سادات کرام، ہجرتوں کے مسافر/سیّد ثاقب اکبر

علم الانساب ایک وسیع اور قدیم علم ہے۔ ویسے تو ہر خطے کی اہم اقوام کی طرح عرب ہر زمانے میں نسب شناسی میں دقت سے کام لیتے تھے اور جو لوگ اس علم میں مہارت رکھتے تھے، ان کا احترام بھی کیا جاتا تھا، البتہ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ انساب کا تحریری سلسلہ بہت بعد میں سامنے آیا۔ اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ عربوں کے ہاں لکھنے کا رواج بہت کم تھا۔ اسلام کے ظہور نے اس کو بام عروج تک پہنچایا۔ حدیث، تاریخ، سیرت اور مغازی(جو اصولی طور پر بعد میں تاریخ اور سیرت کا ہی حصہ بن گیا) جیسے موضوعات میں عربوں نے جو امتیازات پیدا کیے، علم الانساب سے ان کی دلچسپی کو اس کا سرچشمہ قرار دیا جاسکتا ہے۔ علاوہ ازیں علم الرجال جیسے علوم کی بنیاد علم انساب ہی کے ذوق کا نتیجہ ہے۔ ملل و نحل اور اقوام کے بارے میں مسلمانوں کی کتب اور بحثیں اسی علم کی ارتقائی صورتیں قرار پا سکتی ہیں۔

بنی اسرائیل میں بھی نسب شناسی کا رجحان خاصا نمایاں دکھائی دیتا ہے، لیکن بنی اسماعیل میں اسے زیادہ فروغ حاصل ہوا۔ بنی اسرائیل میں انبیاء کے سلسلے نسلاً بعد نسلٍ چلتے رہے۔ جہاں دوسری قوموں سے ان کے معرکے جاری رہے، وہاں باہمی آویزشیں بھی ہوتی رہیں۔ بہرحال قبائل میں ایک دوسرے سے امتیاز کے دعوے ایک طرف منفی پہلو رکھتے ہیں تو دوسری طرف نسب کی حفاظت کا بھی باعث بنتے ہیں۔ عرب معاشرے میں قریش کو پہلے ہی اہمیت حاصل تھی، جس پر خود قرآن حکیم کی سورہ قریش شاہد ہے، تاہم نبی کریم ؐ کی اس خاندان میں تشریف آوری کے سبب اس کی اہمیت دو چند نہیں بلکہ کئی چند ہوگئی۔ رسالت مآبؐ کی پیش گوئی کے مطابق چونکہ آپؐ کی اولاد میں ہدایت کا سلسلہ جاری رہنا تھا، اس لیے مطلبی، طالبی، علوی اور فاطمی کہلانے والے سلسلے امت میں ایک خاص مقام کے حامل ہوگئے، جسے سیاسی اہمیت سے بڑھ کر روحانی اور معنوی مقام حاصل تھا۔

سیاسی طالع آزمائوں اور اقتدار کے حریصوں نے ان سے جو سلوک کیا، اس سے قطع نظر عوام میں نبی کریم ؐ اور آپؐ کے خانوادے سے بے پناہ محبت اور احترام پایا جاتا ہے۔ مزید برآں رسالت ماٰب ؐ نے خود بھی اپنے نسب کے بارے میں ایسی باتیں ارشاد فرمائی ہیں، جن کے پیش نظر امت میں آپؐ کے خاندان اور بنی ہاشم کو ہمیشہ ایک خصوصی احترام حاصل رہا۔ مثلاً ایک معتبر حدیث میں آپؐ نے فرمایا: “کل سبب و نسب منقطع یوم القیامۃ الا سببی و نسبی“(1) “قیامت کے دن ہر تعلق اور نسب ختم ہو جائے گا، سوائے میرے تعلق اور نسب کے۔” رسول اللہ ؐ نے یہ بھی فرمایا: “تعلموا انسابکم (لتصلوا) ارحامکم۔”(2) “اپنے نسب کو سیکھو، تاکہ تم رشتے داروں کے ساتھ حسن سلوک کر سکو۔”

بیہقی نے اپنی کتاب دلائل میں حضرت انسؓ سے ایک روایت نقل کی ہے، جس کے مطابق نبی کریمؐ نے اپنا شجرہ نسب یوں بیان فرمایا ہے: “انا محمد بن عبد اللہ بن عبد المطلب بن ھاشم بن عبد مناف بن قصی بن کلاب بن مرۃبن کعب بن لوی بن غالب بن فھر بن مالک بن النضر بن کنانۃ بن حزیمۃ بن مدرکۃ بن الیاس بن مضر بن نزار بن معد بن عدنان وما افترق الناس فرقتین الا جعلنی اللہ فی خیر ھمافاخرجت من بین ابوی فلم یصبنی شئی من عھد الجاھلیۃ وخرجت من نکاح ولم اخرج من سفاح من لدن آدم حتی انتھیت الی ابی و امی فانا خیرکم نسبا و خیر کم ابا۔”(3) “میں محمد بن عبداللہ بن عبد المطلب بن ہاشم بن عبد مناف بن قصی بن کلاب بن مرۃ بن کعب بن لوی بن غالب بن فھر بن مالک بن النضر بن کنانۃ بن حزیمۃ بن مدرکۃ بن الیاس بن مضر بن نزار بن معدبن عدنان ہوں۔ اللہ نے لوگوں کو دو گروہوں میں تقسیم کیا تو مجھے بہتر میں سے قرار دیا۔ مجھے ایسے ماں باپ نصیب ہوئے کہ جن کی بدولت مجھے جاہلیت نے چھوا تک نہیں اور آدمؑ سے لے کر خود مجھ تک میرا سلسلہ جائز نکاح کے ذریعے قائم ہے۔ میں نسب اور سلسلہ آباء کے لحاظ سے تم سب سے بہتر ہوں۔”

اس حدیث شریف سے جہاں دیگر کئی ایک امور واضح ہوتے ہیں، ان میں سے ایک یہ ہے کہ آنحضرتؐ کو  اپنے پاک سلسلۂ نسب پر بھی افتخار رہا ہے۔ اس سے علم الانساب کی اہمیت پر بھی روشنی پڑتی ہے۔ اسی طرح قرآن کریم میں حکم دیا گیا ہے: “قُل لَّا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْرًا إِلَّا الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبَى“(4) “(اہل ایمان سے) کَہہ دیجیے کہ میں تم سے اپنی رسالت کا کوئی اجر نہیں مانگتا، سوائے اس کے کہ تم میرے قربیٰ سے محبت و مودت اختیار کرو۔” اس کے ذیل میں آنے والی روایات اور آنحضرتؐ کے فرمودات اس بات کا سبب بنے کہ نسل رسول ؐ امت کے مابین ایک خاص محبوبیت کی حامل ہوگئی۔ متعدد روایات ایسی موجود ہیں، جن میں آنحضرتؐ نے اپنی اولاد سے محبت کا حکم فرمایا ہے۔ ان میں سے یہ روایت بہت شہرت رکھتی ہے اور محققین نے اس کی تائید کی ہے: “أحبوا أولادی، الصالحون للہ والطالحون لی۔”(5) “میری اولاد سے محبت کرو، نیکو کاروں سے اللہ کے لیے اور بدعملوں سے میری نسبت کی وجہ سے۔”

اہل بیت ؑ نے اپنی قربانیوں سے بھی ثابت کیا کہ وہ اعلیٰ درجے کی عزت و احترام اور محبت کے لائق ہیں۔ انھوں نے دین اسلام کی بقاء کے لیے اپنی جانوں کے نذرانے جس انداز سے پیش کیے، اس کی مثال نہیں ملتی۔ اسی طرح اس خاندان میں اولیاء، علماء، حکماء، فقہاء اور عرفاء کا ہر دور میں کثرت سے ہونا بھی اس سلسلۂ نسب کی انتہائی توقیر و تعظیم کا سبب بنا۔ میدان سیاست بھی اس خاندان کی جولان گاہ رہا اور آج بھی سیاست کے نہایت اہم مناصب پر اس خاندان کے فرزند دیکھے جاسکتے ہیں۔ عامۃ الناس اگرچہ اتنی باریکی میں نہیں جاتے، لیکن خواص اور اہل نظر ان امور کی اہمیت کو سمجھتے ہیں۔

بعض شرعی احکام بھی ایسے ہیں، جن سے نبی کریمؐ کی اولاد کے خصوصی اور منفرد مقام کا اظہار ہوتا ہے۔ مثلاً آپؐ کی اولاد پر صدقہ کو حرام قرار دیا گیا ہے۔ سادات نے بھی رشتوں ناتوں کے حوالے سے احتیاط کی ہے۔ ان سب امور کی وجہ سے ان کے نسب ناموں کی حفاظت کے سلسلے کا آغاز ہوا۔ عرب دنیا اور ایران میں سادات کی شناخت کے حوالے سے مشکلات نہیں ہیں، لیکن برصغیر میں آنے کے بعد زمانی اور مکانی فاصلوں کی وجہ سے نسب کا معاملہ شکوک و شبہات کا شکار ہوگیا۔ اگرچہ اس کی دیگر وجوہ بھی ہیں، تاہم تقسیم ہند کے بعد خاندانوں کے اختلاط اور نئے آباد ہونے والے خاندانوں میں سے بڑی تعداد کے دعویٔ سیادت کی وجہ سے شکوک و شبہات میں مزید اضافہ ہوا ہے۔

ایسی صورت حال میں یہ مسئلہ اہمیت اختیار کر گیا ہے کہ سادات کے نسب کو خلط ملط ہونے سے بچایا جائے۔ شک نہیں کہ تقویٰ، نیکی اور پرہیزگاری سے انسان کمال حقیقی کی منزلیں طے کرتا ہے اور قرآن حکیم کی تعلیمات کی روشنی میں تقویٰ ہی کو معیار فضیلت سمجھا جانا چاہیئے۔ تاہم سادات کے نسب کی خصوصی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا، جیسا کہ قبل ازیں دلائل کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ ہم اپنی اولاد اور عزیزوں کو نصیحت کرتے ہیں کہ نسب پر ہی انحصار اور افتخار نہ کریں بلکہ تقویٰ اور پرہیزگاری کو اختیار کریں، کیونکہ اللہ کی نگاہ میں وہی زیادہ صاحبِ کرامت ہے، جو تقویٰ میں ممتاز ہے۔ سادات کو اگر خصوصی اہمیت اور احترام سے نوازا گیا ہے تو پھر انھیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیئے کہ ان کی ذمہ داری دین اسلام کے اصولوں کی عملی حفاظت کے اعتبار سے دوسروں سے سوا ہے۔ وہ نیکی کا راستہ ترک کریں تو انھیں کل کو اپنے آبائے اطہارؑ کے سامنے شرمساری کا زیادہ سامنا کرنا پڑے گا۔

ان چند سطور کے لیے مہمیز کا باعث برادر عزیز سید مونس رضا نقوی البھاکری کی نوتصنیف کتاب ’’ہجرتوں کے مسافر‘‘ ہے۔ برادر عزیز کی اس گراں مایہ کاوش کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے اسے تحریر و تسطیر اور تحقیق و تدقیق کے میدان میں ان کا نقش اول قرار دیتے ہیں اور داغ دہلوی کے الفاظ میں دعا گو ہیں:
خط ان کا بہت خوب، عبارت بہت اچھی
اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
منابع:
1۔الجامع الصغیر للسیوطی، حدیث نمبر6309
2۔اس حدیث کو عمدۃ الطالب : ۲، المشجر الکشاف: ۸، صحاح الاخبار :۳ نے درج کیا ہے۔ حافظ جلال الدین سیوطی نے بھی یہ حدیث اپنی کتاب الجامع الصغیرمن حدیث البشیر النذیر میں ذکر کی ہے اوراسے درست قرار دیا ہے۔
3۔الجامع الصغیر۱: ۲۶۱، حدیث ۲۶۸۲) ماخوذ از جامع الانساب ، روضاتی
4۔الشوریٰ:23
5۔مستدرک الوسائل،ج12،ص 376،روایت  نمبر14339

Advertisements
julia rana solicitors

بشکریہ اسلام ٹائمز

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply