوئی سیاسی نظام ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ یہ ایک فلسفیانہ نظام بھی ہے۔ مارکس فلسفی بھی ہے۔ اس کی تھیوری آف نالج بھی ہے۔ اس سے واضح ہے کہ مارکسزم انتہائی وسیع اور ہمہ جہت ہے۔ اتنے بڑے فلسفیانہ، سیاسی، سماجی اور اقتصادی ڈسکورس کو بیک جنبشِ قلم چند جگت بازیوں سے ختم نہیں کیا جا سکتا۔

اس نظریے پر سنجیدہ تنقید کے لیے آپ کم از کم اتنا تو اسے پڑھیں جتنا سرمایہ دارانہ نظام پر تنقید کرنے کے لیے مارکس نے اسے پڑھا۔ یا اس کی طرح چوبیس گھنٹوں میں سولہ، اٹھارہ گھنٹے نہ سہی، دو گھنٹے ہی آپ مارکسزم کو پڑھ لیں۔ عرق ریزی سے مطالعہ کیے بغیر عجلت میں جگت ہی نکل سکتی ہے۔ وگرنہ ہزاروں لاکھوں کتابیں اس فلسفے کے دفاع اور ابطال میں لکھی جا چکی ہیں۔ اس کے باوجود دنیا میں کہیں بھی جونہی سرمایہ دارانہ نظام میں کوئی بحران نموادر ہوتا ہے اور یہ ذرا سا ڈانواں  ڈول ہوتا ہے تو جو نعرہ سب سے پہلے گونجتا ہے وہ ?Marx is Back کا ہوتا ہے۔

سو، گزشتہ ڈیڑھ دو صدیوں کی تاریخ کو مارکسزم اور دنیا پر اس کے سماجی، سیاسی اور اقتصادی اثرات کو شامل کیے بغیر آپ سمجھ ہی نہیں سکتے۔ بلکہ وہ تاریخ ہی نہیں کہلاۓ گی۔ بعینہٖ انسانی تاریخ میں پہلے زرعی انقلاب سے لے کر جاگیردارانہ اور سرمایہ دارانہ نظام تک مارکسزم کے اصولوں کو خاطر میں لاۓ بغیر ان سب اقتصادی رشتوں کی بتدریج تبدیلی کا آپ جو تجزیہ پیش کریں گے، وہ نامکمل رہے گا۔ اس کی وجہ مارکسزم سے میری کوئی والہانہ محبت نہیں۔ میں ذاتی طور پر وجود کو جوہر پر مقدم جاننے والوں میں سے ہوں۔ انفرادی وجود اور اس سے جُڑے مسائل اور سوالات کو کسی بھی اجتماعی نظریے پر فوقیت دیتا ہوں۔ میں کسی بھی نظام کی حمایت یا مخالفت اس نظام میں “ہیومن کنڈیشن” کو مرکز میں رکھ کر کرتا ہوں۔ اور ایسا کوئی بھی نظام میں نے تا حال نہیں پایا ہے جو ہیومن کنڈیشن کو کما حقہ  مرکزیت عطا کر سکے۔ یہ ممکن بھی نہیں۔ اور “کمیونسٹ یوٹوپیائی سماج” سمیت مختلف مارکسی مباحث سے میں اتفاق بھی نہیں کرتا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

لیکن اس کے باوجود اجتماعی معاملات، تاریخ اور سماج کے مطالعے میں مارکسزم کی اہمیت کو ناگزیر قرار دینے کی وجہ یہ ہے کہ مارکسزم الہامی نہیں۔ یہ کوئی پروپیگنڈا پراجیکٹ نہیں تھا۔ یہ انسان کی زندگی اور سماج میں بہتری لانے کا خواہاں نظام ہے (طریقہ کار سے بے شک کوئی اختلاف کرے)۔ یہ نظام بغاوت کا عَلَم انسان کے ہاتھ میں تھماتا ہے۔ اور بغاوت کیا ہی خوبصورت شئے ہے۔ اس نظریے کا مرکز حضرتِ انسان اور انسانی سماج ہے۔ مارکس سمیت اس نظام کے دیگر پیش روؤں نے اس نظریے کی عمارت انسانی سماج کے گہرے مطالعے پر کھڑی کی ہے۔ مزید یہ کہ، مارکسزم کا تخم بھی سماج سے نکلا ہے اور اس کا پھل بھی سماج میں ہی گِرتا ہے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply