قصّہ شہر بدری کا(5)-شکور پٹھان

چلیے صاحب زندگی کسی ٹھکانے تو لگی۔ کسی ڈھب پر تو آئی۔ یہاں پاکستان جیسی مادر پدر آزادی تو نہیں تھی۔ صبح آٹھ بجے کا مطلب تھا سچ مچ کے آٹھ بجے۔ اپنے یہاں تو ایسی “ چھوٹی موٹی” باتوں کی پرواہ بھلا کون کرتا تھا۔ سرکاری دفتر میں دیکھ لیا تھا کہ ساڑھے سات بجے کھلنے والے دفتر میں یار لوگ نو ساڑھے نو سے پہلے کبھی نہیں آتے تھے، رہے افسر صاحبان، تو وہ بادشاہ لوگ تھے۔ آئے ، آئے، نہ آئے نہ آئے انہیں بھلا پوچھنے والا کون تھا۔ وقت کی قدر ساکنان مملکت خداداد نے کبھی نہیں کی۔ وقت نے بھی انہیں بھلا دیا اور اب ہم ترقی یافتہ دنیا سے سو برس پیچھےکہیں کھڑے ہیں۔
چچا کی بڑی سختیاں تھیں کہ صبح وقت پر اٹھو ۔ اچھی طرح سے نہا دھوکر تیار ہو اور وقت سے پہلے کام پر پہنچو۔ وہ خود بھی ساری زندگی یہی کرتے آئے تھے ۔ لیکن ایک اور بات بھی بنک میں پہلے دن ہی سیکھ لی تھی کہ بنک میں آنے کا وقت تو ہے ، جانے کا کوئی وقت نہیں۔
عارف صاحب نے اوپر مبین صاحب کے پاس بھیج دیا تھا۔ مبین صاحب بہت پیارے سے خوش خلق اور خوش اطوار انسان تھے۔ بڑی اپنائیت اور نرمی سے پیش آئے۔ ساتھ بیٹھے ہوئے دو صاحبان سے ملوایا جن کا انداز بہت زیادہ دوستانہ نہیں تھا بلکہ جب میں مبین صاحب سے اپنا تعارف کروا رہا تھا تو ایک گورے سے بھاری بھرکم صاحب نے،جو ایک بڑی سی میز پر بیٹھے تھے، جس کا مطلب تھا کہ وہ ذرا اونچے درجے پر فائز ہیں، اپنی عینک اونچی کرکے مجھے ذرا ترچھی نظروں سے یوں دیکھا تھا جیسے کہہ رہے ہوں “ ایں! یہ کیا چیز آئی ہے؟”۔ دوسرے حضرت ایک چھوٹی سی میز جس پر ٹائپ رائٹر دھرا تھا، بیٹھے ہوئے تھے، یعنی ٹائپسٹ عرف کلرک تھے۔
“یہ قدوس صاحب ہیں اکاؤنٹس ڈیپارٹمنٹ کے ہیڈ۔ تمہیں انہیں رپورٹ کرنا ہوگا”۔ مبین صاحب نے بڑے صاحب سے ملوایا۔ میں نے با ادب ہو کر سلام کیا اور ڈرتے ڈرتے ہاتھ آگے بڑھایا جسے کچھ تردد کے بعد قبول کرلیا گیا۔
“ اور یہ صدیق بھائی ہیں” مبین صاحب ان کے بارے میں تفصیل بتانا ضروری نہیں سمجھی۔ آخر کو پاکستانی بینک تھا۔ یہاں حفظ مراتب کا خیال رکھا جاتا تھا، یعنی لوگوں کو ان کی اوقات میں رکھا جاتا تھا۔ صدیق بھائی نے البتہ ایک مسکراہٹ کے ساتھ ہاتھ پہلے ہی میری طرف بڑھایاہوا تھا۔ان کے مصافحے میں گرمجوشی محسوس ہوئی ۔
مبین صاحب کی میز پر بہت سارے بڑے بڑے کارڈز دھرے ہوئے تھے۔ یہ مختلف بہی کھاتے تھے۔ “ یہ ٹی اوڈی ہے، یہ سی او ڈی ہے، یہ ایف ڈی آر ہے۔ یہ سیونگ اکائنٹس ہیں اور یہ کرنٹ اکاؤنٹ ہیں،
“ چلو پہلے تمہیں نیچے ملودایتے ہیں” مبین بھائی کو کچھ یاد آیا۔
“ یہ امتیاز صاحب ہیں ، برانچ مینیجر”
“ سلام علیکم”
“ یہ شفقت صاحب ہیں ، آفیسر ہیں “
“ سلام علیکم”
یہ چھوٹی سی مگر بہت مصروف برانچ تھی۔ اندر اچھا خاصا رش تھا۔ چھوٹا ساہال بالکل ویسا تھا جیسا یوسفی صاحب نے “ زرگزشت” میں پیش کیا ہے۔ نشست و برخاست کی ترتیب بھی تقریباً ویسی ہی تھی البتہ وہ گردے کی شکل کے سوراخ والے “ کثیرالمقاصد” اسٹول نہیں تھے۔ ان کی جگہ گھومنے والی اور آرام دہ کرسیاں تھیں۔ “ زرگزشت” بھی ابھی شائع کہاں ہوئی تھی۔ البتہ یوسفی صاحب اور آغا صاحب ( آغا حسن عابدی ) کا ذکر خیر اکثر سننے میں آتا لیکن یہ بھی بعد کی بات ہے۔ ابھی تو ذرا پہلے دن کا قصہ سن لیں۔
“ یہ حسین بھائی ہیں “ مبین بھائی نے کیشئیر صاحب سے ملوایا جنہوں نے نوٹوں کی گڈی گنتے گنتے روک کر ہاتھ ملایا ۔
“ تم بھی گورنمنٹ کامرس کے پڑھے ہوئے ہو” حسین بھائی مسکرا کر بولے۔ گویا میرے اوپر جانے کے بعد یہاں میرا ذکر ہوتا رہا تھا۔
“ یہ لیاقت ہیں، ٹرانسفرز دیکھتے ہیں ، یہ موسٰی ہیں کلیئرنس دیکھتے ہیں ، یہ یوسف ہے ریمیٹنس ان کے ذمے ہے” مبین بھائی مختلف لوگوں سی ملواتے رہے پھر اوپر آگئے۔ اکاؤنٹس کے آگے ایک اور چھوٹا سا ہال تھا۔
“ اسرپھ” ایک خوبصورت سے دراز قد نوجوان نے مسکرا کر اپنا تعارف کروایا۔
“ اشرف ایل سی دیکھتے ہیں “ مبین بھائی نے بتایا۔ پھر بشیر صاحب سے ملوایا۔ یہ ذرا اسمارٹ سے اور سوٹڈ بوٹڈ صاحب تھے۔ میز پر “ شمع نئی دہلی” کی ورق گردانی میں مصروف تھے۔ ایک نظر مجھے دیکھا ۔ میں نے سلام گذارا ۔ مبین بھائی ہاتھ ملوائے بغیر مجھے واپس اپنی میز پر لے آئے۔
وہ مجھے کام سمجھاتے رہے ۔ میری کچھ سمجھ آیا کچھ نہیں آیا۔ میں خاموشی سے گردن جھکائے سنتا رہا۔ کبھی کبھار ایک آدھ سوال کرلیتا۔ کچھ باتوں کو نوٹ کرلیتا۔ کچھ دیر بعد انہیں کچھ یاد آگیا۔ مجھے وہیں بٹھا کر کہیں چلے گئے۔ میں خالی خالی نظروں سے مختلف کارڈ دیکھتا رہا۔ البتہ کھاتے داروں کے نام ذرا دلچسپ تھے۔ “ احمد منصور العالی”، “ یوسف بن احمد کانو” بھاٹیا برادرز” کیول رام اینڈ سنز” “ کاوالانی اینڈ سنز”۔
ان میں مقامی عرب، ایرانی، ہندو سندھی، گجراتی اور پاکستانی ، ہر طرح کے نام تھے۔ ہندوستانی اور عرب نام میرے لئے نئے تھے۔ میں کچھ دیر ان کارڈوں کو دیکھتا رہا پھر باہر والے حصے میں آگیا جہاں ایک کونے میں بنے چھوٹے سے کیبن میں نیچے سے کچھ لڑکے آکر چائے بنارہے تھے۔ یہ لیاقت اور موسی تھے۔تیسرا مراد علی تھا۔ شاید مجھ سے بھی چھوٹا۔ گلابی گلابی سا یہ بلوچ لڑکا یہاں آفس بوائے تھا۔
“ نور صاحب بڑا زبردست بولتے ہیں۔ کیا شاندار آواز ہے ان کی” موسٰی میرے چچا کے بارے میں کہہ رہا تھا۔ گویا نیچے میرے بارے میں سب جان گئے تھے کہ یہ نور صاحب کا فرستادہ اور گورنمنٹ کامرس کالج، کراچی کا پڑھا ہواہے۔ چچا یہاں تقریباً چودہ سال سے تھے اور یہاں کی ادبی اور ثقافتی تقریبات کی جان تھے۔ یہ ساری تقریبات پاکستان کلب کے زیر اہتمام ہوتی تھیں اور چچا نور پٹھان اکثر مشاعروں کی نظامت اور فنکشنوں کی کمپئرنگ کرتے تھے اور پاکستانیوں بلکہ بحرینیوں میں بے حد مقبول تھے۔ تقریباً سارا بحرین انہیں جانتا تھا۔ بحرین ویسے ہی بہت چھوٹا سا تھا۔ اگر بحرین ائرپورٹ پر کوئی ٹیکسی والے کو نور پٹھان کا صرف نام بتادے تو وہ مسافر کو سیدھا ان کے گھر یا ان کے دفتر “ بحرین گیس” پہنچا دیتا تھا۔ ان کا تیسرا ٹھکانہ پاکستان کلب تھا اور اکثر بحرینی اس سے واقف تھے۔ یہ میں سن 76 کی بات کررہا ہوں۔ اب وہ بات نہیں گو اب بھی وہ بحرین میں مقبول اور معروف ہیں۔
لیاقت اور موسٰی اپنے کراچی کے تھے۔ کچھ دیر دوچار باتیں کرکے وہ نیچے چلے گئے۔ مراد علی میرے پاس آبیٹھا۔ قدوس صاحب کہیں نیچے گئے ہوئے تھے۔ مراد علی نے فلموں کی باتیں شروع کردیں۔ یوں لگتا تھا کہ میرا بحرین آنے کا مقصد ہندوستانی فلمیں دیکھنا ہی تھا۔ ہر کوئی صرف یہی بات کرتا تھا۔
“ آپ کو پتہ ہے پران بلوچ ہے” مراد علی نے میری معلومات میں اضافہ کیا۔
“ اچھا؟” مجھے پران کے بارے میں زیادہ علم نہیں تھا ۔ لیکن میرا خیال تھا کہ وہ شاید پنجابی یا یوپی وغیرہ کا ہوگا۔
مراد سے میری دوستی ہوگئی۔۔لیکن یہ بھی بعد کی باتیں ہیں۔
ڈیڑھ بجے لنچ کا وقفہ تھا جو چار بجے تک جاری رہتا۔ اس دوران سب گھر چلے جاتے اور ناشتے اور قیلولے سے فارغ ہوکر چار بجے واپس آتے۔ چار بجے کے بعد صرف ریمیٹنس کے لیے برانچ چھ بجے تک کھلی ہوتی اور پاکستانی محنت کشوں کا ہجوم ہوتا جو اپنے پیاروں کو اپنے خون پسینے کی کمائی بھیجنے کے لیے ڈرافٹ بنوانے یہاں جمع ہوتے۔
میں گھر سے واپس آیا تو امتیاز صاحب اور شفقت صاحب کوسر پکڑے بیٹھے دیکھا۔ مبین صاحب کسی وجہ سے جلدی چلے گئے تھے اور واپس نہیں آئے تھے۔ مبین صاحب سارے اکاؤنٹس بیلینس کرتے تھے جس کے بعد ہی بینک کا آج کا دن مکمل ہوتا تھا۔ سارا اسٹاف بینک کے اوقات کے بعد گھر چلا جاتا لیکن اکاؤنٹس والے اپنا کام مکمل ہونے سے پہلے نہیں جاسکتے تھے۔
امتیاز صاحب اور شفقت صاحب کے علاوہ سب گھر چلے گئے تھے۔ مجھے انہوں نے روک لیا تھا۔ میں ان کے کسی کام تو کیا آتا البتہ مختلف کھاتوں کے ٹوٹل چیک کرکے دے دیتا یا پھر مختلف واؤچر وں کا اندراج دیکھتا کہ درست ہے یا نہیں۔ یہاں چیک عربی اور انگریزی میں لکھے جاتے تھے۔ عربی لکھنے کا انداز بھی اردو جیسا نہیں تھا اور بعض ہند سے عجیب طرح سے لکھے جاتے تھے۔ مثلاً عربی کا پانچ ۵ انگریزی کے صفر کی طرح نظر آتا۔ عربی کا چھ جس انداز سے لکھا جاتا ہے وہ پہلی نظر میں انگریزی کا سات 7لگتا ہے . اگر پچھلا چیک انگریزی میں لکھا ہو اور اگلا چیک عربی میں ہوں تو ۶۵ دینار پر انگریزی کے 70 کا مغالطہ ہوتا۔ اس طرح کی غلطیاں عام تھیں لیکن یہ سب کچھ تو مجھے بعد میں معلوم ہوا۔
امتیاز صاحب اور شفقت صاحب مختلف رجسٹروں، واؤچر وں اور لیجرز میں سرکھپائے ہوئے تھے۔ اس زمانے میں کیلکولیٹر آنا شروع ہوئے تھے لیکن یو بی ایل میں اب تک نہیں آئے تھے۔ ایک جمع کرنے کی مشین Adding Machine تھی۔ جس پر میں مختلف رجسٹروں کے اندراجات ٹوٹل کرنے کی ناکام کوشش کرتا۔ اس کے مقابلے میں منہ زبانی ٹوٹل زیادہ آسان اور جلد ہوجاتا تھا جس کی عادت کراچی میں ٹی وی کارپوریشن اور گورنمنٹ کی نوکری میں اچھی خاصی پڑ چکی تھی۔
رات نو بجے کے بعد کہیں جاکر جیسے تیسے حسابات برابر ہوئے۔ ایک سبق پہلے دن ہی مل گیا کہ دفتری اوقات سے زیادہ بیٹھنا کوئی ایسی اچنبھے کی بات نہیں اور اس کے بعد کبھی دیر تک بیٹھنے پر جھنجھلاہٹ یا کوفت نہیں ہوئی کہ یہ پردیس کی نوکری تھی اور یہاں بندہ مزدور کے اوقات ایسے ہی تھے۔
تو جناب پہلے ہی دن ٹھیک ٹھاک طبیعت صاف ہوگئی۔
“اڑنے نہ پائے تھے کہ گرفتار ہم ہوئے”۔

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments

شکور پٹھان
محترم شکور پٹھان شارجہ میں مقیم اور بزنس مینیجمنٹ سے وابستہ ہیں۔ آپ کا علمی اور ادبی کام مختلف اخبارات و رسائل میں چھپ چکا ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply