• صفحہ اول
  • /
  • سائنس
  • /
  • اس AI آرٹیفیشل انٹیلیجنس کے دور میں کیا کام کِیا جائے؟/علی محسن رضا

اس AI آرٹیفیشل انٹیلیجنس کے دور میں کیا کام کِیا جائے؟/علی محسن رضا

اس سوال کا پہلا جواب تو یہ ہے کہ آرٹیفشل انٹیلیجنس اتنی پیچیدہ ٹیکنالوجی ہے کہ ہر انسان اسے استعمال نہیں کر پائے گا اور جو عام لوگ کریں گے وہ محض تفریح کی غرض سے ہی کر پائیں گے کیونکہ اس سے متصل پروموٹ انجینئرنگ کو سمجھنے اور سیکھنے کے لئے وقت کے ساتھ ساتھ تمام ڈیجیٹل ایپس سے متعلق بھرپور نالج بھی لازم ہے۔
مثلاً
اس وقت Midjourney کی دھوم ہے۔ یہ AI بیسڈ ایک ایسا سرور یا جنریٹر ہے جو آپ کے الفاظ کو تصویر میں بدل دیتا ہے۔ یعنی اگر آپ اس کو یہ کمانڈ دیں گے کہ
’’A flower on a table”
تو یہ ایک منٹ کے اندر آپ کو میز پر رکھے ہوئے ایک پھول کی ایک نہیں چار تصاویر بنا کر بھیج دے گا اور یہی نہیں بلکہ اگر آپ یہ کمانڈ ہزار بار بھی اُسے دیں گے تو وہ ہزار بار ہی میز پر رکھے ہوئے پھول کی پہلے سے مختلف چار تصاویر آپ کو بھیجے گا یعنی ایک ہزار بار کمانڈ دینے پر وہ ایک ہی سبجیکٹ پر مشتمل چار ہزار بالکل نئی اور الگ الگ تصاویر آپ کو بھیج دے گا۔

معمول کے مطابق اس جنریٹر کے حوالے سے بھی یوٹیوبرز اور ہمارے ڈیجیٹل اساتذہ نے یہ شور مچا رکھا ہے کہ اب اسے جنریٹر کی مدد سے ہر کوئی ڈیجیٹل پینٹر یا گرافک ڈیزائنر بن جائے گا۔
لیکن ایسا بالکل نہیں ہے۔ یہ لوگ ایسا اس لئے کہہ رہے ہیں کیونکہ ان کو AI کے ورکنگ سسٹم کے متعلق کچھ علم نہیں۔ یہ لوگ سمجھتے ہیں کہ مصنوعی ذہانت کا مطلب ایک روبوٹ ہے جو خود سے سوچے گا وغیرہ وغیرہ۔۔ حالانکہ ایسا کچھ بھی نہیں۔

آرٹیفیشل انٹیلیجنس ایک لفظ بھی خود سے نہیں سوچ پاتی۔ میں نے اس پر کئی تجربات کیے ہیں۔ یہ بس وہی کچھ جانے گی جو ہم انسان اسے سکھائیں گے اور یہ فقط وہی کچھ تصوّر کرے گی جو ہم انسانوں یا آرٹسٹوں نے پہلے سے تصور کر رکھا ہے۔
مثلاً
آپ AI سے خدا کی تصویر مانگیں گے تو یہ ہمارے ہی مذاہب کے تراشے خداؤں کی تصاویر کو بار بار دکھاتی رہے گی۔
لیکن کیا ایسا واقعی ہوگا؟

آج سے چار سال پہلے گوگل کولیب پر ایک فرینچ کمپیوٹر سائینٹسٹ نے اسی طرح کی ایک نوٹ بُک تیار کی تھی جو تصویر بنانے میں اِس کی نسبت کچھ زیادہ وقت لیتی تھی۔ میں تب سے اِس ریسرچ کا حصّہ ہوں اور اس نئی ٹیکنالوجی کے پلس پوائنٹس اور خامیوں کامشاہدہ کر رہا ہوں۔

آرٹیفیشل انٹیلیجنس اصل میں ہے کیا بَلا؟

اس سوال کا جواب میں نے کچھ دن پہلے ایک  پوسٹ میں دیا تھا جس کے اندر میں نے اس ٹیکنالوجی کے ڈھانچے، اس کے کام کرنے کے طریقے اور اس کے آپریٹنگ سسٹم پر وضاحت سے لکھا تھا لیکن چونکہ ہمارے لوگ حقائق جاننے کی بجائے سنسنی خیز پروپیگنڈہ کو زیادہ پسند کرتے ہیں اس لئے اُس پوسٹ تک صرف چند ایک لوگ پہنچے اور انہوں نے بھی کوئی طلب نہیں دکھائی اور نہ ہی کوئی ایسا سوال پوچھا جس سے میں موضوع کو جاری رکھتا۔

کیونکہ میری طبعیت خاموشی سے کام کرنے کی ہے اس لئے زیادہ تر لوگ مجھے ایک دس بیس ہزار کی تنخواہ پر پڑھانے والا ایم ـ  اے اُردو ٹیچر سمجھتے ہیں جس ملنگ کو پینٹنگز وغیرہ بنانے کا شوق ہے یا فیسبک کا ایک غیر سنجیدہ سا صارف ہے۔

لیکن یہ بات بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ میں نے پہلے صحافت میں ایم اے کیا ہے اور ایم اے اردو کی ڈگری بعد میں شوقیہ لے رکھی ہے اور اگر صحت نہ بگڑتی تو پولیٹیکل سائینس میں بھی اب تک ڈگری حاصل کر لیتا۔ اس کے علاوہ کمپیوٹر ٹیکنالوجی میں بھی میری تعلیم کا دورانیہ دو سال آفیشل ہے جبکہ تجربہ اور محنت اس سے کہیں زیادہ ہے۔

کہنے کا مقصد یہ ہے کہ سیاسی، سماجی یا معاشرتی مسائل پر لکھنا کوئی راکٹ سائنس نہیں یا ایسا نہیں ہے کہ عمرانیات اور سوکس کے ساتھ انٹر اور گریجوایشن مکمل کرنے والے اور کئی سالوں سے سیاسیات کو بطور اُستاد پڑھانے اور سمجھانے والے کے لئے پاکستان کی کچرا سیاست کو سمجھنا اور اس پر لکھنا کوئی مشکل کام ہے۔

لیکن سوال یہ ہے کہ اپنا وقت برباد کیوں کیا جائے؟

آرٹیفیشل انٹیلیجنس آج سے نہیں بلکہ چار سال پہلے سے ہمارے دروازوں پر دستک دے رہی تھی لیکن ہمیں یا تو سیاست سے فرصت نہیں یا ہمارے موٹیوشنل سپیکرز اور مولویوں کے لیکچرز سے۔
آج آرٹیفیشل انٹیلیجنس سے ایک پختہ گرافک ڈیزائنر، ڈیجیٹل آرٹسٹ یا اینیمیٹر کو کوئی خطرہ نہیں بلکہ یہ ٹیکنالوجی اپنے آؤٹ پُٹ میں اِنہی کی محتاج ہے اور شدت سے محتاج ہے لیکن یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے واقعی کسی ہنر کو سیکھا پھر سمجھا اور اس کو نکھارا۔

انٹرنیشنل پلیٹ فارمز پر سے جلد ہی وہ لوگ بیروزگار ہو کر اُٹھ جائیں گے جنہوں نے اِن فیلڈز کا جعلی لیبل اپنے اوپر لگا کر بس اپنا وقت گنوایا۔

میں ابھی بھی دوستوں کو یہی سجیسٹ کروں گا کہ کسی ایک ڈیجیٹل سِکل پر اپنا وقت خرچ کریں، یوٹیوبرز اور موٹیویشنل سپیکرز سے جان چھڑا کر، مذہب، فرقوں، سیاست اور معاشرت کے جھگڑوں سے نکل کر۔

Advertisements
julia rana solicitors

یقین جانیں ہمارے مسائل نکاحوں میں تاخیر یا دین سے دوری نہیں ہیں بلکہ ہمارا مسٔلہ یہ ہے کہ ہمارا ہمسایہ بھارت ڈیجیٹل ورلڈ میں ہم سے دسیوں سال آگے ہے اور یہی حال رہا تو جلد ایشیا جو فری لانسنگ کی ایک بڑی مارکیٹ ہے اس میں صرف بھارت ہی موجود ہوگا اور ہم اگلے کئی سالوں تک ایک بار مکمل طور پر ٹیکنیکلی اَن پڑھ ہو جائیں گے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply