لمحہ ء فکریہ/گُل رحمٰن

آج وہ بہت خوش تھا۔ قسمت کے چار ٹکے اُس کی جیب میں بھی تھے۔ وہ خود کو کسی شہنشاہ سے کم محسوس نہیں کر رہا تھا۔

قسمت کے ٹکے؟

جی ۔۔۔۔جب اللہ دینے پر آتا ہے تو چھپڑ پھاڑ کے دیتا ہے !

اختر ایک بھکاری تھا۔ صبح سویرے چوک کے بیچ و بیچ ڈیرا لگانا اختر کا  روزانہ کا معمول تھا  اور شام ڈھلتے ہی پورے دن کی چلچلاتی دھوپ میں لال پیلا ہونے کے بعد گھر پہنچنا، کسی عذاب سے کم نہیں لگتا تھا۔
گھر ، جہاں بھوک اور افلاس دروازہ کھولے اُس کی راہ تکتے تھے۔ جس کی دہلیز کو پار کرنے کا مطلب ایسی اندھیری کھائی تھا جہاں اُس کے اندر کی چیخیں سُننے والا کوئی نہیں تھا۔ اختر بھکاری تھا اور بہت جتن کر کے وہ بیوی بچوں کے لیے دو وقت کی روٹی پوری کرتا تھا۔ کبھی دل میں آتا میں روزی روٹی کمانے کے لیے اتنی محنت کرتا ہوں اور یہ چم چماتی شاندار گاڑیوں میں سجے لوگ محنت کے نام سے کس قدر بے خبر ہیں ۔ عیش و عشرت  تو جیسے وراثت میں ملی ہو شاید ۔۔جینا تو اسے کہتے ہیں !

آخر ننگ دھڑنگ مرنا میری اور میری اولاد کے حصے میں ہی کیوں آیا ؟

ہر روز  وہ شکایتوں کی ایک پٹاری کھولتا اور منہ اندھیرے اُسے بند کرکے سو جاتا۔ بے مطلب سی زندگی چل رہی تھی۔ کیا سانس لینے کو ہی زندگی کہتے ہیں ؟ یہ سوال اختر کو بدرجہ اتم زچ کر دیتا ۔

اختر اب مکمل طور پر تھکنا شروع ہو گیا تھا۔ ندامت کا بوجھ اٹھاتے اُٹھاتے اُس کے جسم میں مزید سکت نہیں رہی تھی ۔کبھی ایک ٹکا کبھی دو ٹکے زمین سے اُٹھا لیتا۔۔ اللہ کا کوئی بندہ اگر مہربان ہوتا تو اس دن دعوت ِشیراز اُڑائی جاتی۔
لیکن آخر کب تک ؟

اختر کی اولاد بڑی ہو رہی تھی۔ انہیں بھی بھیک مانگنے کے سبھی گُن باپ سے بحیثیت اُستاد مل رہے تھے ۔ ہاں یہ فرق ضرور ہے کہ اُن کی کمائی کچھ زیادہ ہو جاتی تھی۔ معصوم شکلیں تپتی گرمی میں جھلستی، کسی کے بھی دل کو پگھلا دینے کے لیے کافی تھیں ۔درد اب روزانہ کا ساتھی تھا۔ اور اسی ساتھی کی انگلی پکڑ کر اختر ناجانے کہاں کہاں بھٹکتا رہتا۔

Advertisements
julia rana solicitors

بلآخر ایک دن اُس کے ہاتھ کامیابی کا راز لگ گیا جب اختر سڑک کے کنارے  کم سن بیٹے کو گود میں لیے“ اللہ کے نام پہ مدد کرو بھائی” کی آواز  لگارہا تھا۔
بد حال اختر ہر گاڑی میں ہاتھ بڑھاتا اور بدلے میں مایوسی ملتی۔ دھندا بہت مندہ جا رہا تھا۔ غربت کا ڈنکا پیٹتے پیٹٹے اب وہ تھک کر بیٹھنے ہی والا تھا کہ ایک شاندار موٹر کار میں سے آواز آئی
“ ادھر آ ؤ” !
اس سے پہلے کہ  اشارے کا سبز سگنل کھلتا ، اختر لپک کر گاڑی تک ہو لیا۔ گاڑی اور اندر بیٹھے جوڑے کی چمک دمک دیکھ کر اختر نے فوراً پیسے کا سوال کر ڈالا۔۔ لیکن اس کی حیرت کا کوئی ٹھکانہ نہ رہا جب گاڑی میں سوار  شخص نے بھی اختر سے اپنی حاجت کا اظہار کر دیا۔
اختر جیسے سوال سن کے ششدر رہ گیا۔ اُسے یکدم لگا جیسے دنیا ایک دم گول گھوم گئی ہو۔۔
“ کیا یہ بچہ ہمیں بیچو گے” ؟
“جتنا پیسہ چاہو ملے گا” ۔
یہ کیا ؟
اختر سمجھنے سے قاصر تھا ۔۔۔کیا لمبی چوڑی گاڑی والے بھی غریب ہوسکتے ہیں ؟
کیا اونچے مکانوں والے بھی کوئی حاجت رکھتے ہیں ؟
کیا دینے والے  ہاتھ کو کبھی لینا بھی پڑتا ہے؟
چند ہی سیکنڈ میں قسمت کے ٹکے اب اُس کی جیب میں آن گرے تھے !

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply