روٹی کا تصادم/خنساء سعید

” پاپڑ کرارے”

” لے لو پاپڑ کرارے ”

رگوں میں خون منجمد کرنے والی سردی اور دھند میں وہ پاپڑوں والا ٹوکرا کندھے پر رکھ کر ہر گلی ہر چوک چوراہے پر آوازیں لگا رہا تھا۔
تن پر ایک باریک سی قمیض پر ایک بوسیدہ سویٹر پہنے ایک خستہ حال سے جوتے میں برف کی سل کی مانند نیلے پڑے ٹھنڈے پاؤں وہ اُٹھاتا نہیں، بلکہ گھسیٹ رہا تھا۔

پاپڑوں کے خریدار زیادہ بچے ہوتے تھے مگر آج کل اُسے کہیں کوئی بچہ نظر نہیں آتا تھا، شاید ماؤں نے بچوں کو سمجھا دیا تھا کہ اس ہوش ربا مہنگائی میں اُن کی کوئی ضد پوری نہیں ہو گی. اس لیے کوئی بچہ اپنے گھر سے باہر ہی نا نکلتا آواز لگانے کے بعد خریداروں کے قدموں کی آہٹ سننے کے لیے اُس کے کان کھڑے ہو جاتے مگر نا کسی گھر کے دروازے میں چرچراہٹ پیدا اور نہ ہی قدموں کی کوئی آہٹ سنائی دیتی۔

وہ آوازیں لگاتا ہوا گلیوں سے ہو کر ایک چوک میں پہنچا تو کیا دیکھتا ہے کہ وہاں ایک بھیڑ لگی ہے لوگ ہاتھوں میں پیسے کو ایک دوسرے پر چیخ رہے ہیں چلا رہے ہیں ایک دوسرے کو دھکے دے رہے ہیں کہ سامنے ٹرک سے جہاں آٹے کے بے شمار تھیلے رکھے ہوئے ہیں ایک آواز بلند ہوتی ہے۔

“سارے لائنوں میں لگ جاؤ، پھر ہی آٹا ملے گا ورنہ آپس میں یونہی لڑتے رہو سب”۔

یہ سنتے ہی سب لوگ ایک لمبی سی لائن بنا کر کھڑے ہو جاتے ہیں پیسوں والے ہاتھ اُن کے ابھی بھی اوپر ٹرک کی طرف اُٹھے ہوتے ہیں۔

یہ منظر دیکھ کر وہ ایک آدمی سے پوچھتا ہے۔

“یہ ٹرک اور کتنے دن یہاں آئے گا۔
یہ تو روز ہی آتا تھا مگر اب ٹرک والے کہہ رہے ہیں کہ آٹا ختم ہو چکا ہے کل سے یہ ٹرک یہاں نہیں آئے گا، پاس کھڑے ایک دوسرے آدمی نے اُس کے چہرے پر افسردگی دیکھ کر کہا،
نہیں نہیں میرے بھائی پریشان ہونے کی ضرورت نہیں یہ ٹرک اب اگلی سوار کو آئے گا۔

یہ سن کر وہ کسی سوچ میں پڑھ گیا اور وہاں سے چل دیا۔

اب دن رات اُس کو ایک ہی فکر ستانے لگی سوموار آنے میں صرف پانچ دن باقی ہیں پاپڑ تو بکتے ہی نہیں آٹا لینے کے پیسے کہاں سے لاؤں گا۔
اور پھر اگلے روز وہ گھر سے یہ فیصلہ کر کے نکلا کہ آج سے وہ دو محلوں کی بجائے چار محلوں میں پھیری لگایا کرے گا۔

دسمبر کے یخ بستہ دنوں میں وہ صبح سے شام تک محلوں کی تنگ تنگ گلیوں میں چلتا ہوا تھک جاتا، مسلسل ٹوکرا کندھے پر اٹھانے سے اُس کا کندھا شل ہو چکا تھا، ٹانگیں اپنی ہمت سے زیادہ چلنے کی وجہ سے بے جان رہنے لگی تھیں، آوازیں لگا لگا کر گلے کی رگیں پھٹ چکی تھیں، سانس لیتا تو پسلیاں دُکھنے لگتیں، آواز لگاتا تو گلہ دُکھتا مگر اس سب کی پروا کیے بغیر صرف اُس کا ایک ہی مقصد تھا کہ اُس کے گھر سے آٹا ختم ہونے کو ہے اور اُس نے ٹرک سے سستے آٹے کا تھیلا خریدنا ہے۔
سوموار آنے میں صرف ایک دن باقی تھا اور اُس کے پاس پیسے جمع نہیں ہو پائے تھے۔

ٹی وی پر چلنے والی خبریں مسلسل یہ ہی کہہ رہی تھیں کہ آٹا شارٹ ہو چکا ہے اب سستے آٹے کے ٹرک بھی خال خال ہی آیا کریں گے۔

اُس کے بچے گھر میں بھوکے تھے، آٹا شارٹ ہونے کی خبریں گردش کر رہی تھیں، پیسے اُس کے پاس جمع نہیں ہو پائے تھے ان ساری پریشانیوں نے اُس کو بوکھلا کر رکھ دیا تھا۔

آخر کار اُس نے اسی بوکھلاہٹ میں فیصلہ کیا کہ جتنے پیسے اُس کے پاس ہیں وہ انہی پیسوں سے آٹے کا تھیلا خرید لائے۔
میں اُن کی منت سماجت کر لوں گا کہوں گا میرے بچے گھر میں بھوکے ہیں میرے گھر میں کھانے کو اناج نہیں اور میری جیب میں اناج خریدنے کے پیسے نہیں شاید مجھے ان پیسوں میں ہی ایک تھیلا مل جائے۔

اور پھر سوموار کو آٹا لینے وہ چوک میں پہنچ گیا، چوک میں ٹرک آ چکا تھا لوگ کا ایک جمگھٹ ٹرک کے پاس جمع تھا، سب نے اپنے بازو ہوا میں بلند کر رکھے تھے، ہر کوئی ایک دوسرے کو پیچھے کی طرف دھکیل رہا تا کہ اُسے پہلے آٹا مل جائے یہ دیکھ کر ٹرک سے پھر وہ ہی آواز بلند ہوئی۔

” آٹا لینا ہے تو لائن میں لگ جاؤ سب.۔”

یہ سنتے ہی سب لائن میں لگ گئے اور وہ لمبی بہت لمبی بنی لائن کے آخر میں جا کر کھڑا ہو گیا کیونکہ اُس کے پاس پیسے پورے نہیں تھے۔
ہاتھوں میں پکڑے تھوڑے پیسے اور پھر گھر اور بچوں کا خیال نے اُس کے دل کی دھڑکن تیز کر دی اُس کی ٹانگیں کانپنے لگیں وہ وہیں زمین پر بیٹھ کر لمبی لمبی سانسیں لینے لگا۔

لمبی لائن آہستہ آہستہ چھوٹی ہو رہی تھی لوگ اپنا اپنا تھیلا سر اور کندھوں پر رکھ کر چلتے جا رہے تھے لائن میں اب صرف پانچ لوگ بچے تھے کہ ٹرک سے آواز آئی۔
صاحبو!

” تم پانچ لوگ ہو اور آٹے کا صرف ایک تھیلا باقی بچا ہے۔”
اُس نے ابھی پوری بات بھی نہیں سنی تھی، اپنی لرزتی ہوئی آواز میں کہنے لگا۔

” مگر میرے گھر آٹا نہیں ہے جی، ہم کیا کھائیں گے؟”

باقی چاروں بھی یک زبان ہو کر بولے ہمارے گھروں میں بھی آٹا نہیں ہے ہمارے چولہے بھی بند ہیں ہمیں بھی اس کی اشد ضرورت ہے۔

یہ سن کر ٹرک والا کہنے لگا!

“میں آٹے کا یہ تھیلا ہوا میں اُچھال دیتا ہوں جس نے پکڑ لیا اُس کا ہوا.”

نیچے سے نہیں نہیں کی صدائیں بلند ہونے لگیں۔

اسی اثناء میں آٹے کا تھیلا ہوا میں بلند ہوا اور ایک نوجوان توانا آدمی نے اُچھل کر تھیلا پکڑ لیا، باقی کے چاروں اُس سے تھیلا چھیننے لگے کوئی کہتا مجھے دے دو میرے گھر میں اس کی ضرورت ہے تو کوئی کہتا یہ مجھے دے دو میرے بھائی میرے بچے بھوکے ہیں کوئی کہتا میرے بوڑھے ماں باپ بھوکے ہیں روٹی کے اسی تصادم میں آٹے کا تھیلا پھٹا اور سڑک کو سفید کر گیا۔

Advertisements
julia rana solicitors

وہ پانچوں حواس باختہ سے سڑک پر بکھری اپنے گھر کی روٹیاں دیکھتے رہے اور اُن کی آنکھوں سے نکلنے والے آنسو ریاست کا منہ چڑھاتے رہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply