میں تو چلی چین/عظیم شہر سپاہ (قسط11) -سلمیٰ اعوان

اس وقت اس اجنبی سرزمین پر چمکتا سورج تیز ہواؤں سے جس جس انداز میں دھینگا مشتی میں جُتا ہوا تھا۔ اس نے مجھے ہَوا اور سورج کی لڑائی والی کہانی یاد دلائی تھی کہ میں بار  بار اپنے کوٹ کے دونوں پلوؤں سے سینے کو ڈھانپنے میں لگی ہوئی تھی۔ بٹن بند کرنے مشکل تھے کہ کوٹ سینے سے تنگ تھا۔

عمران کی چینی زبان کی سوجھ بوجھ یہاں سب ناکارہ ہوگئی ۔ماشاء اللہ سے ہیرا پھیریوں میں ان چینیوں کا بھی جواب نہیں۔میوزیم کے لیے اسٹیشن کے ساتھ ہی بسوں کا اڈہ ہے۔
تاہم اجنبیوں کو دیکھ کر پہلے تو چار چھ کا گروپ اکٹھا ہوگیا۔ایک نے کہا۔‘‘بس تھوڑا سا چلیے East Sq پہنچ کر پانچ نمبر لین میں جانا ہے۔’’

اب اِس مفت کی نیکی میں ذرا فاصلے پر کھڑے تین اور آدمی اپنی خدمات کے ساتھ میدان میں کود پڑے۔اُن کی بانہوں کے اشارے ،تکونی آنکھوں کی دائیں بائیں گردشیں اور ایک دوسرے سے اونچی آواز میں تکراریں اس زور وشور سے تھیں کہ لگتا تھا جیسے وہ لڑرہے ہوں۔پتہ چلا تھا کہ دیگر دو بندوں نے پہلے والے کو لتاڑتے ہوئے کہا تھا۔
‘‘ارے اونا معقول اتنا بھی نہیں پتہ وہ بند کردیا ہے۔نیا فان چی چھنگ Fangzhicheng میں ہے۔یہاں سے ٹیکسی یا میٹرو میں وہاں جاسکتے ہیں۔’’
‘‘گولی مارو۔عمران نے جھلّا کر کہا۔ٹیکسی میں چلتے ہیں۔’’
زیادہ فاصلہ نہیں تھا بس یہی کوئی ہمارے پرانے پچیس چھبیس میل۔
راستے میں میری زبان سے یونہی نکل گیا۔
‘‘اُف خدایا عمر کے کس حصّے میں تو نے یہ عنایتیں میرے اوپر نازل کیں۔’’
عمران نے فوراً دلجوئی کی۔‘‘گھبرائیے نہیں اندر ویل چیئر کا انتظام ہوگا۔دیکھ لیں گے۔’’

اب سوچتی اور دل ہی دل میں کہتی ہوں۔یہاں دیکھنے وکھانے والی چیزوں کا تو انبار لگا پڑا ہے۔داماد جی کو تو ٹرپ بڑا مہنگا پڑے گا۔عمر کی اِس دراز موری کے کس کس سوراخ کو بیچارہ کِس کِس موڈ سے بند کرے گا۔

ٹیکسی نے جب پارکنگ ایریا میں اتارا تو پتہ چلاکہ لو بھئی اب منیر نیازی کو تو یاد کرنا بہت ضروری ہوگیا ہے۔ابھی تو کوئی میل بھر اور چلنا ہے تب منزل آئے گی۔شکر خدا کا کہ گولف کارٹ Golf Cartنے مشکل آسان کردی۔کارٹ میں کھلے ڈلے پانچ لوگ بیٹھے۔تین ہم اور ایک ہندوستانی جوڑا۔اوشا اور پران۔فی الفور باتیں بھی شروع ہوگئیں۔کاروباری لوگ تھے۔گوابھی سیاحتی موسم نہیں تھا۔مگر لوگوں کے پُرے کِس جوش و جذبے سے بیگ مونڈھوں پر ڈالے بھاگتے چلے جارہے تھے۔

کیا نظارہ تھا۔ سرسبز لانوں کا وسیع و عریض سلسلہ، اُن میں کہیں کہیں مسکراتے پھول۔ابھی شاید اُن پر جوانی کا جوبن نہیں آیا تھا۔آپ کے دائیں بائیں شاندار عمارتوں کے سلسلے، بڑی بڑی بسیں اور لوگوں کے پُرے گویا جنگل میں منگل کا سا سماں تھا۔

عین داخلی گیٹ کے سامنے اُترے۔گائیڈوں کے ٹولے شہد کی مکھیوں کی طرح چمٹنے کے لیے بے تاب لگتے تھے۔ اوشا لوگوں نے ٹکٹ لینے تھے۔ہمارے بُک تھے۔زبان کی ہم نوائی بھی کِسی نعمت سے کم نہیں۔پل جھپکتے میں اجنبیت سے پُر ماحول میں مانوسیت اور اپنائیت کی خوشبو بکھیر دیتی ہے۔ہنستے مسکراتے خدا حافظ کہا۔عمران نے اندر داخل ہونے سے قبل وہیل چیئر لینے کے لیے میری رائے مانگی۔
اس وقت میں نیلے چمکتے طلائی کرنوں کی بارش کرتے آکاش تلے کھڑی گردوپیش کو دیکھتی تھی۔میرے اردگرد مزے مزے سے چلتی موٹی تازی بڑی بوڑھیاں باتیں کرتی، ہنستی مسکراتی گزر رہی تھیں۔
‘‘یا اللہ میں کیا اتنی گئی گزری ہوں۔پہلے تو خود پر لعنت بھیجی یہ کہتے ہوئے۔ ڈوب مرکسی کھوکھاتے میں۔ان کو دیکھ عمر میں یقیناً تجھ سے زیادہ ہی ہوں گی۔مگر ہمت اور توانائی کیسی جوانوں جیسی ۔تیری صحت اچھی ،کاٹھی مضبوط تجھے کیوں دورے پڑ رہے ہیں؟’’
عمران کو دیکھتے ہوئے ہنسی۔‘‘بھئی ابھی تو چاہت کا آغاز ہی ہوا ہے۔دیکھیں تو سہی اس دل کے ولولے کتنا سا تھ نبھاتے ہیں؟
سچی بات ہے میں نواسوں کے توسط سے میوزیم سے کچھ کچھ آشنا ضرور ہوئی تھی۔مگر یہ تو گمان کے کِسی حصّے میں بھی نہیں تھا کہ اندر داخل ہوتے ہی حیرتوں کے جیسے برقی جھٹکوں سے منہ کے بل گروں گی۔

اگر بیٹی اور داماد ساتھ نہ ہوتے تو منہ کے بل گرنا تھا اور کوئی ہڈی پسلی ٹوٹنی ہی ٹوٹنی تھی۔وسیع و عریض ہال کی وسعتوں کی کیا بات کروں کہ نظریں شرمندہ ہوہو جاتی تھیں۔

داخلہ Pitنمبر ایک سے ہوا جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ سب سے زیادہ متاثر کُن ہے۔حیرت زدہ کہوں یا سحر زدہ کہوں۔بس اتنا یاد ہے کہ ایک پُر فسوں سا ماحول جس میں بندہ سانس لیتے ہوئے ڈرتا ہے۔حالانکہ یہ یقین بھی ساتھ ساتھ چل رہا تھا کہ منظر نامہ حقیقی تو ہے مگر محفوظ ہے۔مگر اب بوڑھے دل کو کون سمجھائے؟

لوگ جیسے دھیرے دھیرے چلتے تھے۔اطراف میں بنے اُن کشادہ راستوں پر جن پر پُلو ں کی صورت کا گمان پڑتا تھا۔جہاں اگر چینیوں کی کثرت تھی تو غیر ملکی بھی بہتیرے تھے۔

تعمیر ی ڈھانچے کی بلندیوں سے اطراف کی جانب پھوٹتی روشنیوں میں زمینی گڑھوں میں ایستادہ فوجی جیسے لام پر جانے کے لیے صف بستہ ہوں۔کہیں تین،کہیں چار کی قطاروں میں چاق و چوبند،جنگی لباس پہنے کہیں اُن پر سجے نشان جو یقیناً تمغوں کے ہی ہوں گے۔برونز ہتھیاروں کو تھامے،اپنے آگے کھڑے چھ فٹ سے کہیں زیادہ نکلتی قامت کے جرنیل کے بس جیسے حکم کے منتظر ہوں۔
سچ تو یہ ہے کہ دیکھنے سے قبل احساسات کچھ عجیب سے تھے مگر جب دیکھا تو فرط حسن سے نہیں فرط حیرت سے انگلیاں کاٹنے والی بات تھی۔دنیا کا بے حد چونکانے والا حد درجہ متاثر کن ،حیرت انگیز عجوبہ۔

مٹی گارے کے تراشیدہ مجسموں کا تو اُن پر گمان نہیں ہوتا تھا۔ بھول جائیں چند لمحوں کے لیے کہ جو کچھ آپ کے دماغ میں ہے۔صرف انہیں دیکھیں جو زندگی اور اپنے چہروں  پر مختلف تاثرات کے ساتھ آپ کے سامنے کھڑے ہیں۔بس اُس اذن کے منتظر کہ جیسے ابھی لام پر جانے کے لیے طبل جنگ بجے گا اور وہ کوئیک مارچ، کوئیک مارچ کرتے نکل کھڑے ہوں گے۔چلتے چلتے کِسی کِسی لمحے آپ کو کچھ یوں بھی محسوس ہوتا جیسے ابھی ان کا جرنیل اشارہ کرے گا اور وہ بس دشمن پر ٹوٹ پڑیں گے۔گو اس وقت دشمن تو ہم سیاح لوگ ہی تھے۔

آنکھوں کے ساتھ ساتھ ذہن بھی مصروف کار تھا۔ سوال کرتا تھاآخر اِن بادشاہوں کو کوئی کام نہیں ہوتا تھا۔ یہ اتنے ویلے (فارغ) ہوتے تھے۔فرعونوں کے ہاں بھی یہی ذہنیت کارفرما تھی کہ بس وقتِ مرگ آگیا ہے۔مُردے کے ساتھ سب خزانے مال دولت کو دفن کردو۔

سچی بات ہے قبلِ مسیح کے بادشاہوں کے کتابچے کھول لو یا بعد مسیح کی تاریخیں پڑھ لو۔سب ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے تھے۔مگر گزرتے وقت ،تعلیم اور تہذیب نے کیا انسانی سوچ کو بدل دیا۔اُن کی فکر پر کوئی مثبت اثر ڈالا۔ہر گز نہیں۔یہی سوچ یہی فکر مختلف رنگوں اور مختلف شکلوں میں آج بھی انسان کے ساتھ چمٹی ہوئی ہے۔
اور ہاں ایک اور ستم ظریفی بھی ذرا ملاحظہ کریں۔شہنشاہ چھن شی چنگ Qin Shi Huangنے ہراس بندے کو مارد یا جس نے اسے بنایا یا کسی نہ کسی انداز میں اس کام میں مدد کی۔ اور ستم بالائے ستم کچھ کو زندہ بھی دفن کیا۔ کوئی آدمی زندہ نہیں رہنے دیا گیا کہ جو یہ بتا سکے کہ 8لاکھ لوگوں کی فوج اور کانسی کی رتھیں کہاں دفن ہیں؟تاریخ کو تو یونہی موردِ الزام ٹھہرایا جاتا ہے ۔مثالیں دینے کی بھی بھلا کوئی ضرورت ہے۔ایسا تو ہر عہد کے کم و بیش ہر طاقت ور نے کیا کہ وہ تو ذات میں خدا تھا۔

چلیے دو سو دس قبل مسیح چین کا پہلا بادشاہ تو بھئی پہلے بادشاہ کا بہت بڑا کارنامہ سامنے آگیا۔چلو جو کچھ بھی کیا دولت کا بے دریغ استعمال کیا۔لوگوں کو مروایا۔مخلوق خدا کو فضول کاموں پر لگایا۔پر صدیوں بعد کی نسلوں کو تحفہ مل گیا ناآٹھویں عجوبے کا ۔ اورہاں اپنی نسلوں کے لیے کمائی کا راستہ بھی ہموار کردیا ۔ عثمانی سلطنت اور مغل سلطنت کے عہد ساز مسلمان حکمرانوں کو دیکھ لیں۔زاروں کو یاد کرلیں ،یورپ کے تاجداروں کے قصّے پڑھ لیں۔ چوڑ چانن سب روشن ہوجائے گا۔

اب دو باتوں نے جکڑ لیا تھا کیونکہ معاملہ دو انتہاؤں کے درمیان کا تھا۔ہزاروں سال پہلے مسیح موعود سے بھی سینکڑوں سال کوئی 210-246 کے ہیر پھیر میں سلطنت کے پہلے بادشاہ چھن شی Qin shi Huang کے دور میں یہ شاہکار تخلیق ہوا اور بیسویں صدی کے آٹھویں عشرے میں دریافت ہوا۔اور ہوا کیسے ؟
یہ بھی بڑی دلچسپ کہانی ہے۔ شی آن کے لنٹونگ کاؤنٹی Lintong county شہر کے نزدیک ایک جگہ دو بھائیوں نے ایک کنواں کھودنے کا ارادہ کیا۔اُن کی فصلوں کو پانی کی شدید ضرورت تھی۔اِس بارے بھی اختلاف ہے۔ایک حوالہ تو دیہی کسانوں کا ہے۔اُن کے مشکل مشکل نام بھی درج ہیں۔بہرحال دو ہوں یا نو یا دس بیس۔سلسلہ تو یہ جڑتا ہے کہ جب انہوں نے منتخب کردہ زمین پر ہتھوڑے چلانے شروع کیے تو اُن میں سے کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ یہ جگہ جو صدیاں سے بدلتی رُتوں کے قہر ،جبر اور مہربانیوں کا بار اُٹھائے ہوئے ہے اپنی تہہ میں ایک خزانہ چھپائے بیٹھی ہے۔

یہ 1974کا موسمِ بہار تھا۔تباہ کُن سردی اور برچھی کی کاٹ جیسی ہوائیں اپنے سینوں پر جھیلنے کے بعد رُت بدلی تھی۔درختوں پر پتوں نے پھوٹ کر نئے موسم کی خوشخبری دی تھی۔پھاوڑے چلاتے چلاتے ایک نے رُک کر دوسرے کو دیکھا۔ فضا کو مسرور سی نگاہوں سے گھورا اور آخر میں کہا۔
‘‘کاش زیادہ گہرا نہ کھودنا پڑے۔ پانی میٹھا بھی ہو اور چاندی جیسا اُجلا بھی۔’’

دفعتاًایک دیہاتی کو کچھ برتنوں کے ٹکڑے نظر پڑے۔حیرت سے وہ اُن کی طر ف لپکا۔ان میں سے کچھ انسانی صورتیں اور کچھ جانور دِکھتے تھے۔بات پھیلی تو گاؤں اکھٹا ہوگیا۔پھر اردگرد گاؤں کے لوگ آنے لگے۔ شدہ شدہ بات آثارِ قدیمہ کے ماہرین تک جا پہنچی۔ اور پھر نیچے سے Terracota Army کا ایک جہان اُبل پڑا۔
اب بھلا اس سوال نے سر نہیں اُٹھانا تھا؟ اُٹھا یا کہ دریافت 1974ء سے 78 کے لگ بھگ تک ہوتی رہی تھی۔ کیا قوم ہے یہ۔صدہزار بار آفرین ہے چینی حکومت پر ایک دُنیا آباد کردی تھی انہوں نے۔ تاریخ کا روشن باب کھل گیا تھا۔جنگل میں منگل کا سماں پیدا کردیا تھا۔

اورصرف پچیس سالوں میں چینی قوم نے اِس درجہ شاندار میوزیم اور اِردگرد ہنگاموں سے پُر ماحول پیدا کرکے دنیا کو اپنا قابلِ فخر ورثہ دکھا کر مجبور کردیا کہ وہ مانیں کہ یہ دُنیا کا آٹھواں عجوبہ ہے۔ اب ہر گز اپنے ملک اور قوم کی کرتوتیں اور اُن کی نالائقیوں کے رنڈی رونے نہیں رونے۔تاریخ و ثقافت سے لبالب بھرے شہر ملے تھے ہمیں جن کے ہم نے تخم مار دیئے ۔

یہ بھی کیسی تعجب کی بات تھی کہ صدیوں پرانے لوگوں کو سائنس سے آشنائی تھی ۔ ایسے وقتوں میں جب سائنس اور اس کی تعلیمات کا سراغ نہیں ملتا۔قبل مسیح سے بھی سینکڑوں سال پہلے کے لوگ جانتے تھے کہ انہیں انسانوں اور چیزوں کو محفوظ کیسے کرنا ہے؟برونز کے ہتھیاروں کی چمک دمک قائم ، اُن کے بلیڈوں کی دھار تیز دیکھنے میں آئی تھی۔چند اوزاروں پر کرومیئیمChoromiumکی موجودگی نے بتایا تھا کہ وہ اس کے خواص سے آگاہ تھے۔فطرت آج فیاض ہے تو صدیوں پہلے بھی ایسی ہی تھی۔

دوسوالوں کو تو چلو مطمئن کردیا مگر اب کیا کروں کہ نئے نئے سوال اُٹھ رہے تھے۔ کتابچے میں تحریر تھا کہ تینوں Pitsکا اگر تفصیلی اور تنقیدی جائزہ لیا جائے تو ایک جیسی صورتوں کا نظر آنا اگر نا ممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔ والٹ نمبر 1 میں عام سپاہ تھی۔ڈھیروں
ڈھیر جس کا ہر فوجی اپنے خدوخال ،اپنے بالوں،اُن کے رنگ، ہیر اسٹائل، اپنے حبثّے اپنی قد و قامت سبھوں میں مختلف تھے۔اب بھئی انِ کے دعوؤں کی تردید تو مجھے کرنی نہیں کیونکہ میرا ذاتی مشاہدہ تو گڈ مڈ ہوا پڑا تھا۔کہیں ایک کی صورت پر دوسرے کا گمان گزرتا تھا۔ شاذ و نادر ہی کوئی صورت قطی طور پر دوسرے کے بر عکس نظر آئی تھی۔ گو میں نے سارے Pitsضرور دیکھے مگرمجھے اعتراف ہے کہ اس اتنے مختصر سے وقت میں باریکی اور گہری تنقیدی آنکھ سے انہیں دیکھنا کہیں ممکن تھا۔

ہاں مگر سب سے بڑے پٹ میں اگر ہزاروں کو سرسری سی نظر سے دیکھا تو بھئی کچھ ایک ہی جیسے لگے تھے۔سچی بات ہے اولین تاثر میں تو اندر باہر حیرت اور تعجب ہی غالب رہا۔مگر یادداشتوں کو آواز دوں۔دماغ پر زور ڈالوں تو کہیں فرق کی جھلکیوں کے لشکارے بھی ملتے ہیں۔

چلو میری رائے اور نظر کو تومارو گولی! جو تحریر ہے اُسے ہی جانا جائے تو پھر یہ سوال بھی اُٹھتا ہے کہ انفرادیت خالق ِکائنات کی صفت ہے۔ کیا شہنشاہ کے دل میں کہیں خدا بننے کی خواہش تھی۔ ویسے تو یہ بات مسلم ہے کہ ایسی خواہش تو ہمیشہ سے کیا ماضی اور کیا حال کے حکمرانوں کے دلوں میں رہتی تھیں اور رہتی ہیں۔اس کا اظہار بھی اُن کے قول و فعل سے ہوتا رہا ہے۔

پٹ نمبر دواور تین علی الرتیب چھوٹے تھے۔سچ تو یہ ہے کہ پٹ نمبر 2نے بہت متاثر کیا۔یہاں ایسی خوبصورت رتھیں کہ ہر ایک کے تعاقب میں تین تین بے حد خوبصورت رتھیں اور گھوڑے تھے کہ بے اختیار چھلانگ مار کر ان میں بیٹھنے کو جی چاہتا تھا ۔ تین قطاروں میں منقسم ہر گھوڑے کے سامنے کھڑے سپا ہی جس کے ایک ہاتھ میں لگام اور دوسرے میں کمان۔اتنی خوبصورت مجسمہ سازی کی تفصیل کیا سناؤں۔بس یہی کہ بندہ عش عش کر اُٹھے اور یہ محسوس کرے کہ بس تیر تو اب آپ کے سینے میں ہی اُتر جائے گا۔

پیدل چلتے سپاہی کہیں بیٹھے، کہیں کھڑے،کہیں گھٹنوں کے بل جھکے، کہیں سر کو خم کیے، یوں بھی سب ملے جلے جیسے پوزوں کے ساتھ حیرتوں کا ایک جہاں وا کرتے تھے۔ آپ کو اپنی آنکھیں پھاڑنے پر مجبور بھی کرتے تھے۔

اولین مجسموں پر سورج کی کرنوں اور ہوا نے منفی اثرات چھوڑے۔ ان کے رنگ و روغن بہت متاثر ہوئے۔اصلی شکلیں تو سب رنگین تھیں۔اب صدیوں کے بعد کچھ تو نقصان ہونا تھا ۔بہرحال انہیں وہی پینٹ کیا گیا۔ ٹوٹے پھوٹے چہروں اور اجسام کی مرمت کی گئی۔مرمت کا کام تو ابھی بھی جاری ہے۔

پٹ نمبر 3 پٹ نمبر 1 کے پیچھے تھا جبکہ نمبر2 ذرا ہٹ کر تھا۔ نمبر 3 کو ایک طرح ہیڈکوارٹر کی سی حیثیت حاصل تھی۔ اس کا شمالی ونگ روم فتح کیلئے دعا مانگنے کے لیے مخصوص تھا۔ جنوبی ونگ روم فوجی مشاورت کے لئے۔

سچی بات ہے اس فوج کے اتنے بڑے کھلار اور پسار کو سمیٹنا نہ تو میری ٹانگوں کے بس کی بات تھی اور نہ ہی آنکھوں کی۔ ہلکان ہو گئی تھی۔پٹ نمبر 2اور تین کے لیے تو میں ہر گزہر گز تیار نہ تھی۔اللہ دونوں میاں بیوی کو زندگی اور سلامتی دے۔ معلوم نہیں انہوں نے کب وہیل چیئر کا بندوبست کرلیا تھا۔سچی بات ہے اِسے نہ دیکھنا زیادتی کی بات ہوتی ۔ہاں البتہ کافی بار سے دو بار کافی بھی پلا دی تھی۔دونوں کا کہنا تھا ساری تھکن بلاٹنگ پیر کی طرح اس میں جذب ہو جائے گی۔ پر مجھے بلڈ پریشر بڑھنے کا خوف پریشان کر رہا تھا۔

جب صدیوں پہلے کے مردہ انسانوں کی دُنیا سے نکلے اور زندہ انسانوں کو دیکھا تو چہل پہل اور رنگا رنگ میلے کا جہاں بھرپور انداز میں متوجہ کرتا تھا۔ بازار سجے تھے۔ خریداریوں کے سلسلے ،آوازیں لگاتے لونڈے مرد آپ کو پکارتے نظر آتے تھے۔ کونسی چیز یہاں نہیں تھی؟ مگر قیمتیں باوا کے مول تھیں۔عمران نے شی آن کے ڈاؤن ٹاؤن سے خریدنے کا مشورہ دیا۔اس لیے سب کو دور دفعان کیا۔ ہاں البتہ کتابیں میری کمزوری تھیں۔مگر وہ بھی بہت مہنگی۔ سوچا بوجھ اُٹھانے سے ابھی پرہیز کیا جائے۔
پس تو خدا حافظ کہااس عظیم شہرِسپاہ کو!

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply