حقیقت کی تلاش میں ( ہندوستان )-1/شاکر ظہیر

یہ حقیقت کی تلاش شاید خالق نے انسان  کی فطرت میں رکھی ہے ۔ اس کو جانے بغیر اسے کسی پل چین نہیں آتا ۔ جب کوئی ایک قوم تھک ہار کر کسی ماورائی حقیقت کا انکار کرنے لگتی ہے یا ہاتھ اٹھا دیتی ہے کہ اس حقیقت کو پانا ناممکن ہے تو کوئی دوسری قوم اس کی تلاش میں سرگرداں ہو جاتی ہے ۔ سوالات تو وہی تھے کہ کیا اس زندگی ، اس کائنات کی کوئی حقیقت بھی ہے اور کیا اس کا کوئی اختتام بھی ہے ۔؟یہ اتنا بڑا کارخانہ اتنے ربط کے ساتھ چل کیسے رہا ہے ۔ اس اتنے بڑے  نظام کو کوئی چلا رہا ہے  یا یہ خود ہی وجود میں آ گیا اور خود ہی ایک ترتیب پا گیا ۔ اگر کسی ہستی نے اسے وجود بخشا ہے تو کیسے  ؟۔پھر وہ ہستی خود کیسی ہے ، اس کی صفات کیا ہیں ، اس کے اختیار میں کیا کچھ ہے ، اس نے انسان کو کیا کیا اختیارات دیے ہیں ۔ وہ کیا چیز ہے جو اس مادی وجود کے اندر داخل ہوتی ہے تو اسے زندہ کہہ دیتے ہیں اور وہ جب نکل جاتی ہے تو یہ مادی وجود مردہ کہلانے لگتا ہے ۔ وہ جو کچھ اس مادی وجود کو زندگی دینے والا عنصر ہے وہ آتا کہاں سے ہے ،پھر چلا کہاں جاتا ہے ۔ وہ زندگی دینے  والا عنصر انسانی جسم کے اندر کہاں پایا جاتا ہے ۔ اس کا اس دماغ کے ساتھ کیا تعلق ہے ۔ کیا وہ عنصر بھی مادی وجود کے ختم ہونے کے ساتھ ختم ہو جاتا ہے ۔ اس زندگی دینے والے عنصر کی ہیت ( shape ) کیا ہے ۔ کیا یہ بھی کوئی ٹھوس وجود ہے یا صرف ایک متھ ( myth ) ہے ۔ کیا یہ زندگی دینے والا عنصر جسے روح کہا گیا ، ماورائی خالق کی طرح ہی ماورائی ہے یا اس کی کوئی وضاحت کی جا سکتی ہے ۔ یہ شعور کیا ہے ۔ کیا یہ بھی دماغ   میں پایا جاتا ہے ۔ اس شعور کا مادی وجود کے ساتھ کیا تعلق ہے ۔ یہ جمالیاتی حِس کیا ہے یہ کہاں سے آتی ہے ۔ کیا یہ تمام انسانوں میں ایک جیسی ہوتی ہے ۔؟

انہی سوالات کو سامنے رکھ کر ہندوستان کی قوم نے تلاش شروع کی ۔اس تلاش کےلیے انہوں نے تصوف کا راستہ چُنا ۔ پھر اس تلاش کو انہوں نے اپنیشدوں کی صورت میں لکھا ۔

اس بات پر دنیا کے تمام محققین کا  اتفاق ہے کہ اکثر و بیشتر اپنیشدوں کا زمانہء  تصنیف آٹھویں صدی قبل مسیح ہے ، تصوف کی قدیم ترین تصانیف ہیں ۔ ان میں تصوف کے تمام بنیادی اصول بناکر  دیے گئے ہیں ۔ایک اپنیشد جس  کا نام ” اللہ اپنیشد ” ہے ،بعد میں مغل بادشاہ اکبر کے زمانے بھی لکھی گئی ۔ ان اپنیشد کی تعداد 108  ہے ۔ شری شنکر اچاریہ کی رائے میں 11اپنیشد اہم ہیں ۔ چنانچہ انہوں نے ان 11 کی شرح بھی لکھی ۔ ان میں سے کچھ کا ترجمہ ڈاکٹر رادھا کشن نے انگریزی زبان میں کیا ۔

شہزاد محمد دار اشکوہ قادری مرحوم ( مرید تھے حضرت ملاء شاہ خلیفہ حضرت میاں میر ) نے 52 اپنیشدوں کا ترجمہ فارسی زبان میں کیا ۔

اپنیشد کے لفظی معنی ” کسی کے پاس با ادب بیٹھنا ” اور شنکر اچاریہ کے بقول اس کے اصطلاحی معنی ” برہمہ گیان ” حاصل کر کے جہالت کا ازالہ ہے ۔ اپنیشدوں کی تعلیمات کا مرکزی نقطہ ” عرفان حقیقت ” ہے ۔ منڈک اپنیشد میں سوال کیا گیا کہ ” وہ کیا شئے ہے جس کا عرفان ہو جانے سے سارے جگ کا عرفان ہو سکتا ہے ؟ ” تو اس کا جواب یہ دیا گیا کہ ” وہ شئے خدا ہے ۔ اگر انسان کو اس کا عرفان حاصل ہو جائے تو ساری کائنات کا عرفان حاصل ہو جائے گا ۔”

ان اپنیشدوں کی تعلیمات کا خلاصہ یہ کیا گیا
1- خدا کا عرفان حقیقی ( برہمہ گیان ) فلسفے اور مذہب دونوں میں آخری مسئلہ ہے ۔ اس کائنات میں خدائے واجب الوجود ” برہمن ” اعلیٰ  حقیقت ہے اور وہ واحدہ  لاشریک ہے ۔ یہ عرفان بذریعہ وحی حاصل ہو سکتا ہے ۔ خدا کے عرفان حقیقی ( پہچان ، آگاہی) سے اطمینان قلب اور ابدی سرور حاصل ہو سکتا ہے

ان کی کچھ مختصر کی تفصیلات ہیں
1- حقیقت ، واحد ہے اور یہ کائنات اس ذات واحد و یگانہ کا مظہر ہے ۔ خدا واحد ہے لیکن اس نے اپنی آزاد مرضی سے اپنے آپ کو کثرت میں ظاہر کیا ہے ۔ وہ حقیقت الوحدہ حق , قطعی الثبوت اور لامتناہی ہے . یہ کائنات جیسی نظر آتی ہے ایسی اس لیے ہے کہ خدا کی مرضی یوں تھی ، وہ مختار کُل ہے ، کوئی شخص اس سے بازپرس نہیں کر سکتا ۔ وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے ۔ خدا کے سوا حقیقی معنی میں کوئی ہستی موجود نہیں ہے خدا حق ہے اور یہ کائنات ایک نمود بے بود ۔ خدا کی ذات مخفی بھی ہے اور آشکار بھی ، باطن بھی ہے ظاہر بھی ۔ اور وہ زمان و مکان اور سلسلہ علت و معلول سے بالاتر ہے ۔ وہ کائنات کے ہر ذرّے میں جاری و ساری ہے ۔ انسان نہ اسے آنکھوں سے دیکھ سکتے ہیں نہ لفظوں میں اسے بیان کر سکتے ہیں نہ ہی اس کی ذات کا تصور کر سکتے ہیں ۔ خدا کو صرف اس طرح بیان کیا جا سکتا ہے کہ وہ یہ بھی نہیں ہے ، وہ یہ بھی نہیں ہے ۔ جس طرح مٹھاس کی ماہیت اور کیفیت کو لفظوں سے نہیں سمجھا سکتے صرف اسے کھا کر دیکھ لو ۔ اسی طرح خدا کی ماہیت اور کیفیت کو لفظوں سے واضح نہیں کر سکتے ، خدا سے مل کر دیکھ لو ۔ ذات عرفان قیل و قال سے بالاتر ہے ۔ خدا صرف انہی کو اپنا جلوہ دکھاتا ہے جو اس کے دیدار کےلیے بیتاب ہیں اور اسے حاصل کرنے کےلیے اس کی جستجو میں ہیں ۔ اس خدا کو پانے کی یہ شرائط ہیں ضبط نفس ، ایثار ، شفقت ، ذکر ، مجاہدہ ، مراقبہ ۔ خدا اپنے عاشقوں کے قلب میں رہتا ہے ۔جو خدا کے سوا غیر سے دل لگاتا ہے وہ ابدی محرومی میں مبتلا ہو جاتا ہے ۔ انسان کی سب سے بڑی بدبختی یہ ہے کہ وہ دنیا سے دل لگائے ۔ اور مبارک ہے وہ جو جیتے جی عرفان حاصل کر لے اور جو ایسا نہ کرے وہ بڑا بدبخت ہے ۔ اس ذات کا شریک بنانا سب سے بڑی جہالت ہے ۔ وہی خدا ساری کائنات کی اصل بنیاد ہے ۔

معرفتِ خدا صرف مشاہدہ سے حاصل ہو سکتی ہے ۔ یہ معرفتِ خدا مذہب ، علم شریعت سے بالاتر ہے ۔ یہ ضروری نہیں کہ جو عالم شریعت ہو وہ عارف بھی ہو ۔ عرفان حق نہ کتابوں سے حاصل ہو سکتا ہے نہ عقل سے نہ استدلال سے نہ گفتگو سے نہ مناظرے سے , یہ نعمت تو صرف عشق سے حاصل ہوتی ہے ۔ علم کتابوں سے حاصل ہوتا ہے اور معرفت عشق سے ملتی ہے ۔ خدا اپنے آپ کو صرف عاشقوں پر ظاہر کرتا ہے ۔ اطمینان بھی صرف اسے حاصل ہوتا ہے جو خدا کا جلوہ اپنے اندر دیکھ لے ۔ خدا کی معرفت  عرفانِ ذات سے انسان غیر فانی ہو جاتا ہے ۔ گیان دھیان کا مقصد یہ ہے کہ خدا سے وصل نصیب ہو جائے ۔ یعنی اس کا قرب حاصل ہو جائے ۔ جسے دیدار حاصل نہ ہو سکا اس کی زندگی اکارت گئی ۔
کوئی محدود چیز روح کو اطمینان عطا نہیں کر سکتی ۔ فانی سے دل لگانا  سب سے بڑی نادانی ہے ۔ جس طرح آگ سے  چنگاریاں نکلتی ہیں اسی طرح خدا سے ارواح کا صدور ہوتا ہے اور انجام کار یہ ارواح اسی کی طرف لوٹ جاتی ہیں ۔۔کے بعد معلوم حواس میں اس کے بعد حواس میں ۔

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply