• صفحہ اول
  • /
  • خبریں
  • /
  • سویڈن میں قران پاک کی بے حرمتی :عالم اسلام کا شدید غم و غصے کا اظہار

سویڈن میں قران پاک کی بے حرمتی :عالم اسلام کا شدید غم و غصے کا اظہار

سویڈن میں قران پاک کی بے حرمتی پر عالم اسلام میں شدید غم و غصہ پایا جارہا ہے ۔

تفصیلات کےمطابق ترک وزیر خارجہ نے سویڈن میں قرآن پاک کی بے حرمتی کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا کہ اظہار رائے کی آزادی کی آڑ میں ہم اپنی مقدس کتاب پر ہونے والے گھناؤنے حملے کی سخت ترین الفاظ میں مذمت کرتے ہیں۔ ہماری مقدس اقدار کی توہین اور اسلام مخالف فعل کی اجازت دینا ناقابل قبول ہے۔

ترکہ وزیر خارجہ نے اپنا دورۂ سویڈن بھی منسوخ کردیا۔ سعودی عرب نے بھی سویڈن میں قرآن پاک کی بے حرمتی کے واقعے کی شدید الفاظ میں مذمت کی اور ذمہ داروں کے خلاف سخت سے سخت کارروائی کا مطالبہ کیا۔

ایران اور عراق نے اس معاملے پر سویڈن کے سفارت کاروں کو طلب کرکے شدید احتجاج ریکارڈ کروایا۔ اردن اور کویت سمیت دیگر عرب ممالک نے بھی قرآن پاک کو نذر آتش کرنے کی مذمت کی۔

پاکستانی وزارت خارجہ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ یہ آزادیٔ اظہار رائے نہیں۔ اسلاموفوبیا پر مبنی اس عمل سے دنیا بھر میں 1.5 ارب مسلمانوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچی ہے۔

مسلم دنیا کے غم و غصے پر سویڈن کے وزیر خارجہ ٹوبیاس بلسٹروم نے بیان جاری کیا کہ اسلامو فوبک اشتعال خوفناک ہے۔ ملک میں اظہار رائے کی آزادی ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ سویڈن کی حکومت، یا میں اس طرح کے اقدام کی حمایت کرتے ہیں۔

واضح رہے کہ دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے انتہاپسندوں نے سویڈن کے نیٹو میں شمولیت کی مخالفت کرنے پر ترکیہ کے خلاف اسٹاک ہوم میں مظاہرے کے دوران قرآن کے اوراق جلائے۔

عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق سویڈن میں دائیں بازو کے کٹر رہنما ریسمس پلودن نے ترکیہ کے سفارت خانے کے سامنے ایک مظاہرے میں قرآن پاک اور ترکیہ کے پرچم کو نذر آتش کیا۔

Advertisements
julia rana solicitors

خیال رہے کہ ڈنمارک کی انتہائی دائیں بازو کی سیاسی جماعت کے متنازع رہنما ریسمس پلودن اس سے قبل بھی قرآن پاک کو نذر آتش کرنے کی ناپاک حرکتیں کر چکا ہے۔

Facebook Comments

خبریں
مکالمہ پر لگنے والی خبریں دیگر زرائع سے لی جاتی ہیں اور مکمل غیرجانبداری سے شائع کی جاتی ہیں۔ کسی خبر کی غلطی کی نشاندہی فورا ایڈیٹر سے کیجئے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply