ہنستی شام اور چائے/حسان عالمگیر عباسی

سر غضنفر کالز نہیں اٹھاتے۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ آج جب ان سے والد صاحب نے یہ تذکرہ کیا تو فوراً جیب ٹٹولتے ہوئے کہنے لگے: ‘کھلو می دکھن دیو۔’ یکدم گویا ہوئے کہ نہ کرو جی تساں تے کوئی کال نئی کیتی! خیر میں چشم و دید گواہ ہوں کہ ان کی کم از کم بیس بائیس مسڈ کالز سمارٹ فون کے شیشے پہ لکھی تھیں جن پہ میری کانی نظر پڑ گئی تھی۔ ان کے گھر پہنچتے ہی انھوں نے بتایا کہ واٹس ایپ پہ ابھی کم از کم دس ہزار میسجز ان ریڈ ہیں۔

خیر میں اور والد صاحب بھارہ کہو کی کسی گلی کی مسجد کی پچھلی جانب ایک دیوار سے چپک گئے اور منتظر تھے کہ سر غضنفر آئیں گے تو ان کے ساتھ ان کے گھر چائے پینے چلیں گے۔ وہاں سے نکلتے ہی انھوں نے سلام عرض کرتے ہوئے کہا کہ یو کر پھرنے او تے ٹیک لائے تئیں دیوار یا لبی ایسی آ؟ اچھو جلو تکیا دینا ایسا! مجھے وہیں شک پڑ گیا تھا کہ یہ پہاڑ کے ان لوگوں میں سے ہیں جن کی حس مزاح ابھی زندہ ہے اور آج کی ملاقات زرا ہٹ کے ہونی والی ملاقاتوں میں سے ہے۔ اس سے پہلے میں ان سے کبھی نہیں ملا تھا۔ میرا تعارف کرواتے ہوئے والد صاحب گویا ہوئے کہ یہ میرا بیٹا ہے۔ کہنے لگے جنو انیارا وا۔ کر گچھی تے بل کری دکھسانس۔

کچھ کاغذات کی تصدیق کے بہانے چائے پہ ملاقات ہو گئی اور ان کی زبردست کھلکھلاتی گفتگو نے اس محفل کو طوالت سے گزارتے ہوئے چار چاند بھی لگا ڈالے۔ ان سے گفتگو کے بہت سے پہلو ہیں لیکن ان کے بتائے چار ایسے واقعات آپ کے نام کرتے ہیں جن کو سن کر بہت ہنسنے کا من چاہے گا۔ ان کا انداز نرالا تھا اور شاید میری لکھائی اس انداز کو بعین ادھار نہ لے پائے لیکن کاوش میں کوئی حرج بھی نہیں ہے!

سکول کے ہیڈ ماسٹر ہیں۔ ایک دن سکول سے باہر نکلے تو کسی نے کہا کہ اگر آپ کسی بزرگ کا ناک صاف کریں گے تو وہ انھیں دو سو روپے دیں گے۔ سر غضنفر نے کہا کہ وہ ایسا ضرور کریں گے اور اگر نہ کر سکے تو دو سو کی جگہ وہ چار سو ادا کریں گے۔ اسی دوران ایک باریش شخص بمطابق سر غضنفر کوئی تبلیغی بندہ آتے دکھائی دیا۔ کہتے ہیں میں نے ایسی زبردست ٹائمنگ کی کہ ایک ہاتھ سے ان کے گلے سے مفلر اتارا اور دوسرے ہاتھ سی وہی مفلر ان بزرگ کے ناک پہ چڑھا کر کھینچا تاکہ صفائی ہو پائے! یوں دو سو بھی ہتھیا لیے اور مفلر بھی اپنے دوست کا ہی خراب کیا۔

اسی طرح سکول سے چھٹی کے بعد کہیں جھیکا گلی کسی ہوٹل پہ آئے اور بیٹھ گئے۔ اب دیکھ رہے ہیں کہ ایک بندہ ہے جس کے سامنے ویٹر نے چائے رکھ دی لیکن انھیں اس بات کا علم ہی نہ ہوا کیونکہ جنگ اخبار کو پورا کھولے ہوئے تھے اور لفظوں پہ ان کا دھیان تھا۔ کہتے ہیں کافی انتظار کیا لیکن وہ ملکی حالات میں خاصی دیر مگن رہے۔ مجھے دکھ ہوا اور چائے بھی پشیمان تھی۔ وہ ٹھنڈی پڑ رہی تھی۔ کہتے ہیں میں نے آؤ دیکھا نہ تاؤ اور چائے کا کپ پی لیا۔ انھیں لگ رہا تھا کہ ابھی چائے آنی ہے۔ سر غضنفر نے چاول منگوائے جس مقصد کے لیے تشریف لائے تھے اور وہ کھانے لگے۔ انھوں نے چائے پی کے خالی کپ اخبار والے بزرگ کے سامنے رکھ دیا۔ اب وہ دیکھتے ہیں چائے نہیں پیش ہو رہی۔ یہ چاول کھا رہے ہیں اور خاموشی سے بنا کسی کو شک دلائے ان کی چائے بھی پہلے پی چکے ہیں۔ کنفیوژن بڑھ رہی تھی۔ انھوں نے ملازم کو کہا: اوے کنٹا ہوئی گا چا کیاں نئے دیناں؟ او چاچو پی رئے یو نا! کتنے کپ ہور پیسو؟ میں کر پیتی اے؟ یو کپ مڑے اباں اوراں خالی کیتا؟ بات آہستہ آہستہ کلمے تک پہنچ گئی اور یوں غضنفر صاحب بھی حائل ہوگئے اور کہا کہ بزرگو! ہوئی سکنا اخبار پڑھنے پڑھنے پی گئے ہوسو! انسان یو پلی وی تے سکنے یو! اوئے نہ وے! یو رامی چٹھ مارنا! دس روپے نی گلا چٹھ بولساں ہن میں؟ ہوٹل مالک بھی حائل ہوا۔ خیر وہ کہتے ہیں جب حالات آگے بڑھتے ہوئے نظر آئے تو وہ خاموشی سے وہاں سے نکل گئے۔

اسی طرح ایک بار سیر کے بعد کسی ہوٹل پہ بیٹھ گئے اور دیکھتے ہیں کہ ایک بندے کے سامنے بن (ڈبل روٹی) کے تین سے چار پیسز (حصے) ہیں۔ بندہ ایک اٹھا رہا ہے اور کھا رہا ہے لیکن اس کا دھیان مسلسل دائیں جانب آسمان کی طرف ہے۔ انھیں اس بات پہ چڑ ہوئی کہ یہ بندہ دھیان کیوں استعمال نہیں کر رہا؟ تین حصے اس نے کھالیے اور اب آخری بچا تھا۔ ابھی بھی وہ دائیں جانب اوپر آسمان پہ دیکھ رہا ہے اور کھارہا ہے۔ چوتھے پہ ہاتھ پھینکنے کی کوشش کی تو وہاں خالی پلیٹ تھی چونکہ غضنفر صاحب نے اپنا غصہ اپنے بھوکے ہاضمے کی مدد کی صورت اتار لیا تھا۔ کہتے ہیں وہ بھی اسی شک میں تھا کہ شاید وہ کھا چکا ہے۔ جب اسے پلیٹ خالی نظر آئی تو وہ ان کی طرف عجیب نظروں سے دیکھنے لگا لیکن یہ اپنے دائیں ہاتھ پہ اپنی تھوڑی رکھ کے یوں بے غم غیر متعلق ہو گئے جیسے انھوں نے ایسا کیا ہی نہیں تھا۔ کہتے ہیں وہ بل دینے چلا گیا۔ بل کی ادائیگی کے دوران بھی وہ مجھے ہی دیکھ رہا تھا۔ وہ نکل گیا تو میں بھی چائے منگوا کے پینے لگا!

یہ بہت ہی انٹرسٹنگ واقعہ ہے۔ مجھے ابھی بھی ہنسی آرہی ہے۔ ایک بار کہیں قیمہ لینے بازار گئے۔ گاڑی چلاتے کچھ شہریوں نے بھاگم بھاگ ایک کتا کچل ڈالا۔ کہتے ہیں سب اس کے گرد جمع ہو گئے تو مجھے بھی من چاہا کہ آخری دیدار ہی کر لیا جائے۔ جب دیکھا کہ ایک جم غفیر ہے اور حالات مشکل ہو رہے ہیں تو کہنے لگے کہ میں نے زوردار کہا: ٹرنے ریو ٹرنے ریو, اگر منہ دیکھی رہے یو تے لنگنے جلو, ہور وی بندے دکھسن نیاں!

Advertisements
julia rana solicitors london

اس کے بعد رسمی گفتگو کا آغاز ہوا اور میں کراچی کی خبر لینے فون لگائے بیٹھا رہا اور یوں ایک زبردست شام نصیب میں لکھی ہاتھ آ گئی۔ ایسے ہی لوگوں کی وجہ سے باقی بھی محظوظ ہوتے ہیں۔ آج کے اس دور میں اگر آپ کو کوئی لطیفہ سنا رہا ہے، میم بھیج رہا ہے، یا کہیں مینشن ہی کر دیتا ہے یا کسی بھی طرح انٹرٹین کر رہا ہے تو اس کا تہے دل سے شکریہ بنتا ہے ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply